Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Nasir Saddeqi
  4. Russia Ukraine Kasheedgi (1)

Russia Ukraine Kasheedgi (1)

رشیا یوکرین کشیدگی (1)

گزشتہ سال کے آخر میں روس کی یوکرین کی جانب پیش قدمی اب اس حد تک پہنچ چکی ہے، دنیا ایک بڑی ہولناک جنگ کی تباہ کاریوں پہ بحث کر رہی ہے۔ روس نے یوکرین کی بارڈر پہ ڈیڑھ لاکھ کی تعداد میں فوج کھڑی کر دی ہے۔ جدید ٹیکنالوجی سے لیس اتنی بڑی فوج نے ایک دفعہ پھر خطے میں جنگ کے بادل بکھیر دیے ہیں۔ امریکی صدر بے بسی سے کہہ رہے ہیں کہ جنگ کسی وقت بھی شروع ہو سکتی ہے۔ امریکہ اور برطانیہ سمیت کئی ممالک اپنے شہریوں کو یوکرین چھوڑنے کا کہہ چکے ہیں۔ روس نے اپنی فورسز کو پیچھے ہٹانے کا اعلان کر کے مزید فورسز بڑھا دی ہیں اور لگاتار آگے ہی بڑھ رہا ہے۔

یوکرین پہ سائبر اٹیک شروع ہو چکے ہیں جو بڑی جنگ کا پیش خیمہ ہے۔ پوری دنیا کی نظریں صدر پیوٹن پہ لگی ہیں کہ وہ یوکرین پہ کس لیول کا اٹیک کریں گے؟ اگر واقعی جنگ چھڑی تو کیا روس یوکرین کے کچھ سٹریٹیجک علاقوں پہ قبضہ کرے گا یا اہم راستوں پہ قبضہ جما کر یوکرین کو یورپ سے کاٹے گا؟ یہ خدشہ بھی موجود ہے کہ روس پورے یوکرین پہ حملہ کر دے گا جس سے پچاس ہزار سے زائد انسانی جانیں جا سکتی ہیں جبکہ مہاجرین کی تعداد پانچ ملین تک بھی جا سکتی ہے، جس کے خطے پہ سخت سیاسی اور اقتصادی اثرات مرتب ہوں گے۔

سوال یہ ہے کہ آخر صدر پیوٹن کو اتنا بڑا قدم کیوں اٹھانا پڑا؟ ان کےلیے اس وقت ہی اتنا سخت قدم اٹھانا کیوں ضروری ہے؟ سب سے پہلے یوکرین اور روس کے درمیان اصل تنازعے کی وجہ سمجھ لیجیے۔ یوکرین اور روس کے قدیم ثقافتی اور سماجی تعلقات ہیں۔ یہاں تک کہ دونوں ممالک کی زبانیں بھی ایک ہی ہیں۔ 9 ویں صدی سے دونوں کے تعلقات قائم ہیں۔ 1654 میں روس اور یوکرین اکٹھے ہوئے تھے۔ یہ کبھی ایک ساتھ اور کبھی الگ رہے ہیں۔ تھوڑی جدید تاریخ کی طرف آئیں تو 1918 میں یوکرین کو روس سے آزادی ملی تھی لیکن پھر 1921 میں لینن کی فوج نے یوکرین پہ قبضہ کر لیا تھا۔

1922 میں USSR کا باقاعدہ اعلان کر دیا گیا تھا جس میں یوکرین کے علاؤہ دیگر چودہ ریاستیں بھی شامل تھیں۔ یوکرین میں ایک طبقہ ہمیشہ سے موجود رہا ہے جو یوکرین کو ایک خودمختار ریاست کے طور پہ دیکھنا چاہتا ہے۔ روس نے اپنی طاقت میں بدمست ہو کر دسمبر 1979 میں افغانستان پر حملہ کر دیا تھا جو افغانستان کی تباہی کا باعث تو بنا لیکن فروری 1989 میں روس کی شکست پہ منتج ہوا۔ اتنی بھی جنگ، روس سہہ نہ پایا اور معاشی طور پہ انتہائی کمزور ہو گیا۔ بالآخر روس کے 12 ٹکڑے ہو گئے جس میں یوکرین بھی شامل تھا جو آزاد ریاست بنا۔

اس کے بعد روس پہ اس وقت افراد پڑی جب 1997 میں اس کے اردگرد ریاستوں نے نیٹو کو جوائن کرنا شروع کر دیا۔ 1999 میں وارسا پیکٹ میں شامل روس کے اردگرد ریاستوں ہنگری، سیزچ اور پولینڈ بھی باقاعدہ طور پہ نیٹو کی ممبر بن گئیں۔ اس کے بعد سات دیگر ریاستوں نے بھی نیٹو کو جوائن کر لیا جس پہ روس مخالفت کے سوا کچھ نہ کر سکا۔ مشرقی یورپ میں نیٹو نے اپنا قبضہ جمایا ہوا ہے۔ روس کے اردگرد کی ریاستوں پہ نیٹو آن بیٹھا ہے اور روس ان ریاستوں میں گھرا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ ایسٹونیا، لٹویا، لتھونیا جیسی ریاستیں بیلاروس کی جانب سے جب کہ رومانیہ اور بلگاریہ جیسی ریاستیں کرائیمیا کی طرف سے روس کے دروازے پہ ہیں۔

یوکرین کے ساتھ براہ راست پولینڈ، سلوویکیا، ہنگری اور رومانیہ موجود ہیں جو سب نیٹو ممبر ہیں۔ اب اگر یوکرین بھی نیٹو کے ہاتھ چلا گیا تو روس کےلئے ایک بڑا دھچکہ ہو گا کیونکہ اس کی روس کے ساتھ 2295 کلومیٹر لمبی سرحد ہے۔ ادھر روس میں صدر پیوٹن سمیت ایک بڑا طبقہ یوکرین کو اپنا حصہ سمجھتا ہے۔ روس اپنی سلامتی کے پیشِ نظر ایک کاؤنٹر پلان کر رہا ہے جس کا اظہار وہ 2014 میں کر چکا ہے جب اس نے روسی نواز یوکرینی صدر کو ہٹانے پہ اور یوکرین کو نیٹو کے ہاتھوں جاتا دیکھ کر یورپ میں گھس کر کرائمیا پہ حملہ کر دیا تھا اور پوری دنیا نے دیکھا کہ یوکرین کے اس حصے پہ اپنی فوجیں اتار دیں تھیں۔

یہاں تک کہ روس نے 27000 مربع کلومیٹر رقبے اور 2، 4 ملین آبادی کے حامل کرائمیا پہ قبضہ جما لیا تھا جو تاحال قائم ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ 1997 کے بعد سے روس کی سلامتی کو خطرہ لاحق تھا مگر صدر پیوٹن نے حملے کےلیے یہی وقت کیوں چنا؟ اس وقت حملے کے کیا مقاصد ہیں ؟ حملے کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ کیا روس بغیر کسی معاہدے اور گارنٹی کے پیچھے ہٹ سکے گا؟ صدر پیوٹن کے پاس آپشن کیا ہیں ؟ امریکہ اور یورپ جنگ کی صورت میں کیا کردار ادا کریں گے؟

ان سب سوالوں پہ ان شاءاللہ اگلے کالم میں بحث کریں گے۔

Check Also

Aik Ustad Ki Mushkilat

By Khateeb Ahmad