Bhutto, Mujeeb Aur Indra
بھٹو ، مجیب اور اندرا
ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد
"ماں! ہم کون ہیں؟ 11 سالہ حبیب الرحمان نے ماں کی طرف دیکھ کر سوال کیا۔ سکینہ بی بی کی زرد آنکھیں دھندلا سی گئیں۔ سوال کی وضاحت نہیں کی گئی مگر سکینہ بی بی سوال کا مدعا سمجھ چکی تھی۔ ایسے ہی سوال وہ بھی اپنی ماں سے پوچھا کرتی تھی۔"ہم کون ہیں ماں؟ بھارتی یا پاکستانی؟ " حبیب کو جواب چاہیے تھا۔"ہم پاکستانی ہیں۔"سکینہ نے فخر سے سر بلند کیا۔ بالکل اپنی ماں کی طرح۔
"تو ہم پاکستان کیوں نہیں چلے جاتے۔ ہم یہاں اس کیمپ میں کیوں رہتے ہیں؟ "وہاں جا کر ہم پورے پاکستانی بن جائیں گے۔ میں اسکول میں داخلہ لے لوں گا۔ آپا بھی کالج جا سکے گی۔" ہم پاکستان کب چلیں گے ماں؟ "حبیب اڑ کر اس دیس جانا چاہتا تھا جہاں کا نام لے کر آج کچھ لڑکوں نے اسے بہت ستایا تھا۔ اسے پاکستانی کہہ کر کر دھکے دیئے۔۔ اس کے ہاتھ سے ناریل بھی چھین لیا تھا۔ بہار کیمپ میں رہنے والی سکینہ پاکستانی کے پاس اپنے بیٹے حبیب پاکستانی کے اس سوال کا کوئی جواب نہ تھا۔
کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
وہ چہرہ دیکھ کر ہی دل کا جان گئی۔ ماں تھی نا اس لئے۔"یہ لے۔" چائے کا کپ اس کی طرف بڑھایا اور خود بھی پاس ہی بیٹھ گئی۔"امی آپ لوگ اسی وقت واپس کیوں نہ چلے گئے؟ " بڑا جارحانہ انداز تھا حارث کا۔"اب یہ کیا پتہ تھا کہ ایسا ہوگا؟ " رشیدہ اپنے ناکردہ گناہ پر شرمندہ تھی۔ نادرا میں والدین کی پاکستانی شہریت کا ثبوت مانگ رہے ہیں۔ کہاں سے لاؤں ثبوت۔ باپ دادا سب پاکستان میں دفن ہیں۔ مگر ہم پاکستانی نہیں ہیں۔ ہم بھارتی ہیں۔
وہ آج بھی کہتے ہیں۔" سالا غدار بھارتی۔ بھوکا بنگالی۔"اتنا زہر تھا حارث کے لفظوں میں کہ رشیدہ کا جسم سن ہو گیا۔
تھے بہت بے درد لمحے ختم درد عشق کے
تھیں بہت بے مہر صبحیں مہرباں راتوں کے بعد
فرزانہ کسی بے جان گٹھری کی طرح پڑی تھی۔"مر گئی شاید۔" کسی نے اس کو ہلایا تھا۔"نہیں مری نہیں ہے۔ مگر لگتا ہے مر جائے گی تھوڑی دیر میں۔"وہ کوئی فوجی تھا شائد۔ فرزانہ کی بے نور آنکھ نے خا کی سی جھلک کو پہچان لیا۔ خوف سے اس کے بے جان رونگھٹے بھی کھڑے ہو گئے۔" یا اللہ جلدی موت بھیج دے۔"ڈوبتی دھڑکنوں نے دعا کی۔
"لگتا ہے ہم سے پہلے ہمارا کوئی بھارتی بھائی اپنا کام کر چکا ہے۔"کیسی خبیث آواز تھی۔ ڈوبتی سماعتوں میں زہر سا گھل گیا۔"ہاں۔ اور اب جب لوگ ہمیں پاکستانی وردی میں یہاں سے نکلتے دیکھیں گے تو سب کو بتائیں گے کہ پاکستانی فوجیوں نے بے چاری لڑکی کی عزت لوٹ لی۔۔۔ نیم مردہ حالت میں چھوڑ کر فرار ہو گئے۔"دوسرا اپنی کامیابی پر خوش تھا۔ اور فرزانہ کی دعا سنی جا چکی تھی۔
دل تو چاہا پر شکست دل نے مہلت ہی نہ دی
کچھ گلے شکوے بھی کر لیتے مناجاتوں کے بعد
"ارے دادی کیا کرے گی تُو شناختی کارڈ کا؟ "ضمیر نے چڑ کر کہا۔"پیارے نبی ﷺ کے در پر جاؤں گی۔" ستاسی سالہ فاطمہ نے بھی اکڑ کر جواب دیا"یہاں ہمیں تو کارڈ ملا نہیں۔ کوئی شناخت نہیں۔ نہ کالج، یونیورسٹی میں داخلہ۔ نہ نوکری۔ اور یہ جائے گی اس عمر میں۔" ضمیر منہ ہی منہ بڑ بڑایا"ارے کیا بول رہا ہے۔ زور سے بول۔" فاطمہ کان پر ہاتھ کی اوک بنا کر بولی۔" جہاں کارڈ بنتا ہو وہاں کل مجھے لے کر چل۔ میں بتاؤں گی انھیں کہ جب بنگلہ دیش بنا تو میں یہیں تھی۔ کراچی میں۔ میں کوئی وہاں سے تھوڑی آئی ہوں۔ ارے پاکستانی ہوں میں پاکستانی۔۔"
فاطمہ کی اکڑ تو ویسے بھی مشہور تھی اور یہ تو در نبی ﷺ پر حاضری کا معاملہ تھا۔"دادی وہ کا غذ مانگتی ہیں۔ ہے تمہارے پاس کوئی کاغذ؟ ضمیر نے بڑی امید سے پوچھا"کیا پتہ کوئی کاغذ نکل ہی آئے دادی کے پاس سے۔ میرا بھی شناختی کارڈ بن جائے۔"اس نے دل میں سوچا"نہ۔ بھائی۔ کاغذ کوئی نہیں ہے میرے پاس!میرے ابا تو کمانے آئے تھے یہاں۔ گھر تو ان کا وہیں تھا۔ بنگلہ دیش میں۔ کاغذ بھی وہیں ہوں گے۔""دھت تیری۔"ضمیر مایوسی سے ہاتھ ہلا کر باہر نکل گیا۔
ان سے جو کہنے گئے تھے فیضؔ جاں صدقہ کیے
ان کہی ہی رہ گئی وہ بات سب باتوں کے بعد
سر حد تو محض ایک لکیر ہے۔ انسانی زندگی کی قیمت کیا ہے؟ ایک فوجی معاہدہ! اس پر دو افسروں کے دستخط!ایک مغلوب و شرمندہ،دوسرا غالب و شاداب ،سازشیں، ذلتیں، بد گمانیاں، مملکتِ خدا داد پاکستان۔ سونار بنگلہ، WAR BABIES،ابارشنز، برونگانا বীরাঙ্গনা،اکھنڈ بھارت اور ان ملکوں کے انسان،مسلسل حالت جنگ میں، بھوک سے جنگ، لا قانونیت سے جنگ، جہالت سے جنگ، غربت سے جنگ، لا متناہی جنگ۔۔
کیوں کہ۔ بھٹو، مجیب اور اندرا آج بھی ایک ہی میز کے گرد بیٹھے انگریزی چائے پی رہے ہیں۔