Monday, 29 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Muhammad Sajjad Aheer/
  4. Ik Gohar e Murad Jis Ki Qadar Na Ki Gayi (2)

Ik Gohar e Murad Jis Ki Qadar Na Ki Gayi (2)

اک گوہر مراد جس کی قدر نہ کی گئی (2)

لیکن طالب علم اب یہ راز پا چکا ہے اور وہ مزید خلق خدا کی تقلید نہیں کرے گا اور اس گوہرِ مراد کو خائن، بد دیانت اور نفاق کا پتلہ نہیں لکھے گا۔ ایک اور مضبوط دلیل یہ ہے کہ ہمارے ملک کے معروف ترین دانشور حضرات جن میں، طوفان خان، گیلا تیتر، بابا 'گزارش یہ ہے' المعروف 'بابا کپی'، بابا بگا المعروف 'ناراض دانشور' اور آریا نسل کا آخری زندہ جنگجو قلم جہادی، یہ سب کے سب میرے کپتان کو نہ صرف پاکستان بلکہ عالم اسلام کا آخری ٹمٹماتا ہؤا چراغ مانتے ہیں۔

اور اسی وجہ سے اپنے اپنے تیل کے ذخائر سے اس چراغ کی لو کو جلائے ہوئے ہیں۔ دوستو اگر آپ کو پہلے سے علم نہیں تو میں عرض کر دوں کہ یہ وہ نابغے ہیں، جن کے بارے میں شاعر نے کہا ہے کہ

شہر کی بے چراغ گلیوں میں

یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی

صاحبانِ علم ایک طرف علم و دانش کے یہ بحر بیکراں ہیں اور دوسری طرف، وجاہت مسعود، وسعت اللہ خان، حامد میر، طلعت حسین، سلیم بخآری، مجیب الرحمٰن شامی، نصرت جاوید، مطیع اللہ جان، اور اس طرح کے لوگ ہیں کہ جن کو یہ خوبیوں سے مرقع و مرسع بلکہ تمام خوبیوں کا مربع، عالم اسلام کا واحد رہبر و رہنما ایک بہت بڑا علمی، فکری اور نظریاتی 'جگاڑیا' نظر آتا ہے۔ سادہ الفاظ میں کہیں تو 'فراڈیا' نظر آتا ہے۔

اب آپ خود ہی فیصلہ کریں ایک طرف کے اینڈ کمپنی جیسی بڑی اور صاحب الرائے شخصیات ہیں اور دوسری طرف یہ جمہوریت کا راگ الاپتے، عوام کے حق حکمرانی اور انسانی حقوق کی وکالت کرتے وجاہت مسعود اینڈ کمپنی، تو پھر میرے جیسے طالب علموں کے لیے تو فیصلہ بہت آسان ہو جاتا ہے۔ کہاں وہ دگج اور دھرندر صحافی اور دانشور اور کہاں یہ آمریت مخالف، جمہوریت کے حامی صحافی حضرات۔

معاف کیجئے گا ان صحافیوں (کے کے اینڈ کمپنی) کے قد کو ناپتا کوئی لفظ طالب علم کی معلومات میں نہیں تھا، لہٰذا یوٹیوب کے بانی ملک کی زبان سے 'دگج' اور 'دھرندر' کے الفاظ ادھار لینے پڑے۔ ویسے بھی ہماری طرف ادھار واپس کرنے کا رواج کم ہی ہے، لہٰذا اہل وطن آپ ان الفاظ کو اب اپنا ہی سمجھیں۔ طالب علم نے آ خرالذکر صحافیوں یعنی وجاہت مسعود اینڈ کمپنی کی چالبازیوں اور لچھے دار گفتگو سے قطعی غیر مرعوب رویہ اپناتے ہوئے۔

اپنی پرانی فکری روش کو ترک کرنے کا مصمم ارادہ کر لیا ہے اور طوفان خان، بابا بگا، بابا آریا اور بابا کپی کا ممنون احسان ہوں کہ وہ اپنی تبحر علمی سے بھٹکے ہوئے لوگوں کو سیدھا راستہ دکھانے میں لگے ہوئے ہیں۔ بلکہ 'نمبردار کے بیل' کی طرح جتے ہوئے ہیں۔ اس کایا پلٹ کی ایک اور بڑی وجہ یہ ہے کہ پاک پتن کی زرخیز اور مردم شناس سرزمین سے ایک انتہائی خوبصورت و خوب سیرت، پاکباز، مذہبی اور گھریلو خاتون۔

جو کہ بہت سارے لوگوں کی بشمول خان صاحب مرشدہ بھی تھیں اور حسن ظن یہی ہے کہ اب بھی ہیں، شادی شدہ اور پانچ بچوں کی امّاں بھی تھیں، انہوں نے اپنے سابقہ شوہر سے طلاق لے کر اس ستر سالہ گوہرِ مراد سے نکاح کر لیا۔ ویسے اس پر تو ایک باجماعت سبحان اللہُ بنتا ہے۔ یہ ایک ایسی روشن دلیل ہے کہ جس کے بعد ارض پاکستان کی اکثریت کو تو ویسے ہی کوئی دوسری دلیل نہیں چاہیئے۔

بلکہ مزید عقل کا گھوڑا دوڑانا شاید بے ادبی کے زمرے میں بھی آ جائے گا، لہٰذا طالب علم نے تو اس شارٹ کٹ راستے سے جنت کا ایک عدد ٹکٹ کنفرم کرتے ہوئے، اس ضمن میں مذید عقل کا گھوڑا نہ دوڑانے کا فیصلہ کیا ہے اور آخرت کے ساتھ اپنی دنیا بھی سنوار لی۔ اسے کہتے ہیں ایک تیر سے دو شکار۔ ایک ضمنی وضاحت یہ ہے کہ گھوڑا بھی اس ضمن میں مزید دوڑنے سے قاصر تھا، لہٰذا طالب علم خفت سے بھی بچ گیا۔

آپ صحیح سوچ رہے ہیں، اس تیر سے تین شکار ہوئے ہیں۔ امید ہے میرے تمام معزز قارئین بھی اتنے پرمغز اور مضبوط دلائل کے بعد قائل ہو گئے ہوں گے اور آج کے بعد اپنی دنیا و آخرت کو مزید سنوارنے اور جنت میں اپنی ایک عدد سیٹ بمعہ پارک فیسنگ کارنر ولا کنفرم کرنے کے لیے اس گوہرِ مراد کی مزید گستاخی نہیں کریں گے اور مقدور بھر ثواب دارین بھی حاصل کریں گے۔

باقی رہی بات صلاحیت نہ ہونے کی، گورننس صفر ہونے کی، ناکام خارجہ پالیسی کی، ناقابلِ برداشت مہنگائی کی، بدترین معاشی کارکردگی کی، ملک کی ترقی اور جمہوریت کی مضبوطی کے یکسر خلاف کام کرنے کی، کرپشن فری معاشرے کی تشکیل نہ کرنے کی، اقربا پروری اور اپنے لوگوں کو نوازنے کی، بد کلامی، بد اخلاقی اور بدکرداری کے فروغ کی، خواتین کے استحصال اور غیر اخلاقی اور غیر فطری معاشرے کی تشکیل کی تو یہ سب حاسدین کی پھیلائی ہوئی باتیں ہیں۔

اور ان میں اگر کوئی حقیقت ہے، بھی تو کیا صرف اکیلا خان ذمدار ہے، صرف اس دلیل پر کہ وہ کپتان تھا۔ اب کچھ حاسدین کہیں گے کہ ورلڈکپ میں سب سے بری شخصی کارکردگی کے باوجود اگر خان صاحب جیت کا سارا سہرا اپنے سر اس لئے باندھتے ہیں کہ وہ کپتان تھے تو یہاں بھی ساری ناکامیوں کے وہ اکیلے زمہ دار کیوں نہیں ٹھہرائے جا سکتے؟ تو اس کا سیدھا سا جواب یہ بنتا ہے کہ خان صاحب انتہائی ہینڈسم ہیں۔

اور سمارٹ ہیں اور ستر سال کی عمر میں بھی اسقدر فٹ ہیں کی بنی گالا کی پہاڑی پر پنڈلیوں کے ساتھ اضافی وزن بانھ کے عربی گھوڑے کی طرح دوڑ سکتے ہیں۔ جو کہ کوئی دوسرا جمہوریت پسند رہنما تو درکنار قبلہ بڑے حاجی صاحب بھی نہیں کر سکتے۔

Check Also

Sorry Larki Ki Umar Ziada Hai

By Amer Abbas