Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Sarfaraz
  4. Asmano Ke Darwaze (1)

Asmano Ke Darwaze (1)

آسمانوں کے دروازے (1‎)

ڈئر عبدالرحمٰن۔

پچھلا خط قدرے لمبا ہوگیا تھا لیکن امید ہے کہ کائنات کی تخلیق کے حوالے سے کچھ کانسپٹ کلیر ہوئے ہوں گے۔

آسمانوں اور زمین کی تخلیق کے بعد ہمیں اللہ کی ایک مخلوق کا بہت زیادہ ذکر ملتا ہے ملائکہ، جنہیں ہم فرشتے بھی کہتے ہیں۔ ہم سے بہت پہلے پیدا کی گئی اور ہماری نظروں سے اوجھل مخلوق لیکن ہمیں کیسے پتا چلتا ہے کہ یہ ایکزسٹ exist کرتے ہیں اور ان کی موجودگی ماننا کیوں ضروری ہے؟ سورۃالبقرہ میں دو جگہ ملائکہ پر یقین رکھنا ایمان کا حصہ بتایا گیا ہے اور ان دونوں میں سے ایک جگہ تو وہ عظمت والی آیات ہیں جو معراج کے موقع پر ساتویں آسمان میں نازل ہوئیں تھی۔ سورۃ نساء میں ایک جگہ تو فرشتوں پر ایمان نہ رکھنا گمراہی کے مترادف بتایا گیا ہے اور آج کے اس خط ان ہی فرشتوں کے بارے میں کچھ باتیں کرتے ہیں۔

وہ کون ہیں؟ وہ کہاں رہتے ہیں؟ وہ دیکھنے میں کیسے ہیں؟ اور وہ کیا کرتے ہیں؟ لیکن آگے بڑھنے سے پہلے میں تمہارے سامنے ایک اور سوال رکھنا چاہتا ہوں کہ آخر ہم فرشتوں کو کیوں نہیں دیکھ پاتے؟ کیا کبھی تم نے اس بارے میں سوچا ہے؟

سورۃ الحاقہ کی آیات نمبر 38 اور 39 کا ترجمہ پڑھو۔ لکھا ہے کہ مجھے قسم ہے اس کی جو تم دیکھتے ہو اور اس کی جو تم نہیں دیکھتے۔

(تبصرون اور لا تبصرون)۔ آخر ہم کیا نہیں دیکھتے؟ آخر ایسی کون سی چیزیں ہیں جو ہمیں نظر نہیں آتی؟ اب تم اس بات کا جواب ایسے دو گے کہ ہمیں ہوا نہیں نظر آتی، ہمیں خوشبو نہیں نظر آتی، میرے خیال میں یہ بڑا سطحی سا جواب ہے۔ ان تمام چیزوں کو ہم دیکھتے نہیں ہیں لیکن ہم detect تو کر رہے ہیں، ہوا کی رفتار بھی detect ہو رہی ہے، خوشبو کی تیزی کا حساس بھی detect کر پاتے ہیں۔

اور میں آپ کو بتاتا ہوں کہ کیسے اس کائنات میں جو کچھ بھی دیکھا یا detect کیا جا سکتا ہے وہ انیس قسم کی روشنی یا سگنلز دیتا ہے جنہیں بینڈز کہتے ہیں اور یہ انیس بینڈز مل کر وہ پٹی بناتے ہیں جسے اس کائنات کا Electromagnetic Spectrum کہتے ہیں۔ اب ٹیکنیکل زبان میں تو یہ سپیکٹرم مختلف قسم کی فریکوینسیز، ویو لنتھز اور فوٹون انرجیز کا مجموعہ ہوتا ہے لیکن سادہ الفاظ میں کوئی بھی وہ چیز جو اس انرجی یا اس مادے کی بنی ہو جسے ہم جانتے ہیں وہ اس سپیکٹرم پر کہیں نہ کہیں موجود ہونا چاہئے۔

مثلاً موبائل فون سے نکلنے والی شعائیں جو نظر تو نہیں آتی لیکن وہ ریڈیو ویوز کے بینڈ پر موجود ہیں۔ ایسی مائکرو ویو یا الٹرا وائلٹ شعائیں جو نظر تو نہیں آتی لیکن ہم ان کی حدت محسوس کر لیتے ہیں وہ بھی اسی بینڈ پر موجود ہیں۔ البتہ اس پٹی پر الٹرا وائلٹ اور انفراریڈ کے درمیان ایک چھوٹا سا حصہ پایا جاتا ہے۔ دراصل یہ حصہ اتنا چھوٹا ہے کہ اس پوری پٹی کا صرف 0.0035% حصہ ہے اور اس چھوٹے سے حصے کا نام ہے ویزیبل سپیکٹرم visible spectrum اور صرف یہی وہ حصہ ہے جو ہمیں نظر آتا ہے وہ حصہ کہ جو سات رنگوں سے بنی ہوئی روشنی کا بیلٹ ہے اور جسے ہماری آنکھیں دیکھ پاتی ہیں۔

تم اس کا مطلب جانتے ہو؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اس کائنات میں موجود دو لاکھ مختلف چیزیں ہمارے سامنے رکھی جائیں تو ہم ان دو لاکھ میں سے صرف سات چیزوں کو ہی دیکھ سکیں گے یعنی سادہ الفاظ میں 99.99% کائنات ہماری نگاہوں سے ہی پوشیدہ ہے۔ چھپی ہوئی ہے۔ ڈھکی ہوئی ہے اور اگر کسی چیز کی تخلیق اس الیکٹرومیگنیٹک سپیکٹرم کی پٹی سے باہر کی ہے۔ جو اس پٹی پر موجود نہیں ہے تو پھر دیکھنا تو درکنار ہم اسے ڈیٹیکٹ بھی نہیں کر پائیں گے لہٰذا ایک بات تو بہت شروع میں طے ہو جاتی ہے کہ ہمارے آج کے سفر میں بھی سائنس ہماری کچھ زیادہ مدد نہیں کر پائے گی۔

فرشتوں کی تخلیق سے متعلق حضرت عائشہؓ سے راوی ایک حدیث ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو نور سے پیدا کیا ہے، جنات کو آگ کے شعلے سے اور انسان کو اس مادے سے جس کے بارے میں تمہیں بتا دیا گیا ہے۔ نور جسے ہم اردو میں ایک ٹھنڈی روشنی کہہ لیتے ہیں۔ لیکن درحقیقت کون سی روشنی ہے؟ یہ بات کوئی نہیں جانتا البتہ اتنا تو طے ہے کہ یہ سات رنگوں والی یعنی ویزیبل سپیکٹرم والی روشنی تو بالکل نہیں ہے اور میرے خیال میں اس حدیث کے آخری حصے سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ ہمارے علاوہ ان دونوں مخلوقات کی تخلیق کسی ایسے مادے سے ہے جس کی تفصیل کو ہمارے لئے بیان نہیں کیا گیا ہے۔

قرآن پاک میں فرشتوں کے لیے عربی لفظ ملائکہ استعمال ہوئے جس کے دو ماخذ ہو سکتے ہیں پہلا ملک یعنی بادشاہی یا اس طرح دوسرا ماخذ ایک عبرانی لفظ ہے جس کا مطلب پیغام رسان بھی ہو سکتا ہے اور یہ دونوں ماخذ اپنی جگہ درست بیٹھتے ہیں کیونکہ فرشتے اللہ کی بادشاہی میں بھی آتے ہیں اور اسی کے حکم سے پیغام رسانی بھی کرتے ہیں۔ پھر قرآن و حدیث سے ہمیں یہ بھی پتا چلتا ہے کہ فرشتوں کی کوئی جسمانی ضرورت نہیں ہے۔ تھک جانا، کھانا پینا، غصہ کرنا یہ ان کی فطرت میں نہیں ہے۔ سوائے ان خاص فرشتوں کے جو بنے ہی غصے اور سختی کے لیے ہیں۔

سب سے پہلے ان فرشتوں کی بات کرتے ہیں جو انسانوں کے زیادہ قریب رہتے ہیں۔ انسان کے قریب رہنے والے فرشتے انسان کی پیدائش ہی سے اس کے ساتھ منسوب ہو جاتے ہیں۔ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا تھا کہ انسان کی پیدائش شروع ہوتے ہی اللہ رحم مادر میں ایک فرشتہ مقرر کرتا ہے۔ پھر جب اللہ کے حکم سے ماں کے پیٹ میں انسان کی خلقت پوری ہو جاتی ہے تو وہ پوچھتا ہے کہ یارب یہ مذکر ہے یا مؤنث؟ یارب یہ بدبخت ہوگا یا نیک بخت؟ یارب اس کی عمر کتنی ہے اور یارب اس کے مقدر میں روزی کتنی ہے؟

پھر اللہ کے حکم سے وہ فرشتہ اس انسان کی روزی، اس کی عمر، اس کا رزق اور اس کا نیک یابد ہونا لکھ دیتا۔ پھر جب وہ فرشتہ فارغ ہو کر چلا جاتا ہے تو ایک دوسرا فرشتہ آ کر اس نو مولود یعنی بچے کی حفاظت کرتا ہے یہاں تک کہ اس بچے کو سمجھ بوجھ آ جائے۔ پھر وہ فرشتہ بھی چلا جاتا ہے اور اس انسان کے نام اعمال لکھنے والے دو فرشتے آ جاتے ہیں۔ پھر موت کے وقت وہ دو فرشتے بھی چلے جاتے ہیں اور ملک الموت یعنی موت کا فرشتہ آ جاتا ہے۔ پھر وہ فرشتہ بھی روح لے کر چلا جاتا ہے اور قبر میں سوال اور جواب کرنے والے فرشتے۔غرض ہر وقت فرشتے انسان کے قریب ہوتے ہیں لیکن ان فرشتوں کے متعلق ہم کیا جانتے ہیں؟

Check Also

Karen Kuch Aisa Ke Dunya Karna Chahe Kuch Aap Sa

By Asma Hassan