Sulag Raha Hai Mera Shehar, Jal Rahi Hai Hawa
سلگ رہا ہے مرا شہر، جل رہی ہے ہوا
سلگ رہا ہے مرا شہر، جل رہی ہے ہوا۔ یہ شعر کسی شاعر کے ذاتی غم کا اظہار نہیں بلکہ ایک اجتماعی المیے کی عکاسی کرتا ہے۔ دنیا کے مختلف خطوں میں جنگ و جدل اور تصادم کے حالات نے انسانی زندگی کو ایک نہ ختم ہونے والے عذاب میں بدل دیا ہے۔ آج کے دور میں امن، جو کبھی انسانیت کا بنیادی حق تھا، ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔ گلیوں میں بہتا ہوا خون، فضا میں پھیلی ہوئی بارود کی بو اور چاروں طرف تباہی کے مناظر نے ہر حساس دل کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ یہ حالات ہمیں اس پر مجبور کرتے ہیں کہ ہم سوچیں، آخر انسانیت اس حال کو کیوں پہنچی؟ کیا دنیا واقعی اتنی بے حس ہوگئی ہے کہ امن کی خواہش ایک خیال بن کر رہ گئی ہے؟
اقوامِ متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق، اس وقت دنیا کے پچاس سے زائد ممالک میں مسلح تنازعات جاری ہیں۔ ان تنازعات میں لاکھوں افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ شام میں جاری خانہ جنگی نے پچھلے بارہ سالوں میں پانچ لاکھ سے زائد زندگیوں کو نگل لیا ہے، جبکہ یوکرین کی جنگ کے دوران تقریباً ایک کروڑ لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ یمن میں بچے غذائی قلت کا شکار ہو رہے ہیں اور فلسطین میں ہر روز ظلم کے نئے باب رقم ہو رہے ہیں۔ یہ اعداد و شمار ہمیں ایک بہت تلخ حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں بلکہ ایک نیا بحران پیدا کرتی ہے۔
انسانی جانوں کے ضیاع کے ساتھ ساتھ جنگ کے ماحول پر بھی تباہ کن اثرات پڑ رہے ہیں۔ جنگ کے دوران بارود، دھماکوں اور کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال زمین کو بنجر کر دیتا ہے۔ جنگ زدہ علاقوں کی فضا زہریلی ہو جاتی ہے، جس سے نہ صرف لوگوں کو سانس کی بیماریاں لاحق ہو رہی ہیں بلکہ مستقبل کے لیے بھی ماحولیاتی خطرات بڑھ رہے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق، جنگ زدہ علاقوں میں بچوں میں سانس کی بیماریوں اور غذائی قلت کی شرح خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ یہ سب ظاہر کرتا ہے کہ جنگ کی آگ صرف انسانوں کو نہیں بلکہ ہماری زمین کو بھی جلا کر خاک کر رہی ہے۔
جنگ کے پیچھے کئی وجوہات کارفرما ہیں، جن میں بڑی طاقتوں کا دوہرا معیار سب سے زیادہ قابلِ ذکر ہے۔ جب کسی ملک کے وسائل یا جغرافیائی حیثیت پر قبضے کی بات آتی ہے تو بڑی طاقتیں انسانیت کے اصولوں کو بھلا دیتی ہیں۔ فلسطین میں جاری مظالم یا کشمیر میں حقِ خودارادیت کے لیے آواز بلند کرنے والوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ انصاف کے ترازو میں ہمیشہ طاقتور کا پلڑا بھاری رہا ہے اور کمزور اقوام کو دبانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس دوہرے معیار نے دنیا کو مزید تقسیم کر دیا ہے اور انسانیت کو مزید دکھوں میں مبتلا کر دیا ہے۔
امن کا قیام ایک خواب ضرور لگتا ہے، لیکن یہ خواب ناممکن نہیں۔ اگر دنیا کو واقعی ایک بہتر مقام بنانا ہے تو ہمیں اپنے رویوں میں تبدیلی لانی ہوگی۔ جنگیں صرف سیاستدانوں کے فیصلے نہیں ہوتیں بلکہ عوام کے رویوں کا بھی عکس ہوتی ہیں۔ اگر ہم امن کی اہمیت کو سمجھیں اور نفرت، لالچ اور تعصب سے بچیں تو شاید ہم ایک ایسی دنیا تخلیق کرنے میں کامیاب ہو جائیں جہاں محبت اور بھائی چارے کو فروغ دیا جا سکے۔
عالمی سطح پر قیادت کی ناکامی بھی جنگوں کے جاری رہنے کی ایک بڑی وجہ ہے۔ اقوامِ متحدہ جیسے ادارے، جنہیں دنیا میں امن قائم رکھنے کے لیے تشکیل دیا گیا تھا، وقت کے ساتھ غیر مؤثر ہو چکے ہیں۔ بڑی طاقتوں کی سیاست نے اقوامِ متحدہ کو ایک بے بس ادارہ بنا دیا ہے جو فلسطین، کشمیر، یا دیگر تنازعات کو حل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ یہ سب اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اگر ہمیں امن چاہیے تو ہمیں موجودہ نظام میں تبدیلی لانی ہوگی اور ایسے اقدامات کرنے ہوں گے جو واقعی مسائل کا حل فراہم کریں۔
دنیا میں جنگوں کے خاتمے کے لیے مذاکرات اور مکالمے کا راستہ اپنانا ضروری ہے۔ فلسطین اور اسرائیل کے تنازعے کو مثال کے طور پر لیا جا سکتا ہے، جہاں دونوں اطراف کو باہمی احترام کے ساتھ مسائل کا حل تلاش کرنا ہوگا۔ اسی طرح کشمیر کے مسئلے کو بھی اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ان سب کے لیے ضروری ہے کہ بڑی طاقتیں اپنی سیاست کو ایک طرف رکھ کر انصاف کی حمایت کریں اور دنیا میں حقیقی امن قائم کرنے کی کوشش کریں۔
نوجوان نسل اس حوالے سے ایک اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ انہیں چاہیے کہ وہ سوشل میڈیا، تعلیمی اداروں اور دیگر پلیٹ فارمز پر امن کے فروغ کے لیے اپنی آواز بلند کریں۔ نفرت انگیز مواد کو پھیلانے کے بجائے محبت، برداشت اور بھائی چارے کے پیغام کو عام کریں۔ وہ عالمی سطح پر مظلوم قوموں کے حق میں آواز بلند کر سکتے ہیں اور انصاف کے قیام کے لیے اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔
"سلگ رہا ہے مرا شہر، جل رہی ہے ہوا" محض ایک شعر نہیں بلکہ ایک عالمی المیے کا عکاس ہے۔ یہ ہمیں اس بات کی یاد دہانی کراتا ہے کہ اگر ہم نے اپنے رویے نہ بدلے تو شاید وہ دن دور نہیں جب یہ صرف ایک شہر یا ملک کی کہانی نہیں بلکہ پوری دنیا کی حقیقت بن جائے گی۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی حیثیت کے مطابق امن کے قیام کے لیے اپنا حصہ ڈالیں۔ چاہے وہ ایک طالب علم ہو، ایک صحافی، ایک سیاستدان، یا کوئی عام شہری، سب کو اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے امن کے فروغ کے لیے کام کرنا ہوگا۔
دنیا میں امن کا قیام ممکن ہے، لیکن اس کے لیے ایک متحرک اور سنجیدہ سوچ کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے عمل، سوچ اور رویے کو تبدیل کرنا ہوگا۔ ورنہ یہ زہر آلود ہوا، جو آج ہمیں سانس لینے میں دشواری پیدا کر رہی ہے، کل ہماری نسلوں کو زندہ رہنے کا حق بھی چھین لے گی۔ امن انسانیت کا حق ہے اور اس حق کو قائم رکھنے کے لیے ہمیں اپنی تمام تر کوششیں بروئے کار لانی ہوں گی۔ یہ نہ صرف ہمارے حال بلکہ ہمارے مستقبل کے لیے بھی ضروری ہے۔