Aur Tarah Ki Umeed
اور طرح کی امید
ڈئرجنید۔
تمہیں یاد ہے کہ ہم پچھلے سال ہم دبئی ائرپورٹ پہ ملے تھے۔ پانچ گھنٹوں کی طویل ملاقات میں طرح طرح کی باتیں ہوئیں بچپن سے جوانی (اور بڑھاپے) تک کی۔ تم نے ایک واقعہ سنایا تھا وہ آج دہرا رہا ہوں۔
تم نے کہا تھا:میں جب بہت چھوٹا تھا تب سے مختلف اوقات میں مجھ سے میری ماں مجھ سے ایک سوال پوچھا کرتی تھی۔ وہ پوچھتی تھی کہ جسم کا سب سے اہم حصہ کون سا ہے؟
میں نے ایک مرتبہ جواب میں کہا ْماں! جسم کا سب سے اہم حصہ کان ہوتا ہے کیونکہ اِس کے بغیر ہم سن نہیں سکتے۔ ماں نے مسکرا کر کہا کہ بہت سے لوگ بہرے بھی تو ہوتے ہیں۔ چلو تم سوچتے رہو پھر کبھی پوچھوں گی تم سے۔ بات آئی گئی ہو گئی۔ سال بیت گئے۔
بڑے دنوں بعد میری ماں نے وہی سوال دہرایا کہ جسم کا سب سے اہم حصہ کون سا ہوتا ہے؟ میں اب کافی بڑا ہو چکا تھا۔ میں نے مسکرا کر کہا: ماں اب میں بڑا ہو چکا ہوں اور جان چکا ہوں کہ جسم کا سب سے اہم حصہ آنکھ ہوتی ہے کیونکہ آنکھ کے بغیر زندگی سمجھو زندگی نہیں۔ بچے کیسے بھی ہوں۔ معصوم ہوتے ہیں۔ ماں نے کہا۔ نہیں۔ تم نے بہت سے اندھے لوگ نہیں دیکھے؟ آخر وہ زندہ تو ہوتے ہیں ناں! میں اپنی کم عقلی پہ شرمندہ ہوا مگر ماں نے ہمت بندھائی اور کہا بیٹا تم تیزی سے سیکھ رہے ہو۔
سال گزرتے گئے۔ (وقت بھی عجیب الفطرت چیز ہے نظر بھی نہیں آتا پھسلتا بھی جاتا ہے)۔ زندگی کے مختلف مرحلوں میں ماں نے مجھ سے وہی سوال دہرایا اور میں نے مختلف جوابات دیئے۔ مگر ماں کی گردن "ناں " میں ہی گھومی۔ ایک دن میرے دادا کے انتقال کی خبر آئی۔ جنازہ پڑا تھا۔ بہت سارے لوگ رو رہے تھے۔ میں نے پہلی بار اپنے والد جیسے سخت مزاج آدمی کو بھی روتا دیکھا۔ نجانے کون کون لوگ کس کس سے مِل مِل کے رو رہے تھے۔ عین اُس موقع پہ میری ماں نے مجھے ایک کونے میں بلایا اور پوچھا "آج تو تم سمجھ گئے ہوگے کہ جسم کا سب سے اہم حصہ کون سا ہوتا ہے؟ "۔
میں نے ماں کو عجیب سے انداز سے دیکھا مجھے یہ توقع نہیں تھی کہ ایسے اہم وقت پہ وہ یہ سوال پوچھیں گی۔ میرے دماغ میں بجلی کوندی اور میں نے کہا "ہاں ماں میں سمجھ گیا۔ روح جسم کا سب سے اہم حصہ ہو تا ہے "۔ اور ماں کی طرف فاتحانہ نظروں سے دیکھا لیکن ماں نے ایک دفعہ پھر ناں میں سر ہلایا اور بولی: "ارے بیٹا روح جسم کا حصہ کہاں ہوتی ہے؟ میں تمہیں بتاتی ہوں جسم کا سب سے اہم حصہ کاندھے ہوتے ہیں۔ جانتے ہو کیوں؟ " میرے اندر پھر سے افلاطونی جاگی میں نے کہا "میں سمجھ گیا کیونکہ ان پہ ہمارے سر جو جُڑے ہوتے ہیں اسی لئے یہ جسم کا سب سے اہم حصہ ہوتے ہیں "۔
ماں نے کہا "نہیں بیٹا! اس لئے نہیں کہ کاندھوں پہ سر جُڑے ہوتے ہیں بلکہ اس لئے کہ ہم اپنے کاندھوں سے اپنے پیاروں کو سہارا دیتے ہیں کہ وہ ہمارے کاندھوں پہ سر رکھ کر اپنا غم ہلکا کر سکیں۔ دکھ کے لمحات میں کبھی نہ کبھی ہمارے محبت کرنے والوں کو ہمارے کاندھوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ جسم کا ہر حصہ ہمار ی ضرورت کے لئے ہوتا ہے جبکہ کاندھے دوسروں کی ضرورت کے لئے۔ یہ جسم کا سب سے اہم حصہ اس لئے ہوتے ہیں کہ باقی تمام حصے ہمارے اپنے لئے ہوتے ہیں اور شاید ان کی غیر موجودگی میں بھی ہم گزارا کر لیتے ہیں۔ بیٹا۔ سب سے اہم چیز وہ ہوتی ہے جو دوسروں کے کام آتی ہے۔ سمجھے! "
یہ واقعہ مجھے اس لئے یاد آیا ہے کہ آج میرے دیس کے 650 خاندان اپنے لئے کاندھے ڈھونڈ رہے ہیں کیونکہ ان کا کوئی نہ کوئی پیارا ان سے جدا ہوگیا ہے اور وہ گمشدہ کی فہرست میں ہے۔ اندازاً 279 افراد بلوچستان سے، 165 افراد پنجاب، 78 افراد سندھ اور 81 افراد سرحد سے مسنگ ہوئے تھے جن میں سے 157 افراد اپنے پیاروں میں واپس پہنچ گئے جبکہ اس درمیان میں104 افراد مسنگ لسٹ میں شامل ہو گئے۔ اس طرح 250 افراد اب بھی مسنگ ہیں۔ کبھی کوئی سرکاری افسر، وزیر، مشیر یا صدر ان لوگوں کو امید دلاتا ہے کہ کوششیں جاری ہیں یہ لوگ جلد بازیاب ہو جائیں گے۔ لوگوں کے دلاسوں سے امید تو ہوتی ہے مگر بہت عارضی حد تک۔
میرے ان فسردہ حال لوگوں کو ایک امید اور بھی ہے مگر یہ امید ذر ا اور طرح کی ہے۔ تم کہو گے کہ امید تو امید ہوتی ہے یہ اور طرح کی امید کیا بلا ہوتی ہے۔ لو سنو شاید میں اور طرح کی امید کو explain کر سکوں: بہت دنوں کی بات ہے دو دوست تھے بچپن سے ساتھ ساتھ پڑھتے لکھتے دونوں ایک ساتھ فوج میں بھرتی ہو گئے۔ کچھ دن گزرے تھے کہ جنگ چھڑ گئی۔ اتفاقاً دونوں ایک ہی یونٹ میں تھے اور ایک ہی محاذ پر لڑ رہے تھے۔ رات کا وقت تھا۔ گھپ اندھیرے میں چاروں طرف سے گولیا ں چل رہی تھیں۔ اچانک سعود کی آواز آئی: افتخار اِدھر آؤ اور میری مدد کرو!
افتخار نے فوراً سعود کی طرف بڑھنے کی کوشش کی لیکن اُس کے کپتان نے کہا نہیں۔ میں تمہیں اُدھر جانے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ ایک تو میرے پاس ویسے ہی نفری کم ہے میں ایک آدمی کم نہیں کر سکتا۔ دوسرے یہ کہ سعود کی آواز سے ایسا لگ رہا ہے کہ وہ بچ نہیں سکے گا۔ تمہارے جانے کا بھی کوئی فائدہ نہی۔
تھوڑی دیر بعد سعود کی مدد کی پکار پھر ابھری مگر کپتان نے انکار کر دیا۔ جب کئی بار ایسا ہوا تو افتخار نے اپنے کپتان سے کہا کہ سعود میرے بچپن کا دوست ہے خدا کیلئے مجھے اُس کی مدد کو جانے دیجئے۔ نہ چاہتے ہوئے بھی کپتان نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ بہت آہستگی سے کہنیوں کے بل افتخار خندق سے باہر نکلا اور سعود کو خندق میں کھینچ لایا۔
اب انہوں نے سعود کو دیکھا تو وہ مر چکا تھا۔ کپتان کا خفا ہونا یقینی تھا۔ اُس نے سرزنش کرتے ہوئے کہا میں نے تم سے کہا تھا ناں کہ وہ نہیں بچ سکے گا تم نے بیکار رِسک لیا اگر تم کو بھی گولی لگ جاتی تو کیا ہوتا؟ میرا ایک اور آدمی کم ہو جاتا؟ مگر تم سمجھتے نہیں ہو!
تم نے بہت غلطی کی ہے!"
افتخار نے کہا "نہیں کپتان! میں نے کوئی غلطی نہیں کی۔ جب میں سعود کے پاس پہنچا تو وہ زندہ تھا۔ میں نے اس کو چھوا تو وہ بولا "افتخار! میرے دوست! میں جانتا تھا کہ تم ضرور آؤگے"
اب تم سمجھ گئے ہو گے کہ اور طرح کی امید کیا ہوتی ہے۔ یہ سارے لوگ جن کے پیارے مسنگ افراد کی فہرست میں ہیں۔
ابھی ابھی ایک کتاب کھولی تو یوں لکھا دیکھا۔ لگتا ہے ہماری امیدوں اور خدشوں کا حاصل یہی الفاظ ہیں:
جب آسمان پھٹ جائے گا
اور تارے جھڑ جائیں گے
اور جب سمندر ابل پڑیں گے
اور جب قبریں اکھیڑ دی جائیں گی
تب ہر شخص معمول کر لے گا کہ اُس نے کیا آگے بھیجا تھا
اور کیا پیچھے چھوڑا۔
میں اب تھک گیا ہوں اور نیند بھی آرہی ہے۔ مجھے اجازت دو!
ولسلام۔ اکیسیویں صدی کا مسافر