Monday, 29 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Muhammad Sajjad Aheer/
  4. Jis Ko Kehte Ho Khush Bakht Sada Hai Mazloom

Jis Ko Kehte Ho Khush Bakht Sada Hai Mazloom

جس کو تم کہتے ہو خوش بخت سدا ہے مظلوم

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر میانوالی میں ایک نوجوان کے ہاں بیٹی کی پیدائش ہوئی۔ نوجوان کو بیٹے کی خواہش تھی۔ بیٹی کی پیدائش سے وہ شدید مایوس ہو گیا۔ اس مایوسی اور غصے کے عالم میں اس نے 7 مارچ 2022 کو اپنی سات دن کی نومولود بچی کو پانچ فائر کرکے اس کی جان لے لی۔ معصوم سی بچی، جس کو ابھی دنیا میں آئے ہوئے صرف سات روز ہوئے تھے نہ جانے ایسی کیا غلطی ہو گئی یا ایسا کیا گناہ سر زد ہؤا کہ اس کے باپ کا غصہ اس معصوم کے پھول جیسے جسم میں پانچ گولیاں اتارنے تک ٹھنڈا نہ ہوا۔ تف ہے ایسی انسانیت پر اور حیف ہے ایسی مردانگی پر۔

جس کو تم کہتے ہو خوش بخت سدا ہے مظلوم

جینا ہر دور میں عورت کا خطا ہے لوگو

معاشرے میں اچھے لوگ بھی ہیں جو بیٹی کو رحمت سمجھتے ہیں اور ان کی تربیت اچھے انداز سے کرتے ہیں جو بیٹے اور بیٹیوں میں فرق نہیں سمجھتے اور بیٹی کو بھی اتنی ہی اہمیت دیتے ہیں جتنی بیٹوں کو۔ لیکن ہمارے معاشرے میں یقیناً اس ذہنیت اور سوچ کے حامل مردو و خواتین بھی پائے جاتے ہیں جن کی، اولاد کے لیے صرف بیٹے کی خواہش ہوتی ہے۔ جو بیٹی کی پیدائش کوعورت کا قصور سمجھتے ہیں۔ جو صرف بیٹے کی پیدائش کے لیے بچے پیدا کرتے رہتے ہیں۔ جو بیٹی کو بوجھ سمجھتے ہیں۔ جو بیٹوں کو برتر اور بیٹیوں کو کمتر سمجھتے ہیں۔ جو بیٹیوں کو جائیداد کا وارث تو مانتے ہیں لیکن عملاً وراثت میں حصہ نہیں دیتے۔ جو بیٹیوں کو ان کا جائز شرعی حق نہیں دینا چاہتے۔ اور یہ یقیناً ایسی ہی سوچ اور رویوں کا شاخسانہ ہے کہ میانوالی جیسے سانحات رونما ہوتے ہیں۔

ہمارے معاشرے میں ایسی بیمار سوچ کے پیچھے کارفرما عوامل اور ان کا خاتمہ بے حد ضروری ہے۔ یہ بیمار معاشرے کے ناپسندیدہ رویے ہیں - ان آئینوں میں ہمیں اپنا عکس دیکھتے رہنا چاہیے۔ جب تک ان رویوں کی مذمت اور ان کی درستگی کے لیے اجتماعی سطح پرعملی اقدامات نہیں کیے جائیں گے اور ریاستی سطح پر سخت ترین قوانین اور ان کی بے رحم عملداری کو یقینی نہیں بنایا جائے گا تب تک بیٹیوں کے تحفظ کی ضمانت اور سنہرے مستقبل کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ ویسے تو خواہشات کا ایک سیل رواں ہے لیکن اجتماعی رویوں میں بالکل بنیادی نوعیت کی چند تبدیلیاں اگر ہم کر پائیں تو بہت فرق پڑ سکتا ہے۔

بیٹی کی پیدائش پر ماں باپ، دادا دادی، نانا نانی کو بالکل اسی طرح خوشی منانا چاہیے اورعزیز و اقارب اور رشتہ داروں کو بھی اسی طرح مبارکبادیں دینا چاہیےجیسے بیٹے کی پیدائش پر دی جاتی ہے۔ بیٹی کو بیٹوں کے برابر تعلیم، تعظیم، تکریم، تربیت، خو راک، کپڑے اور جوتے کی پسند ناپسند میں بالکل برابر کا حق دیا جانا چاہیے۔ شریکِ حیات کے انتخاب اور اپنی شادی شدہ زندگی کے لیے بیٹی کی رائے کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہونی چاہیے۔

جائیداد اور وراثت میں بیٹی کا شرعی حق صرف تسلیم ہی نہیں کیا جانا چاہئے حقیقی معنوں میں اس کو دیا بھی جانا چاہیے۔ جہیز کی مذمت اور جہیز کے مطالبہ کرنے والوں کی مذمت قومی سطح پر ہونی چاہیے۔ نکاح کے بعد پہلے بچے کی پیدائش بیٹی کے والدین کے ذمے نہیں ہے۔ اس مطالبے کی ہر سطح پر مذمت ہونی چاہیے۔ بدقسمتی سے ہر بیمار رویہ کی ہم نے ایسے حوصلہ افزائی کی ہے کہ بیٹی کی پیدائش کو والدین کے لئے جرم بنا دیا ہے۔ مجبور والدین بیٹی کے پہلے بچے کی پیدائش کے لئے قرض لیتے ہوئے کتنے مجبور محسوس کرتے ہیں یہ تو ان والدین سے کوئی پوچھے۔

اس رویہ کی بھی قومی سطح پر مذمت ہونی چاہیے۔ بیٹے یا بیٹی کی پیدائش، عورت کی طرف منسوب کرنے والی سوچ کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کے ساتھ ساتھ قومی سطح پر آگاہی مہم شروع کرنی چاہیے۔ ریاستی سطح پر اس چیز کا اہتمام کرکے آگا ہی مہم شروع کرنی چاہیے کہ بیٹا اور بیٹی دونوں اللہ کی نعمت اور رحمت ہیں اور صحت مند بیٹا اور صحت مند بیٹی کی پیدائش کی دعا اور دوا کرنی چاہیے۔

موضوع کی طوالت کا ہمیشہ احساس رہتا ہے- ان گذارشات کا اصل مقصد حسن معاشرت اور آنے والی نسلوں کے لیے ایک بہتر معاشرے کی تعمیر میں اپنا اپنا مقدور بھر حصہ ڈالنا ہے۔ شیخ سعدی علیہ الرحمۃ کی ایک بہترین حکایت ہے کہ، معاشرے میں رہنے کا بہترین اصول یہ ہے کہ اپنے ارد گرد موجود لوگوں کے دکھ درد کو محسوس کیا جائے اور اگر ممکن ہو سکے تو ان کی تکالیف کو دور کرنے کی کوشش کی جائے۔ روئے زمین کا سب سے بڑا فساد خودغرضی اور نفس پرستی ہے۔

انسانوں میں بیشمار لوگ ایسے ہیں جو دوسروں کے نفع و نقصان سے بے پرواہ ہوتے ہیں اوراپنی اپنی زندگیوں اور آسائشوں میں مگن ہوتے ہیں پھر وہ اپنی اس پر تعیش طرزِزندگی کی بدولت ہی اس قدر خودغرض ہو جاتے ہیں کہ اپنے معمولی سے فائدے کے لئے دوسروں کا بڑے سے بڑا نقصان بھی کرنے سے نہیں چوکتے۔ اگر ہم نے برے اور بیمار رویوں کی مذمت نہ کی اور حسن معاشرت کے اصول نہ اپناے تو پھر ہمیں مکافات عمل کے لئے ہر دم تیار رہنا چاہیے۔ عاصی کرنالی صاحب نے کہا ہے کہ

مکافات عمل خود راستہ تجویز کرتی ہے

خدا قوموں پہ اپنا فیصلہ جاری نہیں کرتا

Check Also

Hamari Qaumi Nafsiat Ka Jawab

By Muhammad Irfan Nadeem