Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Sajjad Aheer
  4. Pakistani Che Guevara, Kastro Aur Geelay Teetar

Pakistani Che Guevara, Kastro Aur Geelay Teetar

پاکستانی چے گویرا ، کاسترو اور گیلے تیتر

دوستو پاکستان کچھ معاملات میں خودکفیل ہے بلکہ باقی دنیا سے آگے ہے اور نمایاں بھی۔ اور ان معاملات میں "کوئی مقابل نہیں دور تک بلکہ بہت دور تک" والی صورتحال ہے۔ لکھنے والوں نے ہمیشہ مسائل پہ لکھا اور حالات کے جبر نے اعصاب پر دباؤ بڑھائے رکھا ہے اس لیے یقین نہیں آتا، مگر ہم دنیا میں موجود ہیں بلکہ ان معاملات میں یکتا ہیں۔

سب سے پہلا معاملہ جس میں ہمیں فخر کرنا ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں "چے گویرا" دریافت ہو گیا ہے۔ ہم اسے "چےگویرا" کا پاکستانی ورژن بھی کہ سکتے ہیں۔ جی ہاں وہی "چےگویرا" جو استعمار کے خلاف مسلح بغاوت اور انقلاب کا استعارہ ہے جس کا 1967 میں انتقال ہو چکا ہے اب ان کا دوبارہ ظہور ہؤا ہے اور باقاعدہ حیات ہیں بلکہ ستر سال کے ہیں اور سب سے بڑی بات کہ وہ پاکستان میں ہیں۔ ہمیں فخر کرنا چاہیئے کہ اس وقت پوری دنیا میں صرف ایک ہی "چے گویرا" بھائی پائے جاتے ہیں اور وہ پاکستان میں ہیں۔

اوریجنل "چے" کی شناخت، غریب عوام کے مسائل کی دھونکنی میں ہر وقت جلنا، استعمار سے جنگ، بندوق، سگار، کمانڈو کی زندگی اور مجاہدانہ بے نیازی تھی اور واقفان حال کے مطابق، بی گریڈ، پاکستانی "چے بھائی گویرا" کی شناختی علامات وقت اور حالات کے مطابق بدلتے اصول، بیانیہ اور نقطہ نظر، ایک ہی نظریہ "اقتدار"، کیمرہ لائٹنگ، لائم لائٹ، خوشامدی سیاست اور صحافت سے رغبت، خودساختہ "ماچو" امیج، صنف نازک کی طرف کمزوری کی حد تک جھکاؤ، من گھڑت عظمتوں کی داستان گوئی اور بڑھک سے رغبت ہے۔

دوسرا اعزاز جو ہمیں حاصل ہو رہا ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان میں پچھلے چند سالوں میں گدھوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ تازہ ترین سروے کے مطابق 2022 میں پاکستان میں گدھوں کی آبادی 5.7 ملین تک پہنچ گئی ہے۔ 2020 میں 5.5 ملین گدھے تھے اور2021 میں 5.6 ملین تھے۔ پاکستان اب دنیا میں گدھوں کی تیسری سب سے بڑی آبادی والا ملک ہے۔

اگلا اعزاز جو پاکستان کو یکتا کرتا ہے وہ پاکستان کی صحافت کی چھتری تلے موجود درخشاں ستارے اور ان کی سرپرستی کرتے میڈیا ہاوسز ہیں۔ یہ ستارے تو بےشمار ہیں مگر نمونے کے طور پر صرف ایک پیش خدمت ہے جو "گیلا تیتر" کے نام سے مشہور ہیں۔ یہ اتنے دیانتدار "صحافی" ہیں کہ صرف چند سالوں میں ایک سڑک چھاپ سے اپنی "محنت" کے بل پر اوج ثریا تک جا پہنچے ہیں اور آج فارم ہاؤسز، گاڑیوں کی لمبی قطاریں، باڈی گارڈز، بلٹ پروف گاڑیاں، جدید اسلحہ، اور بہت سارا مال۔

حاسدین تو سوال کرتے ہیں کہ چند سالوں میں یہ سب کیسے بن گیا؟ اور الزام لگاتے ہیں کہ "گیلا تیتر" اور اسی طرح کے چند میڈیائی طوطے استعمال ہوئے اور بدلے میں خوب مال بنایا اور یہ سب لوگ ریاست کے مفاد کے خلاف لیے گئے فیصلوں کو جائز ثابت کرنے والے بھاڑے کے ٹٹو تھے جو اب ایک سیاسی جماعت کے ماوتھ پیس بن چکے ہیں وغیرہ وغیرہ، لیکن ان حاسدین کی خدمت میں گیلے تیتر اینڈ کمپنی کی طرف سے عرض ہے "یہ سب میری ماں کی دعا ہے، جلنے والے کا منہ کالا اور ماں کی دعا جنت کی ہوا، سڑ نہ دعا کر"۔

ہماری اگلی خصوصیت جو ہمیں باقی قوموں سے ممتاز کرتی ہے وہ ہے "بڑھک مارنا" یا "بڑھک" کا کلچر۔ سلطان راہی مرحوم کو پاکستانی سینما اور بالخصوص پنجابی فلموں میں اپنے اسلوب کی وجہ سے ایک استعاراتی اہمیت حاصل ہے میں ذاتی حیثیت میں راہی صاحب کا مداح ہوں، وہ بہت باصلاحیت فنکار تھے مگر میں سمجھتا ہوں کہ پاکستانی فلم سازوں نے راہی صاحب کی صلاحیت کے حساب سے ان سے کام نہیں لیا۔ ان کی بہت ساری مشہور باتوں میں سے ایک ان کی "بڑھک" تھی۔

ان کی دو مشہور بڑھکیں جو پاکستانی "چے بھائی گویرا" کو بھی پسند ہیں اور وہ دہراتے رہتے ہیں پہلی "اوئے میں متھے رنگ دیاں گا" اس کا مطلب سادہ اردو میں یہ ہے کہ "میں سر پھاڑ دوں گا"۔ دوسری بڑھک "میں کلا ای کافی آں" اس کا مطلب ہے کہ میں اکیلا سب پہ بھاری ہوں۔ حاسدین تو الزام لگاتے ہیں کہ "چےگویرا" بھائی جان، آپ نے اس قوم کی اخلاقیات اور ملک کی معیشت تباہ کی ہے اور اب اپنی کارکردگی کا حساب دینے کے بجائے بادہ خواروں کے چے گویرا بن بیٹھے۔ آپ چے گویرا نہیں چالیس چوروں اور چورنیوں کے ٹولے کے چیف ہیں۔ "ان حاسدین کی خدمت میں عرض ہے کہ یہ پاکستانی "چے" کا جدید انقلاب ہے اس کی نفسیات بھی جلاب جیسی ہے کسی بھی وقت اچانک "انقلاب" آ سکتا ہے۔

ایک اور اہم اعزاز یہ کہ پاکستان میں صرف "چے" بھائی دریافت نہیں ہوئے بلکہ ایک سے زیادہ "فیڈیل کاسترو" بھی دریافت ہوئے ہیں۔ جیسے کہ "چے" بھائی اور "فیڈیل" بھائی نے کیوبا میں مسلح انقلاب برپا کیا تھا لیکن حکومت پھر "فیڈیل" بھائی نے کی تھی اس لیئے اب پاکستان میں ایک سے زیادہ انقلابی "فیڈیل" بھائی بننے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔ کافی نازک صورتحال ہے مگر اس وقت تک ایک "فیڈیل کاسترو" ملتان میں ایک جہلم میں ایک پشاور میں اور ایک پنڈی میں دیکھے گئے ہیں باقی چھوٹے چھوٹے "فیڈیل" بھائی پاکستان کے دیگر شہروں میں بھی دیکھے گئے ہیں۔

جو خاص کر رات کو سوتے میں یہ کہتے ہوئے پائے گئے ہیں۔ "اصلی "فیڈیل بھائی کاسترو" میں ہوں "انقلاب" کے بعد اقتدار پہ میرا حق ہے نقالوں سے ہوشیار رہیں، ملتے جلتے ناموں سے دھوکہ مت کھائیں، پاکستان میں ہماری کوئی دوسری برانچ نہیں۔

Check Also

Riyasat Ke Daimi Idaron Ko Shayad Ab Kuch Naya Karna Pare

By Nusrat Javed