Pakistan Mein Qayadat Ke Naye Asool
پاکستان میں قیادت کے نئے اصول
یوں تو مملکت خداداد اقوام عالم میں کافی زاویوں سے ممتاز ہے۔ لیکن حال ہی میں جو تنوع اور ارتقاء قیادت کے معیارات طے کرنے میں نظر آیا ہے اس کی نظیر نہیں ملتی۔ پاکستانی قوم حال ہی میں اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزری ہے۔ ماضی قریب میں رہبری کی اونچی استھان پر براجمان، نابغہ روزگار ہستی کے حالات وواقعات کے مطالعے سے قیادت کے جو نئے اصول ابھر کر سامنے آئے ہیں وہ قارئین کے گوش گزار کر دیتے ہیں۔
سب سے پہلا رہنما اصول، یو ٹرن لینا اور اس کی تکنیکی مہارت۔ آپ ایک رہنما کے طور پر جو بھی بلند بانگ دعوے اور اخلاقی بھاشن دیتے ہیں، کھل کھلا کے دیں، آپ کا ان پر عمل پیرا ہونا قطعاً ضروری نہیں۔ آپ کو سرمو بھی گھبرانے یا ذمہ داری لینے کی ضرورت نہیں۔ جب دل کرے یا مشکل پیش آئے، پہلا دستیاب یوٹرن لیں اور پتلی گلی سے نکل لیں۔ سند کے طور پر سابق وزیراعظم عمران خان کا قول زریں یاد کر لیں کہ عظیم قائد وہی بن سکتا ہے جو یوٹرن لے سکتا ہو۔ اگر آپ یو ٹرن ہی نہیں لیتے تو عظمت کی منزل کیسے پائیں گے؟ اہم نکتہ یہ کہ اپنی بات سے یکسر منحرف ہوتے وقت اعتماد اور لہجہ پہلے سے بھی بلند اور مضبوط محسوس ہونا چاہیے۔
دوسرا اصول، آپ کو پرلے درجے کا بداخلاق اور بدکلام ہونا چاہیے۔ مخالفین کی بری نقل اتارنا اور تھوک کے حساب سے گالیاں بکنا بھی آتا ہو۔ اگر اس میں تھوڑی سی بھی کمی کوتاہی رہ گئی تو یاد رکھیں پھر آپ وزیراعظم نہیں بن سکیں گے۔ اگر یہ چیزیں مشکل لگیں تو عمران خان صاحب کے سفر کامیابی سے رہنمائی حاصل کرتے رہیں۔ ان جیسا لب و لہجہ اور گالیاں دینے کا سٹائل آج کل خاصا "ان" ہے۔ آپ کو خان صاحب کا قول و فعل علامہ کے اس شعر
نگہ بلند سخن دلنواز جاں پر سوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے
سے متصادم نظر آئے گا؟ لیکن یقین کریں کہ جتنا عمران خان صاحب علامہ اقبال کو جانتے ہیں اتنا علامہ اقبال بھی اپنے آپ کو نہیں جانتے۔ اس لئے، اس شعر کی وہی تشریح صحیح ہے جو اوپر بیان کی گئی ہے اورعمران خان صاحب نے عملاً اپنے رویے سے ثابت کی ہے۔ اس سے پہلے کی تمام تشریحات کو متروک سمجھا جائے۔
تیسرا رہنما اصول یہ ہے کہ اگر آپ نے پاکستان کا وزیراعظم بننا ہے تو آپ آکسفورڈ سے پڑھے ہوں یا بیشک چٹے ان پڑھ ہوں بس آپ کو اداکاری کرنا آتی ہو کہ آپ کو مذہب، سیاسیا ت، جغرافیہ، معاشیات، اقبالیات اور روحانیات پر عبور حاصل ہے۔ بیشک ان ساری چیزوں کی بہت بنیادی باتوں سے بھی آپ کو تعارف نہ ہو ہر چند اس سارے سفر میں آپ کو جاپان کی سرحدیں جرمنی سے ملتی ہوئی نظر آئیں، آپ کو سال کے بارہ موسم نظر آئیں، آپ کو پاکستان میں چونسہ کا ایک پسماندہ علاقہ نظر آنا شروع ہو جائے، ایک آدھ بار روحانیت اور خاتم النبیین جیسے مشکل الفاظ سے بھی سامنا ہو جائے، معاشی اصلاحات میں کٹے، انڈے اور مرغیاں نظر آئیں، لیکن آپ نے ایک بات ذہن نشین کر لینی ہے کہ آپ نے "گھبرانا" نہیں ہے اور دوسرا یہ یاد رکھنا ہے کہ بھینس کا جو لڑکا ہوتا ہے اس کو کٹا اور بھینس کی لڑکی کو کٹی کہتے ہیں۔
پھر ساری دنیا مل کے بھی آپ کو غلط ثابت نہیں کر سکے گی اگر آپ ہینڈسم ہیں اور آپ کے پاس ایک عدد موٹے دانے والی تسبیح ہے۔ اور اگر ایک عدد پتھر کے نگ والی مندری اور پشاوری چپل بھی دستیاب ہو جاۓ تو کیا کہنے۔ اس کے ساتھ ایک عدد چست فوٹوگرافر اور ویڈیو ریکارڈر ہمہ وقت تیار رہے۔ بس آپ لباس کوئی بھی پہنیں، ذکر اذکار کریں نہ کریں، جب کیمرا آن ہو تو آپ کو روحانی، نورانی اور ایمانی نظر آنا چاہیے۔ جی ہاں پاکستان کی سیاست میں عروج پر پہنچنے کا چوتھا رہنما اصول یہ ہے کہ آپ اداکار ہوں، ہینڈسم اور دروغ گو ہوں تو آپ کا بڑے سے بڑا گناہ معاف بلکہ سات خون معاف۔
کامیابی کا پانچواں اصول یہ ہے کہ آپ کم سے کم ذہنی اور جسمانی مشقت کے عادی ہوں۔ بلکہ ریاست اور عوام کی بھلائی کے لیے بطورِ وزیراعظم آپ کو روزانہ ڈیڑھ سے دو گھنٹے کام کرنے کی عادت ہو تو یہ کافی ہے اس سے ذیادہ کام کرنے کا عادی وزیراعظم، پاکستان کو ہضم نہیں ہوتا بلکہ بدہضمی کا احتمال رہتا ہے۔
کامیابی کا اگلا رہنما اصول یہ ہے کہ آپ کے پاس خاصا بڑا پروپیگنڈا بجٹ یا پھر معاشی طور پر مضبوط مالی معاونین ہونے چاہئیں۔ یہ ہے تو ادھار کا سودا لیکن نقد سے بھی بہتر ہے۔ جب آپ وزیراعظم بنیں گے تو آپ کے مالی معاونین کی پانچوں گھی میں اور سر کڑاہی میں۔
پھرآپ کو وزیراعظم کی کرسی تک پہنچانے والے اور ریاست کے کھلے خزانے، "جو چاہے ان کا حسن کرشمہ ساز کرے"۔ سند کے طور پر جناب خان صاحب اور ان کے مالی معاونین کی طلسماتی داستان ہوشربا کو اپنے سامنے رکھیں۔
کامیابی کا اگلا اصول یہ ہے کہ خودنمائی اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لئے ایک عدد مربوط، مضبوط سوشل میڈیا سیل ہونا چاہئے۔ عمران خان صاحب فرماتے ہیں کہ یہ سوشل میڈیا کا دور ہے۔ بالکل بجا فرماتے ہیں، جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنانا کوئی مسئلہ ہی نہیں اور سوشل میڈیا پر جواب دہی اور احتساب کا نہایت کمزور یا سرے سے کوئی نظام ہی نہیں۔
اس لیے آپ کام بالکل نہ کریں بلکہ الٹے کریں، کرپشن، اقربا پروری، نااہلی، جو مرضی کریں، جتنا مرضی کریں، سوشل میڈیا آپ کے جھوٹ کو سچ اور آپ کی رائی کو پہاڑ ثابت کر دے گا۔