Wednesday, 16 April 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Saqib
  4. Aik CEO Ki Diary

Aik CEO Ki Diary

ایک سی ای او کی ڈائری

پاکستان کے ایک بڑے بزنس گروپ کے سربراہ سے کراچی میں ان کے آفس میں ملاقات ہوئی۔ چوڑی پیشانی، آنکھوں میں چمک اور مصافحے میں گرم جوشی ان کی لیڈرشپ سکل کو ظاہر کر رہی تھی۔ گزشتہ چالیس سال سے پاکستان میں بڑے پیمانے پر ملٹی پل بزنسز کر رہے ہیں۔

گفتگو کے دوران پاکستان سے محبت جھلکتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی ان کے Aura میں پیلا اور ہلکا نیلا رنگ نمایاں طور پر نظر آیا جو کہ ان کے ہائی سیلف اسٹیم اور انٹیوشن کی صلاحیت کو ظاہر کرتا ہے۔ کہنے لگے ثاقب بھائی ہم پاکستانیوں کو شکر گزاری کی عادت سیکھنے کی ضرورت ہے۔ جس شخص کے پاس آج سے 30 سال پہلے سائیکل تھی آج وہ گاڑی پر سفر کر رہا ہے۔ دنیا جہان کی نعمتیں ان 30 سالوں میں اس نے حاصل کی لیکن زبان پر شکوہ ہے اپنے ملک کی ناقدری ہے۔

کاروباری طبقے کی بات کی کہ دو تین سال کے بعد کسی شخص سے ملاقات ہوتی ہے تو اس کے گھر کے پورچ میں دو نئی لگژری گاڑیاں کھڑی ہوئی نظرآتی ہیں اور اس کی گفتگو کا لب لباب یہ ہوتا ہے کہ پاکستان میں بزنس کا بیڑا غرق ہوگیا بہت زیادہ مشکلات ہیں کہتے ہیں کہ اگر بزنس میں نقصان ہو رہا ہے تو کروڑوں روپے کی گاڑیاں کہاں سے آ رہی ہیں؟

ایک بڑے بزنس مین سے لے کر ایک ریڑی چلانے والے مزدور تک ہر شخص کی زبان شکوے اور شکایت سے آلودہ ہے۔

میں نے پوچھا شکر گزاری کو اپنی زندگی میں شامل کرنے کے ساتھ اور کیا کیا جائے کہ کامیابی کی دیوی مہربان ہو جائے۔

انہوں نے کہا کہ زندگی ہر روز چیلنج لے کر آتی ہے گویا انسان کی قسمت ہر روز لکھی جاتی ہے سخت محنت، اللہ تعالی کی توفیق اور صبر کی طاقت سے آپ اپنی منزل کو پاتے ہیں۔ کامیابی کا کوئی شارٹ کٹ نہیں۔

دیر کی معذرت
سحر ہوں میں

مجھ کو پڑتی ہے
رات رستے میں

اس پرنسپل کو ایک سٹوری کی مدد سے سمجھتے ہیں ایک بڑی کمپنی جس میں ملازمین کی تعداد ہزاروں میں تھی ایک دلچسپ میراتھن ریس کے مقابلے کا اعلان کرتی ہے اس منی میراتھن ریس میں 35 سال سے زائد عمر کے ملازمین حصہ لے سکتے تھے۔ ریس کے دوران کامیاب ہونے کے لیے حصہ لینے والوں کو 11 کلومیٹر کا فاصلہ دوڑ کرطے کرنا تھا۔ اس کمپنی میں مختلف ڈیپارٹمنٹس میں کام کرنے والے تین دوست بھی اپنا نام لکھوا دیتے ہیں۔

ریس شروع ہونے میں ابھی 45 دن باقی تھے اور ان میں سے ایک دوست جس کا نام عبداللہ تھا اپنا نام لکھوانے کے بعد آئینے کے سامنے کھڑا ہو کر اپنے آپ سے پوچھتا ہے کہ کیا میں 11 کلومیٹر تک بھاگ سکوں گا فوراََ ہی جواب ملتا ہے کہ تم دو کلومیٹر بھی نہیں بھاگ سکتے اپنا باہر نکلا ہوا پیٹ دیکھو یہ جواب اس کا لا شعور دیتا ہے۔

مقابلے کے فاتح کو لاکھوں روپے کا انعام ملنا تھا عبداللہ ریس کی تیاری کا فیصلہ کرتا ہے اسی دن شام کو اپنے گھر کے قریب موجود پارک میں جاتا ہے۔

وہاں پر ورزش میں مصروف ایک ریٹائرڈ فوجی افسر سے سیلف ٹریننگ کی بات کرتا ہے اور اسی دن سے پریکٹس شروع کر دیتا ہے ڈیڑھ ماہ کی سخت محنت کے بعد وہ نہ صرف 11 کلومیٹر دوڑنے کے قابل ہو جاتا ہے بلکہ اس کا 20 کلو وزن بھی کم ہو جاتا ہے ریس کے دن گراؤنڈ میں جب تینوں دوستوں کی ملاقات ہوتی ہے تو باقی دونوں دوست اپنے سامنے ایک سمارٹ شخص کو دیکھ کر حیران ہو جاتے ہیں ان کی آنکھوں میں حسد کا مادہ نظر آتا ہے کیونکہ وہ جان جاتے ہیں کہ عبداللہ یہ ریس جیت جائے گا وہ مقابلے کے جج کے پاس جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب ریس کے لیے نام لکھوائے گئے تھے تو عبداللہ کا وزن 20 کلو زیادہ تھا اس نے ڈیڑھ ماہ میں یہ وزن کم کر لیا ہے اس لیے اس کو کہا جائے کہ وہ 20 کلو وزنی آٹے کی تھیلی اپنی کمر پر باندھے اور اس کے بعد ریس میں شرکت کرے جج یہ بات عبداللہ سے کرتا ہے وہ ظاہر ہے انکار کر دیتا ہے اور آٹے کی تھیلی کے بغیر ریس میں شرکت کرتا ہے اور فاتح کی حیثیت سے اس ریس کا اختتام کرتا ہے۔

محترم دوستو! کامیابی کی ایسی ہی ریس میں شرکت کا موقع ہم سب کو زندگی میں مختلف موقعوں پر ملتا رہتا ہے لیکن ہم ایک بڑی بوری اپنی پیٹھ پر باندھ کر اس ریس میں حصہ لیتے ہیں اور ناکام ہو جاتے ہیں اس بوری میں ہمارا کمفرٹ زون، محدود سوچ، شکایت کرنے کی عادت، چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھگڑا کرنا، جھوٹ بولنا، دھوکہ دینا اور فیملی کے ساتھ لڑائی کرنا وغیرہ شامل ہوتے ہیں زندگی میں نیکسٹ لیول پر جانے کے لیے اس بوری کو اتارنا ضروری ہے۔

آپ نے فیوچر کے منصوبوں کا ذکر کرتے ہوئے ایک سٹیٹ آف دی آرٹ ایگریکلچر انسٹیٹیوٹ کے قیام کی بات کی۔

گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے کہنے لگے کہ نوجوانوں کو بڑے خواب دکھائے جائیں خواہ مخواہ کی ایگو سے پرہیز انتہائی ضروری ہے یہ ایگو دولت، علم، حسن، حسب نصب، غرض کسی بھی چیز کی ہو سکتی ہے۔

اپنے کالج کے دنوں کے بارے میں بتایا کہ سرکاری کالج تھا جس کا معیار آج کے ٹاپ کے پرائیویٹ کالجز سے بہتر تھا کسی دن ذاتی گاڑی میں کالج آ جاتے تو اور اساتذہ سرزنش کرتے اور کہتے کہ باقی طالب علموں کی طرح آپ بھی بس میں آیا جایا کریں۔

اس وقت کے کراچی کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ شہر میں چار ہزار بسیں چلتی تھیں گھر کی تربیت پر زور دیا کہ آج کل کے والدین پیمپرڈ بچے تیار کر رہے ہیں معمولی سی سختی برداشت نہیں کر سکتے اور بھول جاتے ہیں کہ ہر عروج کو زوال ہے اور ہر موسم ایک وقت کے بعد تبدیل ہو جاتا ہے۔

یہ ہمیشہ سے ہے تقدیر کی گردش کا چلن
چاند سورج کو بھی لگ جاتا ہے اک بار گرہن

دیکھ کر وقت کی رنگینیاں حیران نہ ہو
آدمی وہ ہے جو مصیبت میں پریشان نہ ہو

پاکستانیوں کو اپنی ویلیو بڑھانے کا میسج دیا مثال دے کر بتایا کہ پانچ ٹن ایلومینیم کو خام حالت میں بیچا جائے تو وہ وزن کے حساب سے بکتا ہے اور اسی ایلو مینیم سے 16-F جہاز بنتا ہے اور اس کی ویلیو ملینز آف ڈالرز میں ہوتی ہے۔

اللہ تعالی سے تعلق مضبوط بنانے پر زور دیا ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا کہ ہجرت انسان کا کیریکٹر بناتی ہے۔

دوبارہ سے زور دے کر کہا کہ محنت کے بغیر کامیابی ممکن نہیں۔ افتخار عارف کو پسند کرتے ہیں تو انہی کے اشعار سے اس کالم کا اختتام کرتے ہیں۔۔

میرے خدا مجھے اتنا تو معتبر کر دے
میں جس مکان میں رہتا ہوں اس کو گھر کر دے

مری زمین میرا آخری حوالہ ہے
سو میں رہوں نہ رہوں اس کو بار آور کر دے

About Muhammad Saqib

Muhammad Saqib is a Mental Health Consultant with over a decade of experience in hypnotherapy, leadership development, mindfulness and emotional intelligence.

He is also a seasoned writer, having authored over 150 columns and a renowned book. Alongside his work as a corporate trainer, he actively researches, compiles and documents the success stories of remarkable Pakistani personalities through the lens of Mind Sciences.

If you know someone with an inspiring story worth sharing, you can refer them to him. Muhammad Saqib will personally interview them to document their journey.

For Mind Sciences Consultation and Sales Training, you can reach him via WhatsApp at 0300-9273773.

Check Also

Allama Shafiq Laghari

By Rauf Klasra