Likhte Rahe Janoo Ki Hikayaat (1)
لکھتے رہے جنوں کی حکایات (1)
صاحبان علم، ناچیز کو کل رات خواب میں ایک بہت ہی برگزیدہ ہستی بابا بگا عرف بیلی پور والی سرکار المعروف بابا ٹھڈے مار کی زیارت اور حلقہ ارادت میں بیٹھنے کا شرف نصیب ہوا۔ خواب میں اپنے آ پ کو ایک بہت عالی شان محل نما عمارت کے مرکزی پھاٹک پر موجود پایا جو کہ بابا جی کا آستانہ عالیہ بیلی پو ر شریف تھا۔
محل کے گیٹ پر جلی حروف میں لکھا تھا " جمہوریت، مائی فٹ "۔ مرکزی پھاٹک پر ایک بڑے منہ والا، خونخوار قسم کا دربان پہرا دے رہا تھا۔ دربان نے کہا " آ گئے ہو، صا حب عالم تمہارا ہی انتظار کر رہے ہیں "۔ اس نے مجھے چشم زدن میں ایک حلقے میں دھکیل دیا اور کہا " بابا جی بہت پہنچی ہوئی ہستی ہیں بڑی سرکار کے خاص خلیفہ ہیں اور ہاں یہاں پر سوال کی اجازت نہیں ہے بس لیکچر سنو اور گھر جاؤ"۔
بابا جی پنڈی والے مشہور بابے بابا ٹلی المعروف لال حویلی والی سرکار اور بابا شیدا المعروف بابا گذارش یہ ہے کے ہم پیالہ، ہم نوالہ بابے ہیں۔ میں جب پہنچا تو بابا جی لیکچر شروع کر رہے تھے۔ آپ نے فرمایا آج کا لیکچر بہت اہم ہے اور پاکستان کے تاریخی حقائق اور صدارتی نظام کے فوائد پر ہے۔ سارے تاریخ سے نابلد، کم عقل اور کوڑھ مغز، اپنی تاریخ درست کر لیں اور آئندہ لکھتے ہوے اس کا خاص اہتمام کریں۔ نیچے سا رے معروضات بابا بگا کے من و عن فرمودات ہیں۔ آپ کچھ یوں گویا ہوئے۔
"دیکھو بھئی کوڑھ مغزو، یہ بات درست ہے کہ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے۔ پاکستان کا آئین ایک وفاقی پارلیمانی نظم کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ مگر کیا کیا جائے کہ ریاست پاکستان کے قیام سے لے کر آج تک ہمیں مخلص سیاسی قیادت میسر ہی نہیں آئی اور مخلص سیا سی قیادت کا فقدان بلکہ بحران رہا تو پھر، چولھے میں گئی ایسی جمہوریت اور ٹھڈے مارنے چاہئیں ایسے جمہوریت پسندوں کو"۔
" واہ۔ واہ، کیا کہنےمرشد، بابا بگا، زندہ باد " کا نعرہ مستانہ بلند ہوا" اسی لیے شروع میں ہی انتہائی مخلص، ہینڈسم، گول اور رعب دار مونچھوں والے جنرل محمّد ایوب خان کو ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں سیاست اور کار سرکار میں مداخلت کے گناہ بے لذت کا الزام اپنے سر لینا پڑا۔ آپ بہت وجیہ تھے اور آپکی وجاہت کی تو اس وقت کی امریکی خاتون اول جیکی کینیڈی بھی مداح تھیں۔
مرشد نے اپنی ٹریڈ مارک رعونت سے سب سامعین کو دیکھا اور اپنی سگنیچر موو، نتھنے پھلا کر، اپنی سونے کی چین والی گھڑی اور ہاتھ میں بڑے نگوں والی مندری کا رعب دار جلوہ دکھایا۔ پھر اپنے خاص انداز سے گویا ہویے
"پھر آپ نے گیارہ سال دن رات دوہری مشقت کر کے ملک و قوم کی خدمت کی اور ایک کمزور ملک کی ڈوبتی ہوئ نیا کو اپنے مضبوط کندھوں کا سہارا دیا۔ قوم اس دور میں بھی بہت ناشکری تھی، ایک مسیحا کو آمر کہ کر ستاتی رہی۔ فیض احمد فیض، حبیب جالب وغیرہ نے تو ا شعار لکھ لکھ کر ایک اچھے خاصے ہینڈسم کا ناک میں دم کیے رکھا۔ اور ایک نابغہ روزگار مخلص رہنما کو آئین، دستور، عوامی حقوق کی پامالی کا بہانہ بنا کر تنگ کیے رکھا۔" آئین، دستور، عوامی حقوق، مائی فٹ " بابا جی جلال میں آ گئے " یہ کوئی قوم ہے، جنرل صاحب کی جگہ میں ہوتا تو خدمت کی بجاے ٹھڈے مارتا ان کو، جمہوریت، حقوق، آئین، کیا کیا ہے اس قوم نے آج تک۔ ایک ٹوٹی تو ایجاد کر نہیں سکے یہ لوگ ۔
اب غصے سے بابا بگا کے کھلے نتھنوں سے گرم ہوا ایسے نکل رہی تھی جیسے بپھرے ہوے بیل کے کھلے نتھنوں سے خارج ہو رہی ہو۔ آپ پھر گویا ہوے" خاص کر مشرقی پاکستان کے سیاست دانوں نے بہت ستایا۔ اسی لیے انیس سو باسٹھ میں ہی، آپ نے تنگ آکر ایک دن فرمایا تھا کہ مشرقی پاکستان والے اگر چاہتے ہیں تو اپنے آپ کو علیحدہ کر لیں۔ اس پر سونے پر سہاگہ، 1965 کے صدارتی انتخاب میں ان سیاست دا نوں نے مادر ملّت کو جنرل صاحب کے خلاف ورغلا دیا۔ ورنہ مادر ملت تو جنرل صاحب جیسے نیک سیرت کو ہی نجات دہندہ گردانتی تھیں۔
" گیارہ سال کی شبانہ روز قومی خدمت کے بعد آپ نے دائیں بائیں دیکھا تو آپکو اہل سیاست میں کوئی بھی مخلص، ایماندار، اور قابل سیاست دان نظر نہ آیا۔ پھر آپ نے انتہائی بوجھل دل کے ساتھ، بادل نخواستہ اقتدار، بالکل اپنے جیسے ہینڈسم، او ر وجیہ، جنرل محمّد یحییٰ خان کے سپرد کر دیا۔ آ پ بھی خاصے ہینڈسم تھے اور خواتین میں خاصے مقبول تھے۔ تاریخ کی پہلی خاتون جنرل، جنرل رانی آپ کے دور میں ہی گزری ہیں "۔
نہ جانے کیوں جنرل رانی کے ذکر پر بابا جی کی آنکھیں، موٹے شیشے والی عینک کے پیچھے بالکل طوطے جیسی ہو گئی تھیں۔ پھر بابا جی نے داد طلب نظروں سے اپنے دائیں بائیں دیکھا اور تھوڑے توقف کے بعد یوں گویا ہوئے" جنرل صاحب انتہائی محنت کے ساتھ ملک کی خدمت کر رہے تھے لیکن سیاستدانوں کی چیرہ دستیوں کی وجہ سے 1971 کے دسمبر میں ملک دو ٹکڑے ہوگیا اور بنگلہ دیش پاکستان سے علیحدہ ہوگیا۔ اس میں جنرل صاحب کا کوئی قصور نہیں تھا صرف اور صرف اہل سیاست کی نااہلی اور پاکستانی عوام کی عاقبت نا اندیشی کی وجہ سے اتنا مضبوط ملک ایک بہترین حکمران کے ہوتے ہوئے دولخت ہوگیا۔
بہر حال ملک دو ٹکڑے ہونے کے بعد، باقی ماندہ ملک پر سیاست دانوں نے زور زبردستی سے قبضہ کر لیا اور سیاسی دور شروع ہو گیا۔ صرف دو سال میں ہی اہل سیاست نے اپنے آپ کو منصب کے لیے نا اہل ثابت کرتے ہوئے ایسا اودھم مچایا یا کہ 73 کا آئین متفقہ طور پر پاس کر لیا اب یہ ملی بھگت نہیں تو اور کیا ہے، کوئی تو مخالفت کرتا، تاکہ پتہ چلے کہ جمہوریت ہے ملی بھگت نہیں ہے۔ ویسے اتنے مضبوط دفاع کے ہوتے ہوے یہ آئین وائین کی چنداں ضرورت نہیں تھی۔ آئین کس کھیت کی مولی ہے کیا بیچتا ہے آ ئین۔" بابا جی پھر جلال میں آ گئے اور میں نے دیکھا کہ اب ان کا منہ غصّے سے لال ہو گیا تھا۔" بحرحال کر لیا پاس آئین۔ آج تک سد سکندری بنا ہوا ہے ترقی کی راہ میں۔" بابا جی کافی تکلیف میں پھر گویا ہوے۔۔
" انیس سو ستتر میں ملک و قوم کے وسیع تر مفاد اور عوام کے پرزور مطالبے پر ایک اور جنرل صاحب کو بادل ناخواستہ مداخلت کرنا پڑی اور دہری مشقت کا فریضہ نبھانا پڑا۔ یہ ایک نیک سیرت جنرل صاحب تھے جنرل محمد ضیاء الحق۔ بارعب شخصیت تھے مونچھیں آپکی بھی گول اور رعب دار تھیں اور ان پر باقاعدہ تیل لگاتے کہ یہ ایک سپاہی کی شان ہے۔ آپ کو فرزند اسلام اور مجاہد ملّت بھی کہا جاتا ہے۔۔
جاری ہے