Kitab Ul Muneer (1)
کتاب المنیر (1)
عبدالرحمن۔
بہت دنوں بعد تم کو خط لکھ رہا ہوں۔ پچھلے کسی خط میں ایک عظیم سیلاب کا ذکر ہوا تھا۔ یہاں سے ایک نئی بات یاد آتی ہے۔ اس بڑے سیلاب کے دوران نوح کی کشتی پر ایک بچہ پیدا ہوا۔ اس بچے کا ذکر عربی کی ایک بہت پرانی کتاب The Book of Scrolls یعنی قدیم صحیفوں کی کتاب میں بھی ہے، اس بچے کے بارے میں سن 1221 میں شام میں لکھی گئی ہے کتاب "کتاب النحل" یعنی شہد کی مکھیوں کی کتاب میں بھی لکھا ہوا ہے کہ اس عظیم سیلاب کے دوران کشتی پر ایک بچہ پیدا ہوا تھا جو بعد میں اس جگہ رہا جو آج کے دور کا اٹلی ہے۔ اس بچے کے بارے میں پانچویں صدی کی ایک ایتھوپین کتاب آدم، حوا اور شیطان، ساتویں اور نویں صدی کی کتابوں میں اس بچے کے بارے میں بڑی تفصیل لکھی ہے۔ ان تمام کتابوں میں لکھا ہے کہ کیسے اس بچے نے بڑے ہو کر ستاروں کے علم کی دریافت کیا۔۔
سرزمین عراق کا علاقہ چار ہزار سال تک چار بہت بڑی اور بہت پرانی تہذیبوں کا گھر رہا ہے۔ سمراہ، آکیڈ، آسیریا اور بیبلون (Sumer, Akkad, Babylonia and Assyria)۔ دریاؤں اور تہذیبوں کا ایک خاص رشتہ ہے جتنے بھی قدیم ترین تہذیبیں اٹھا کر دیکھ لو وہ تم کو دریاؤں کی کنارے ہی بسی ملیں گی مثلاً دریاۓ نیل کی کنارے قدیم مصری تہذیب، دریاۓ سندھ کے کنارے قدیم ہڑپہ کی تہذیب، چائنا کے ییلو ریور کے کنارے نےنان زھونگ تاو Nanzhuangtou تہذیب۔
عراق کی تاریخ میں اس جگہ کو ہمیشہ دو دریاؤں کے درمیان کی تہذیب یا سرزمین بیت النہرین یعنی دو نہروں کے درمیان۔
عبدالرحمن۔
ہمارے پاس انسان کے متعلق جو بھی تاریخ موجود ہے اس کا باقاعدہ آغاز ان دو دریاؤں درمیان رہنے والوں ہی نے کیا تھا۔ ان دو دریاؤں میں سے ایک دریا بہت اہم ہے دریائے فرات، آپ ﷺ کی احادیث میں چار دریاؤں کا تذکرہ ہے جن میں سے ایک دریا یہی دریائے فرات ہے۔ فرات وہ دریا ہے جس نے قیامت کی ایک بڑی نشانی کا کردار بھی ادا کرنا ہے کہ اس میں سے سونے کا ایک پہاڑ نکلے گا اور ہر انسان اس پہاڑ کی متعلق سن کر اس کی طرف چل پڑے گا اور اس پر لڑے گا اور اتنی خونریزی سے لڑے گا کہ ہر سو میں سے 99 لوگ مارے جائیں گے۔ اور آپ ﷺ نے سختی سے منع کیا ہے کہ تم لوگ اس میں سے کچھ بھی مت لینا۔
ان دونوں دنیاوں کے درمیان کسی زمانے میں ایک شخص رہا کرتے تھے جن کا ذکر قرآن پاک کی پینتیس سورتوں میں ہے اور جنہیں آج فادر آف تھرٹی نیشنز یعنی تیس اقوام کے والد کہا جاتا ہے۔ سورہ الصفات کی آیت 88 اور 89 میں رقم ہے کہ۔۔ ابراہیم نے ایک نگاہ ستاروں کی طرف اٹھائی اور کہہ دیا کہ میں بیمار ہوں؟
کون تھے یہ حضرت ابراہیمؑ جنہیں سورہ النساء میں اللہ تعالیٰ نے خود اپنا دوست کہا ہے جنہیں دو مرتبہ یعنی سورہ توبہ اور سورہ ہود میں بہت نرم دل اور تحمل والے کہہ کر بلایا گیا ہے جس کے متعلق سورہ شوری میں اللہ نے فرمایا کہ فائدے میں تو وہ ہے جو اپنے رب کے پاس بے عیب دل لے کر جائے گا اور پھر سورہ الصافات میں اللہ تعالیٰ نے خود ابراہیمؑ کی بارے میں کہہ دیا کہ وہ اپنے رب کے پاس ایک بے عیب دل لے کر آئے۔ سورہ بقرہ میں اللہ تعالیٰ نے خود بتایا ہے کہ انہیں کئی کئی باتوں سے آزمایا گیا اور وہ سب پر پورا اترے اور سورہ نجم میں اللہ تعالیٰ نے انہیں وعدہ پورا کرنے والا اور وفا والا کہہ کر ان کی تعریف کی۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں انہیں جو القابات دئے ہیں ان میں سورہ البقرہ میں قوموں کے امام، سورہ حج میں مسلمانوں کے والد اور سورہ مریم میں اللہ تعالیٰ کے جنہ ہوئے انسان جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے خود کئی جگہ پر فرمایا کہ وہ مشرک نہیں تھے، تو پھر ایسا کیا تھا کہ سورہ الصافات کی 88 نمبر آیت کی مطابق ابراہیمؑ نے پہلے ستاروں کی طرف دیکھا اور پھر کہہ دیا کہ میں بیمار ہوں۔
عبدالرحمن۔
یہ آیت دراصل حضرت ابراہیمؑ کے ایک جھوٹ کے مطابق ہے پوری زندگی میں بولے گئے ان کے صرف تین جھوٹوں میں سے ایک جھوٹ اور یہ بات آپ ﷺ نے ہمیں بتائی ہے کہ ابراہیمؑ نے زندگی میں صرف تین جھوٹ بولے اور ان میں سے ان کا پہلا جھوٹ ان کا ستاروں کی طرف دیکھ کر یہ کہنا تھا کہ میں بیمار ہوں جبکہ دوسرا یہ کہ چھوٹے بتوں کو توڑنے کا کام اس بڑے بت نے کیا ہے اور تیسرا ایک بادشاہ کے سامنے یہ بولنا کہ سارا میری بیوی نہیں بلکہ میری بہن ہے۔ لیکن عبدالرحمن، حضرت ابراہیمؑ کو یہ جھوٹ بولنے کی ضرورت ہی کیوں پڑی؟
دو دریاؤں کے درمیان رہنے والے لوگوں کے اپنے ہاتھوں سے لکھی ہوئی داستان کہ وہ ستاروں کو کیسے دیکھتے تھے، ان کی زندگی میں مذہب کی، سائنس کی اور ان دونوں سے بڑھ کر ستاروں کے ذریعے چھپی ہوئی باتیں جاننے کی کیا اہمیت تھی؟ ان کے جنون کی داستان اور یہ کہ وہ اپنے اس علم کا کیا ہوا؟ اب وہ علم کہاں ہے؟ آخر اس وقت ایسا کیا ہو رہا تھا کہ حضرت ابراہیمؑ کو اپنی زندگی کا پہلا جھوٹ بولنا پڑا؟
سنو عبدالرحمن۔
دو دریاؤں کے درمیان شروع ہوئی سب سے پہلی تہذیب سمراہ تھی ویسے تو اس تہذیب کا آغاز آج سے ساڑھے چھ ہزار سال پہلے ہوا تھا لیکن شروع کے دو ہزار سال کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ یہ لوگ کہاں سے آئے تھے یہ بات کوئی نہیں جانتا لیکن وہ خود کو کالے سروں والے کہہ کر بلاتے تھے اور عجیب بات یہ ہے کہ بعد میں آنے والے لوگ بھی انہیں کالے سروں والے ہی کہتے تھے۔ سمراہ کی تہذیب سے ملنے والی ایک تختی میں انہوں نے اپنے 134 بادشاہوں کے بارے میں لکھا ہوا ہے اور 12 بادشاہوں کے نام لکھنے کے بعد وہ ایک بہت عظیم پیمانے پر آئے ایک سیلاب کی بات کرتے ہیں [یہ تختیاں اب بھی برٹش میوزئیم کے کمرہ نمبر 65 میں رکھی ہوئی ہیں ]۔
سمراہ کے علاوہ دوسری تہذیبیں بھی ایک سے زیادہ خداوں کی عبادت کرنے والے ہوا کرتے تھے۔ جس میں آسمانوں کا خدا، زمین کا خدا، پانی کا خدا، افزائش نسل کی دیوی، سورج کا دیوتا، انصاف کی دیوی، خوبصورتی کی دیوی وغیرہ۔
یہ لوگ اپنے بتوں کو بہت زیادہ مانتے تھے، ان کا ٹوٹ جانا ان کے لئے کسی بڑی مصیبت کے آنے سے تعبیر کیا جاتا تھا۔ آشوریوں کے ایک حملے کے دوران اپنے بتوں کو ٹوٹنے سے بچانے کے لئے ان کا ایک شہزادہ اپنے بتوں کو لے کر جنوب میں موجود دلدلوں کی طرف بھاگ گیا تھا۔
سورہ انبیاء میں ایک واقعہ لکھا ہے کہ ابراہیمؑ نے ان کے بتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا سوائے بڑے بت کے اور جب ان لوگوں نے پوچھا کہ یہ سلوک کس نے کیا اور پھر آپس میں باتیں کرنے لگے کہ ابراہیم نام کا ایک نوجوان تھا جسے ہم نے اس بارے میں بات کرتے سنا تھا تو زرا اسے سب کے سامنے لاؤ اور پھر جب انہوں نے پوچھا کہ ابراہیم کیا تم نے ہمارے بتوں کے ساتھ یہ حرکت کی ہے تو ابراہیمؑ نے جواب دیا کہ اس بڑے بت نے باقی سب بتوں کو توڑا ہے تم اسی سے پوچھ لو اور اس پر وہ لوگ دل میں تو قائل ہو گئے لیکن پھر بھی کہنے لگے کہ تجھے پتہ ہے کہ یہ بولتے نہیں ہیں اور پھر اس گفتگو کے بعد انہوں نے ابراہیمؑ کو آگ میں پھینکنے کا فیصلہ کر لیا۔
عبدالرحمن، ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ لوگ صرف مذہبی نہیں تھے بلکہ آج بھی سیکڑوں ایسی چیزیں ہیں جو سب سے پہلے دجلہ اور فرات کے درمیان رہنے والوں نے ایجاد کی تھی مثلاً سب سے پہلے ان کے ہاں 60 سیکنڈ کا ایک منٹ اور 60 منٹ کا ایک گھنٹے کا حساب ملتا ہے۔ انہوں نے پہلی مرتبہ اپنی عمارتوں میں محراب بنانا شروع کی بلکہ ان کے ہاں شہر باقاعدہ سٹی پلاننگ کے ساتھ آباد ہو گئے تھے۔ ان کے لکھی ہوئی ٹیبلیٹس میں ضرب، تقسیم اور پہاڑے بھی موجود ہیں بلکہ ان کی زیادہ تر کیلکولیشن 60 پر بنائی گئی ہیں۔ 60 سیکنڈز، 60 منٹ، 360 ڈ گری کا سرکل۔۔ لیکن ایسا کیوں تھا؟
شاید کسی طرح سے انہوں نے یہ جان لیا تھا کہ ایک سے لے کر سو تک کے درمیان سب سے زیادہ ڈیویزر 60 کے ہوتے ہیں۔ انہوں نے میتھمیٹکس کو بڑے ہی آسان طریقے سے کرنے کا ہنر سیکھ لیا تھا۔ اٹھائیس سو سال پہلے گزرے بابلی بادشاہ ہمورابی نے انسانی حقوق کی ایک ایسی لسٹ جس میں سے سو سے زیادہ قوانین موجود ہیں۔ اپنی ان کامیابیوں کے علاوہ سمراہ کے لوگ دولت کے اعتبار سے بھی متمول لوگ تھے کیونکہ عراق میں کھدائیوں کے دوران ان کے پاس سے وہ زیورات بھی نکلے ہیں جو اس وقت صرف وادی سندھ یعنی ان سے چار ہزار سال بنا کرتے تھے۔
سمراہ اور بابل جیسی تہذیبیں درآمد اور برآمد کے لحاظ سے اچھی بھلی ترقی یافتہ ہو چکی تھی کیونکہ سمراہ اس وقت کے انسان کے تجارتی راستوں پر ایک اہم اسٹریٹجک مقام پر آباد تھی، لیکن ان کی ایک اور اہم بات ان کا ستاروں کا علم تھا۔
کبھی تم نے سوچا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کے متعلق سورہ انعام میں وہ واقعہ کیوں بتایا گیا ہے کہ جہاں ابراہیمؑ نے ایک ستارہ دیکھا اور کہا کہ یہ میرا رب ہے لیکن پھر جب وہ غروب ہوگیا تو کہا کہ میں غروب ہو جانے والوں سے محبت نہیں رکھنا پھر چاند کو چمکتا دیکھا تو کہا کہ یہ میرا رب ہے لیکن جب وہ بھی غروب ہوگیا تو کہا کہ اگر میرے رب نے مجھے ہدایت نہ دی تو میں گمراہ ہو جائوں گا اور پھر جب سورج کو طلوع ہوتے دیکھا تو کہا کہ یہ سب سے بڑا ہے یہی میرا رب ہے اور پھر جب اسے بھی غروب ہوتے دیکھا تو کہا کہ میں اس شرک سے بیزار ہوں اور میں اپنا رخ اس کی طرف کرتا ہوں کہ جس نے ان آسمانوں اور زمینوں کو بنایا۔
یہ دو دریاؤں کی درمیان رہنے والے سورج، چاند اور ستاروں کے خدا ہونے کا یقین کر چکے تھے اور ان کا ماننا تھا کہ انہی ستاروں کی چال کے ذریعے خدا انسان کو اپنے ارادوں کے بارے میں آگاہ کرتا ہے۔ بین النہرین کے لوگ وہ پہلی تہذیب تھی جو یہ جان چکی تھی کہ ستاروں اور سیاروں کی چال کو mathematically پہلے سے سمجھا جاسکتا ہے۔ نینوہ کی کھدائی کے دوران ایک چھوٹا سا آلہ ملا تھا اور یہ آلہ صرف ستاروں کو نہیں بلکہ ہماری زمین کی گھومنے کو بھی ناپ سکتا تھا جو کہ ایک بہت بڑی بات ہے۔ زمین کے گھومنے کے بارے میں بہت کم تہذیبیں جان پائیں تھیں۔ دراصل سمراہ ہی کے لوگ تھے جنہوں نے پہلی مرتبہ ستاروں کو Stellar Classification میں تقسیم کیا۔ لیکن ان سب سائنٹیفک دریافتوں کے علاوہ ان کی ستاروں کے ساتھ کچھ غلط عقائد بھی وابستہ تھے مثلا ان کا یہ بھی ماننا تھا کہ ستاروں کی چال کے ذریعے انسان کو ہونے والی باتوں کے بارے میں پتا چل سکتا ہے۔