Wednesday, 15 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Muhammad Sarfaraz/
  4. Aasman, Had e Nazar, Janwar

Aasman, Had e Nazar, Janwar

آسمان، حد نظر ،جانور

کل تم نے لاہور سے سموگ کی تصویریں اور ویڈیوز بھیجیں۔ عجب سماع تھا۔ آسمان یعنیٰ نیلا آسمان کہیں نظر نہیں آرہا تھا۔ بالکل بھی نہیں۔ ہم نے دیر تک اس پر بات بھی کی۔میں سوچتا گیا۔آسمان ہے کیا؟اگر تم سمجھتے ہو کہ دن کو بادلوں کے اوپر نظر آنے والی نیلی چیز آسمان ہے۔ غلط۔ بالکل غلط۔وہ نیلا رنگ تو صرف زمین کا atmosphere ہے۔

اصل میں سورج کی 7 رنگوں پر مشتمل روشنی ہماری زمین کے atmosphere میں داخل ہوتی ہے تو چونکہ نیلی روشنی کی wavelength سب سے کم ہوتی ہے اس لیے وہ دوسرے رنگوں کی نسبت فضاء میں سب سے زیادہ پھیل جاتی ہے۔ اس لیے ہمیں اوپر پھیلی ایک نیلی چادر نظر آتی ہے۔۔ اسی نیلی چادر کوآسمان کہہ دیا جاتا ہے۔

سائنس کا زمانہ ہے بھئی۔ سائنسی طور پر سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ہماری زمین کا سب سے نچلا حصہ ٹروپوسفیئرtroposhpere ہے اور زمین کے اوپر 6.5 میل تک پھیلا ہے ۔ یہی وہ حصہ ہے جس میں ہم سب رہتے ہیں۔ اس میں ہمارا زیادہ تر موسم ہوتا ہے ۔ اگلی تہہ Stratosphere کی ہے جو اوپر کی طرف تقریباً 50 میل تک پھیلی ہوئی ہے۔ اسی میں اوزون بھی ہے۔ یہ ہوئے 6.5 5 میل۔۔ چلو اور اوپر چلتے ہیں۔

اس مقام سے اوپر 53 میل مزید ایک موٹی تہہ ہے جسے mesosphere کہتے ہیں۔ یہاں پر درجہ حرارت منفی 90 ڈگری سلسیس تک پہنچ جاتا ہے۔اس کے اوپر ہوتی ہے Thermosphere جو تین سو میل کی تہہ ہے ۔ جہاں زیادہ تر سیٹلائیٹس زمین کے گرد گردش کرتے ہیں۔ یہ ہو گئے چارسو میل سے کچھ اوپراور یہ ہماری زمین کی آخری حدود ہیں جن کے بعد پھر کھرب ہا کھرب میل کی خلاء کا آغاز ہو جاتا ہے۔آسمان کہاں ہے؟ چلو چھوڑو۔حد نگاہ کے بارے میں سوچتے ہیں۔

زمین کی سطح 3.1 میل (5 کلومیٹر) کے فاصلے پر موجود اشیاء نظر سے اوجھل ہیں۔ لیکن ہماری بصری صلاحیت اس سے بہت آگے تک پھیلی ہوئی ہے۔ اگر زمین چپٹی ہوتی، یا اگر تم کسی پہاڑ کے اوپر کھڑے ہو کر اس سیارے کے معمول سے بڑے حصے کا جائزہ لے رہے ہوتے، تو شاید تم سینکڑوں میل دور روشن روشنیوں کو دیکھ سکتے تھے۔ ایک اندھیری رات میں تم 30 میل (48 کلومیٹر) دور تک موم بتی کے شعلے کو ٹمٹماتے دیکھ سکتے ہو۔

کہکشاں کے 1 ٹریلین ستارے اجتماعی طور پر اتنی روشنی خارج کرتے ہیں کہ چند ہزار فوٹان ہر سیکنڈ میں زمین کے ہر مربع سینٹی میٹر سے ٹکرائیں۔ ایک تاریک رات میں، یہ ہمارے ریٹنا کو متحرک کرنے کے لیے کافی ہے۔ جیسا کہ چاند تم سے پونے چار لاکھ کلومیٹر دور ہے اور صاف نظر آتا ہے، سورج بھی تو تم سے 15 کروڑ کلومیٹر دور ہے مگر صاف نظر آتا ہے۔

تمہاری آنکھ کتنی دور تک دیکھ سکتی ہے اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ روشنی کے کتنے ذرات یا فوٹان، ایک دور کی چیز خارج کرتی ہے۔ ننگی آنکھ سے نظر آنے والی سب سے دور کی چیز اینڈرومیڈا کہکشاں ہے، جو زمین سے 2.6 ملین نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے۔ وہ کہکشاں ہے جو ہماری دنیا سے پچیس لاکھ لائیٹ ایئرز کے فاصلے پر ہے یعنی دوسرے الفاظ میں اینڈرومیڈا نامی اس کہکشاں سے نکلی روشنی ہم تک پہنچنے میں پچیس لاکھ سال لیتی ہے اور یہ اس قدر عظیم دوری ہے کہ اسے کلومیٹرز میں بیان کرنا ممکن نہیں اور ایک عام نظر والے شخص کی زیادہ سے زیادہ یہی حد نگاہ ہوسکتی ہے۔ (ایک عجیب سوال ذہن میں آ رہا ہے ۔ کیا کسی انسان یا جانور کا ایک قدم اتنا طویل ہو سکتا ہے؟)

جب ہم سورج چاند ستاروں کی بات کرتے ہیں تو آئن سٹائن کا نام یاد آنا فطری ہے۔ آئن سٹائن کی مشہور تھیوری آف ریلیٹیوٹی theory of relativity سے تو تم واقف ہی ہو۔ یہ وہ تھیوری ہے جس نے کئی ایجادات اور تھیوریز کو جنم دیا ۔ مشہور تھیوریز میں سے ایک تھیوری یہ تھی کہ کائینات میں ایسی جگہیں ضرور ہوں گی جن کی گرد کشش ثقل اس قدر طاقتور ہو کہ وہ روشنی کو اپنے اندر قید کر لیں یا پھر اس کا رخ موڑ دیں۔ سو سال پہلے کی گئی اس پیشن گوئی کو آج ہم ایک بلیک ہول کے نام سے جانتے ہیں۔

1935 میں، آئن اسٹائن اور ماہر طبیعیات ناتھن روزن نے بتایا کہ کس طرح اسپیس ٹائم کی دو شیٹس کو آپس میں جوڑا جا سکتا ہے (جس طرح کاغذ کے ایک کونے کو موڑ کر دوسرے سے ملا دو تو آگے اور پیچھے کی سطح ایک دوسرے سے مل سکتی ہے) جس سے دو کائناتوں کے درمیان ایک پل بنتا ہے۔ اس پُل کو انہوں نے Einsten Rosen Bridge کا نام دیا تھا۔ یعنیٰ یہ کائینات کی دو مختلف جگہوں اور دو بالکل مختلف زمانوں کے درمیان دروازے کا کام کرسکتے ہیں۔

اگر اس دروازے کو کھول دیا جائے تو اس میں سے گزر کر تم ایک الگ دنیا اور ایک الگ زمانے میں جا سکتے ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے ایسے کچھ bridges "ٹرانس ایبل" ہو سکتے ہیں، یعنی انسان ان کے ذریعے سفر کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔ معاف کرنا انسان نہیں شاید کوئی جانور بھی۔ (شاید میرے کالم کے آخری جملے سے تم سمجھ جاؤ کہ میں کس جانور کی بات کر رہا ہوں)۔

اس تھیوری کے تحت کائینات میں ایسے پوشیدہ دروازوں کا ہونا ثابت ہو چکا ہے جو بند رہتے ہیں، جو ہمیں بہت تیزی سے ایک دوسری دنیا میں لے جا سکتے ہیں لیکن یہ دروازے بند رہتے ہیں؟ انکے بند رہنے کی وجہ ان کے گرد پائی جانے والی ناقابل تصور کشش ثقل ہے۔یہاں مجھے ایک حدیث شریف کے ایک جملے کی یادآرہی ہے:"حتیٰ آتیٰ سماء الدنیا فاستفتح"

ترجمہ: یہاں تک کہ آسمان دنیا آیا اور اسے کھولا گیا۔

Check Also

Artificial Intelligence Aur Jaal Saz

By Mubashir Ali Zaidi