Hamzad (2)
ہمزاد (2)
عبدالرحمٰن۔
اب ہم شیاطین کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ زیادہ تر عالم جنات اور شیاطین میں فرق کرتے ہیں اور جنات کو انسانوں کے زیادہ قریب مانتے ہیں کیونکہ قرآن پاک نے جنات اور انسانوں کو اکثر جگہوں پر ایک ہی ساتھ مخاطب کیا ہے اور ان میں فرق کا سب سے بڑا ثبوت سورۃ انعام کی ایک سو بارہویں آیات ہے کہ ہم نے ہر نبی کے دشمن بہت سے شیاطین پیدا کیے تھے۔ کچھ انسانوں اور کچھ جنات میں سے۔
شیاطین جنات میں سے بھی ہوتے ہیں اور انسانوں میں سے بھی۔ اس لفظ شیطان کے دو مطلب ہیں ایک عبرانی زبان میں شیطان کا لفظ ہے دشمن کے مخالف اور عربی میں شیطان کا لفظ شطن سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے بھٹک جانے والا۔ جنات اور شیاطین کی تاریخ انسان سے بھی پہلے کی ہے کیونکہ ان کی تخلیق بھی انسان سے پہلے کی ہے مثلاََ سورۃ حجر کے مطابق ہم نے انسان کو سڑی ہوئی کھنکھناتی مٹی سے پیدا کیا اور اس سے پہلے ہم نے جنات کو آگ کی لپٹ سے پیدا کیا۔
عبدالرحمٰن۔
ابن کثیر کے مطابق اس دنیا میں آدمؑ سے پہلے جنات اور شیاطین رہتے تھے اور اس کا اشارہ وہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کا اس قول سے لیتے ہیں کہ آدم سے دو ہزار سال پہلے دنیا میں جنات آباد تھے۔ احادیث میں آتا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ کالا کتا شیطان ہے یعنی کہ شیطان کالے کتے کی شکل میں بھی آتا ہے۔ مجھے شیاطین سے منسوب سب سے زیادہ ذکر ایک کالے کتے کے متعلق ہی ملا۔
ایک شیطانی کالے کتے کا سب سے پہلا ذکر قدیم مصری تہذیب میں ملتا ہے۔ پچھلے چودہ سو سالوں میں یورپ کے اخبارات میں جگہ جگہ ایک کالے کتے کا ذکر ملتا ہے۔ کبھی 1856 میں فرانس کے ایک چرچ کے اندر کالا کتا نظر آتا ہے جبکہ چرچ کے دروازے بھی بند ہوتے تھے۔ کبھی 1677 میں ایک کالے کتے کو بدنام زمانہ رچرڈ کابل Richard Cabell کے جنازے پر دیکھا جاتا ہے جو ایک جانا مانا شیطان صفت انسان تھا۔
شیاطین کا تاریخ میں ذکر اتنا ہی پرانا ہے جتنی تاریخ خود پرانی ہے دنیا کی سب سے پرانی تہذیب بابل جو پانچ ہزار سال پہلے موجود تھی ان میں بھی ایک ایسی نقصان دہ اور ان دیکھی مخلوق کا ذکر ہے جو ہمیں نقصان پہنچانا چاہتی ہے۔ قدیم مصری تہذیب بھی ایک ایسے ہی نظر نہ آنے والے بھٹکے ہوئے مخلوق کے بارے میں باتیں کرتی ہے جن سے بچنے اور جن کو بلانے کے لیے انہوں نے پورے پورے منتر ایجاد کیے تھے۔
کیونکہ ان کا ماننا یہ تھا کہ یہ شیاطین جسمانی اور دماغی امراض بھی پیدا کر سکتے ہیں حتیٰ کہ موت کر سکتے ہیں اور انہوں نے بڑی تفصیل کے ساتھ اپنے ہائروگلس میں ساری معلومات چھوڑی ہیں۔ دوسرے اہل کتاب یعنی یہودی اور عیسائیوں کے ہاں بھی شیاطین کا نظریہ بڑی وضاحت سے ملتا ہے وہ ایک ایسے شیطان کے بارے میں بھی بات کرتے ہیں جو پانی کے برتنوں میں بیٹھ جاتا ہے اور وہاں سے پینے والوں کو تنگ کرتا ہے۔
جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں کالی سڑی ہوئی کھنکھناتی مٹی سے ایک انسان تخلیق کرنے والا ہوں جب میں اسے پورا بنا چکوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم سب اس کے سامنے سجدے میں گر پڑنا چنانچہ تمام فرشتوں نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے اور اس نے سجدہ کرنے والوں میں شامل ہونے سے انکار کر دیا یہ واقعہ قرآن پاک میں کم سے کم سات مرتبہ آیا ہے لیکن صرف سورۃ کہف میں بتایا گیا ہے کہ ابلیس دراصل ایک جن کا نام تھا۔
ابلیس نے آدم سے کہا کہ ایک ایسا درخت ہے جس کا پھل تمہیں فرشتہ بنا دے گا۔ یہ کس قدر طاقتور temptation ٹیمپٹیشن تھی جو آج بھی ہمارے اندر زندہ ہے۔ ایک ہمیشہ کی زندگی ایک نہ ختم ہونے والی بادشاہی۔ وہ temptation ٹیمپٹیشن جسے سن کر بھی آج ہماری آنکھیں جگمگا جاتی ہیں۔ تب سے دیکھو آج تک یہ جن ہمارے پیچھے پڑا ہوا ہے۔ سورۃ اعراف کے مطابق اس نے ہمارے ماں باپ کو جنت سے اس حالت میں باہر نکلوایا کہ اس نے ان کا لباس بھی اتروا دیا۔ ابلیس یوں ہی کسی انسان کے پاس نہیں آتا بلکہ بہت خوبصورتی کے ساتھ اپنا جال بچھاتا ہے۔ ہماری مند پسند چیزوں سے ہمارے دل کی گہری ترین خواہشوں کی شکلوں میں ہمیں فریب دیتا ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ ابلیس کو اس کمزوری کے بارے میں علم کیسے ہوا؟
فرشتوں اور شیاطین نے کیسے پہچان لیا کہ یہ ایک ایسی مخلوق کی تخلیق کی جاتی ہے جو خود پر قابو نہیں رکھ سکے گی؟
چلو عبدالرحمٰن۔ اب ہم ہمزاد کی بات کرتے ہیں۔
جب ہم اپنی روزمرہ زندگی میں ہمزاد کا ذکر کرتے ہیں تو ہمارے ذہن میں کچھ ایسا سا خاکہ ایک ایسا سا امیج تعمیر ہوتا ہے کہ وہ دیکھنے میں بالکل ہم جیسا ہوگا۔ وہ کبھی نظر تو نہیں آتا۔ لیکن ہمیشہ ہمارے ساتھ ہے۔
شاید تمہیں معلوم نہ ہو۔ عبدالرحمٰن۔
ہمزاد دراصل فارسی زبان کا لفظ ہے جس کا اردو مطلب ہے وہ بوجھ جو سب نے اٹھایا ہو۔
اس لفظ کے ماخذ کی کوشش کرو گے تو سات سو سال پہلے فارسی میں لکھی گئی قصیدہ ہزار داستان تک پہنچ جاؤ گے جہاں یہ لفظ ایک نہ نظر آنے والے ساتھی کے لئے استعمال ہوا ہے اس لفظ کا دوسری جگہ پر استعمال نو سو سال پرانے فارسی ادب چہار مکالا میں بھی ملتا ہے۔ ہاں یہ لفظ دراصل تاریخ اسلام سے بھی پرانا ہے۔ وہ دور جب کعبہ میں بھی بت موجود تھے تو کعبہ کی دیواروں پر ایک قصیدہ لگا ہوا تھا جس میں سات نظمیں لکھی ہوئی تھی۔
یہ نظمیں مختلف صاحب کلام عربی شاعروں کی لکھی ہوئی تھی اور یہ نہایتی فصیح و بلیح عربی زبان میں تھی۔ کیونکہ یہ دیوار پر لٹکی ہوئی تھی اس لیے انہیں معلقات کہتے تھے۔ انہی نظموں کے ایک شعر میں یہ الفاظ ہیں کہ ہم عربوں کا خوف ہمارے دشمنوں کے ساتھ ہمیشہ ایک "قرین" کی طرح رہتا ہے اور "قرین" کا یہ لفظ فارسی لفظ ہمزاد کے مترادف ہے یعنی ایک نہ نظر آنے والا ساتھی جو ہمیشہ ساتھ رہتا ہے۔ عربی زبان میں قرین دو جڑواں میں سے ایک کو کہتے ہیں۔ گویا ایک نظر نہ آنے والا جڑواں ایک ہمزاد کہ جو ہر کوئی ساتھ لیے ہوئے ہیں۔
چلو قرآن دیکھتے ہیں۔ قرین کا لفظ کہاں کہاں استعمال ہوا ہے اور کیسے کیسے؟
سورۃ الزخرف۔ آیت 63:
اور جو کوئی رحمٰن کی یاد سے آنکھیں بند کر لے یعنی تغافل کرے ہم اس پر ایک شیطان مقرر کر دیتے ہیں تو وہ اس کا ساتھی ہو جاتا ہے۔
سورۃ صافات۔ پچاسویں آیت:
ایک کہنے والا ان میں سے کہے گا کہ میرا ایک ساتھی تھا۔
سورۃ النساء۔ آیت 83:
اور ایمان نہ اللہ پر لائیں نہ روز آخر پر اور جس کا ساتھی شیطان ہوا تو کچھ شک نہیں کہ وہ برا ساتھی ہے۔
سورۃ قاف۔ آیت 32
اور اس کا ہم نشیں فرشتہ کہے گا کہ یہ اعمال نامہ میرے پاس تیار ہے۔
شیاطین کا حدف ہمارا سب سے کمزور عضو ہے یعنی ہمارا دل۔ اور اس کا سب سے بڑا ہتھیار اسی کمزور دل کے اندر خیالات کو ڈالنا ہے ہمیں اکسانا ہے۔ ہماری نفسیات سے کھیلنا ہے اور اس کے حملے کی صورت میں سب سے پہلی چیز برے خیالات کا آنا ہے۔ دوسروں کے بارے میں برے خیالات۔ خود کو یا دوسروں کو تکلیف دینے جیسے شرمناک خیالات۔ خودکشی جیسے خیالات۔ وغیرہ
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ نبی پاک ﷺ نے فرمایا کہ تم میں کوئی شخص بھی ایسا نہیں ہے جس کے ساتھ ایک جن کو ساتھی نہ بنایا گیا ہو یعنی ایک جن اس کا ہمزاد نہ ہو تو صحابہ اکرام نے پوچھا کہ کیا اللہ کے رسول آپ کے ساتھ بھی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہاں میرے ساتھ بھی ہے پر اللہ تعالیٰ نے میری مدد کی اور وہ مجھے نیکی کی ہی دعوت دیتا ہے۔
اس حدیث مبارکہ کے اندر ایک ایسے ہمزاد جن کا ذکر کیا گیا ہے جو کہ انسان کی پیدائش کے ساتھ ہی اس انسان کی شکل پر ہی پیدا ہوتا ہے اور ساری زندگی اس انسان کے ساتھ رہتا ہے اور اس کا کام ہوتا ہے اس انسان دل میں وسوسے میں ڈال کر یا کان میں مختلف قسم کی ویسپرز کے ذریعے یا غصے کے اندر انسان کو اکساتے رہنا کہ وہ گمراہ ہو کر ایسا کام کرے جو اللہ کی نظر میں ناقابل معافی ہو اور گمراہی میں مر جائے۔
اگر آپ اسے اس کی خوراک دیتے چلے جائیں تو یہ مزید طاقتور ہوتا چلا جاتا ہے جیسے ایک انسان کو جس کا فیزیکل وجود ہے اسے خوراک کھانے سے طاقت ملتی ہے۔ یاد رکھو کہ یہ صرف وسوسے ڈالنے تک ہی محدود رہتے ہیں یعنی جسمانی طور پر کوئی غلط کام آپ سے کروانے کیلئے آپ کو مجبور نہیں کر سکتے یعنی کوئی کام کرنا یا نہ کرنا آپ کے خود کے بس میں ہی ہوتا ہے۔ یہ بس آپ کو مشورے دیتے رہتے ہیں جیسا کہ ایک قرآنِ کریم کے اندر بیان ہوتا ہے کہ قیامت کے روز یہ ہمزاد کہے گا کہ اے میرے رب میں نے اسے گمراہ نہیں کیا بلکہ یہ خود پرلے درجے کی گمراہی میں تھا۔
یہ ہمزاد آپ کا ہمشکل ہوتا ہے اس کا نام، چال ڈھال، بات کرنے کا انداز، آواز سب کچھ آپ کے جیسا ہی ہوتا ہے۔ جیسے آپ شیشے میں خود کو ہی دیکھ رہے ہوں اور یہ پوری زندگی آپ کے ساتھ رہنے کی وجہ سے یہ آپ کے متعلق سب کچھ جانتا ہے۔ وہ سب کچھ بھی جو کہ آپ تنہائی کے اندر کرتے رہے اور باقی دنیا کے لیے راز ہوتے ہیں۔ آپ ایک سیکنڈ یا ایک لمحہ موت سے پہلے تک کیا کچھ کرتے رہے۔ اسے سب کچھ معلوم ہے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ انسان کی موت کے بعد یہ ہمزاد جن آزاد ہو جاتا ہے اور اسی دنیا کے اندر ہی باقی رہتا ہے اور اکثر لوگوں کو اسی انسان کی شکل میں نظر آ کر گمراہ بھی کرتا رہتا ہے تاکہ انسان یہ سمجھ لے کہ موت کے بعد زندگی کا کوئی وجود دراصل موجود ہی نہیں ہے اور انسان کی روح مرنے کے بعد اسی دنیا کے اندر ہی باقی رہتی ہے خاص طور پر کفار کے معاملے میں یہ زیادہ ہوتا ہے کیونکہ وہ ایک خدا پر یقین نہیں رکھتے ہیں اور انہیں ایسے مشورے دے سکتے ہیں جس کے اندر نقصان صرف اور صرف انسان یا پوری انسانیت کا ہو۔
عبدالرحمٰن۔ جس طرح سے ہماری اس دنیا کے اندر اچھائی اور برائی دونوں موجود ہیں، بالکل اسی طرح سے ہمزاد کے ساتھ ساتھ انسان کی مدد کے لیے ایک فرشتہ بھی انسان کے ساتھ ہی پیدا ہوتا ہے جو کہ ہمیشہ ہمزاد کی ہی طرح انسان کے ساتھ اس کی موت تک رہتا ہے۔ یہ انسان کو ہر اچھے کام کرنے کے لیے دل و دماغ کے اندر خیالات ڈالتا ہے، اچھے کام کرنے کی سوچ پیدا کرتا ہے۔
اگر تم اللہ کا ذکر کرتے ہو، نیک اعمال کرتے ہو تو یہ اس فرشتے کی خوراک ہے جس سے وہ طاقتور ہو کر آپ کے اس ہمزاد کو کمزور کر دے گا اور اس کا الٹ یہ ہے کہ اگر ہمزاد طاقتور ہو جائے تو یہ فرشتہ کمزور ہو جائے گا۔ اسی لئے اللہ نے ہمیں اس دنیا کی آزمائش میں ڈال کر ایک واضح راستہ اپنے نبیوں کے ذریعے دکھا کر ہمیں آزمانے کے لئے دنیا میں چھوڑ دیا ہے کہ یہ دیکھ سکے کہ کون اس کی ذات پر بنا دیکھے ایمان لاتا ہے اور کون شیطان کے ہاتھوں کھلونا بن کر اپنی دنیا اور آخرت دونوں کو برباد کر بیٹھتا ہے آخر میں فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہی ہے۔