Qarzon Mein Ghira Pakistan
قرضوں میں گھرا پاکستان
عمران خان صاحب نے اپوزیشن میں رہتے ہوئے جس طرح کی سیاست کی وہی اب ان کے گلے پڑ رہی ہے۔ یہ سچ ہے کہ انھوں نے قوم کو شعور دیا۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی معیشت کش پالیسیوں کو ہدف تنقید بنایا اور قوم کو بڑھتے قرضوں کے سنگین نتائج سے آگاہ کیا تاہم انھوں نے ہمیشہ ٹوٹل قرضوں کی بات کی حالانکہ انھیں ڈالر کی مصنوعی روک تھام کی پالیسی، بڑھتے خساروں اور قرضوں کے توازن کو ٹارگٹ کرنا چاہیے تھا۔ انھوں نے صرف قرضوں کی ٹوٹل مقدار کو سامنے رکھا اور قوم کو بتایا گیا کہ ہمیں بھکاری بنا دیا گیا ہے اور دنیا ان قرضوں کی وجہ سے ہماری عزت نہیں کرتی۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے قرض لینے کے بجائے خودکشی کر لینے کو بہتر قرار دیا اور یہی نعرے مستانے گونجتے رہے۔
ابھی اپوزیشن تحریک انصاف کے اسی بیانئے سے فائدہ اٹھاتے ہوتے ہوئے پروپیگنڈا کر رہی ہے کہ حکومت نے پاکستان کو پچاس ہزار ارب کا مقروض کر دیا ہے۔ اپوزیشن مختلف فگرز میں الجھا کر حکومت کو ٹف ٹائم دے رہی ہے۔ آئیے اصلی صورت حال کو سمجھتے ہیں۔
جب تحریک انصاف حکومت میں آئی تو بیس ارب ڈالر کے قریب کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اور تقریباً 37 ارب ڈالر تجارتی خسارے کا سامنا تھا۔ فارن ریزرو صرف نو بلین ڈالر تھے۔ بیرونی قرض 96 بلین ڈالر تھا جس پہ لگاتار سود بھی ادا کرنا ہوتا ہے۔ شاید یہ سب پری پلان ہوا تھا تاکہ ایک نوزائیدہ حکومت کو اس قدر مشکل صورت حال میں پھنسا دیا جائے کہ ملک معاشی گرداب میں پھنس جائے اور حکومت مکمل طور پہ فیل ہو جائے۔ حکومت کو فوری طور پہ اس صورتحال سے نکلنے کےلیے قرض لینا چاہیے تھا لیکن اس نے دیر کی۔
یہ وہ سنگین غلطی ہے جس کا اعتراف خود وزیراعظم کئی انٹرویوز میں کر چکے ہیں۔ معیشت کےلیے قرض سہارا جبکہ خسارہ زہر کے مترادف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرض کو ترجیح دی گئی اور اربوں ڈالر کے خسارے ختم یا انتہائی کم کیے گئے۔ جو قرضہ لیا گیا اس میں 78 فیصد پہلے سے لیے گئے قرضوں کی واپسی کی اقساط پہ خرچ ہوا۔ باقی 22 فیصد خساروں میں کمی اور فارن ریزرو کےلیے استعمال ہوا۔ یعنی ان قرضوں کو اس حکومت کے کھاتے میں ڈالنا صریح ناانصافی ہے۔
پی ٹی آئی کے تین سال اور تین ماہ میں بیرونی قرض اور لائبلٹیز 96 بلین ڈالر سے بڑھ کر 127 بلین ڈالر ہو چکی ہیں۔ اس میں گورنمنٹ ایکسٹرنل ڈیٹ 80.95 بلین ڈالر، آئی ایم ایف کا قرض 7.07 بلین ڈالر اور فارن ایکسچینج لائبلٹیز 11.64 بلین ڈالر بنتی ہیں یعنی ٹوٹل پبلک ڈیٹ 99.6 بلین ڈالر بنتا ہے۔ اس کے علاوہ باقی قرض کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ پبلک سیکٹر انٹرپرائز کا 6.68 بلین ڈالر، بیرونی بینکس کا 5.37 بلین ڈالر اور پرائیوٹ سیکٹر 11.09 بلین ڈالر ہے۔ باقی تین فیصد دیگر ذرائع سے ہے جو چار بلین ڈالر بنتا ہے۔ یوں ٹوٹل قرض 127 بلین ڈالر ہے۔ روپوں میں یہ قرض24.9 ٹریلین روپے سے بڑھ کر پچاس ٹریلین یعنی پچاس ہزار ارب روپے ہوا ہے۔
اسی لیے اپوزیشن حکومت پہ الزام لگا رہی ہے کہ حکومت نے ملک کو پچاس ہزار ارب کا مقروض کر دیا ہے۔ کیا ن لیگ یا پیپلز پارٹی بتانا پسند کرے گی کہ پاکستان پہ ساٹھ سالوں میں چھے ٹریلین روپے کا قرض تھا وہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے صرف دس سالوں میں کیسے چھے ٹریلین سے تقریباً 25 ٹریلین ہو گیا۔ اس قرض پہ سود اور اصل رقم کی مد میں ہر مہینے چالیس ارب کی قسط نئی حکومت قرض لیے بغیر کیسے ادا کر سکتی ہے؟ دراصل قرض لینا مسئلہ نہیں ہوتا بلکہ بغیر پلاننگ کے اتنی بڑی مقدار میں قرض لے لینا اور اس کو کرپشن اور نان پرافٹ منصوبوں میں خرچ کرنا مسئلہ ہوتا ہے جس کا نقصان آنے والی نسلوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔
پی ٹی آئی حکومت نے تین سال تین ماہ میں 41.24 بلین ڈالر بطور اصل قرض اور سود واپس کیے ہیں۔ ن لیگ اپنے پانچ سالہ دور حکومت میں 33.363 بلین ڈالر ہی ادا کر پائی تھی۔ پیپلزپارٹی کی حکومت بھی اپنے پانچ سالہ دور میں 24.306 بلین ڈالر واپس کر پائی تھی۔ یعنی پی ٹی آئی نے تین سالوں میں پیپلز پارٹی سے تقریباً ڈبل اور ن لیگ سے تقریباً آٹھ بلین ڈالر زیادہ قرض واپس کیا ہے۔ یہ سب کرونا جیسی وبا اور فارن ریزرو میں ساڑھے نو بلین ڈالر سے زائد اضافے کے باوجود ہے۔ سٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی لیے گیے قرضوں میں سے 78 فیصد پہلے سے لیے گئے قرضوں اور سود کی ادائیگی پہ ہی لگا رہی ہے۔ حکومت نے صرف جولائی سے ستمبر تک گورنمنٹ ڈیبٹ کا 819 ملین ڈالر اور اس پہ 282 ملین ڈالر کا سود جبکہ آئی ایم ایف کا 223 ملین ڈالر اصل اور 36 ملین ڈالر بطور سود واپس کیا ہے۔
پی ٹی آئی نے اپنی حکومت کےلیے کوئی قرض نہیں لیا بلکہ لیے گئے سو فیصد قرض میں سے 78 فیصد پہلے لیے گئے قرض کی واپسی اور باقی پہلی حکومتوں کی جانب سے چھوڑے گئے مالی سال اور کرنٹ اکاؤنٹ خساروں میں کمی کےلیے اور فارن ریزرو کے پیش نظر استعمال ہوا ہے۔ اس دوران تاریخ کی سب سے بڑی وبا جھیل کر تاریخ میں سب سے زیادہ قرض واپسی کا ریکارڈ بناتے ہوئے، اربوں ڈالر کے خسارے ختم کرتے ہوئے، ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں بھی خاطر اضافہ کر لینا حکومت کی مثبت پالیسیز کا عکاس ہے۔ موجودہ مالی سال میں جولائی سے ستمبر تک جی ڈی پی 315.68 بلین ڈالر ہو گئی ہے جو اسی دوران پچھلے مالی سال میں 287.7 بلین ڈالر تھی یعنی اس عرصے میں 10 فیصد کا شاندار اضافہ ہوا ہے۔
پچاس ٹریلین قرض بڑھا دینے کے نعرے سیاسی ہیں۔ دراصل یہی سب سے بڑا لطیفہ ہے کیونکہ بیرونی قرض ڈالر میں دیکھا جاتا یے۔ اس کا مقامی کرنسی سے موازنہ ہی نہیں ہو سکتا۔ لیگی دور میں ڈالر کی قیمت سو روپے کے لگ بھگ تھی جو اب 178 کے قریب ہے لہذا اس پوائنٹ کا فایدہ اٹھا کر گمراہ کیا جا رہا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ پوری دنیا میں ٹوٹل قرض کی بجائے ڈیٹ ٹو جی ڈی پی ریشو دیکھا جاتا ہے ورنہ امریکہ، برطانیہ، جرمنی اور جاپان جیسی بڑی معیشتیں تو پاکستان سے کئی زیادہ مقروض ہیں۔ قرض کا بڑھنا اس وقت تک کوئی مسئلہ نہیں ہوتا جب تک جی ڈی پی اور فی کس آمدنی متوازن ہو۔ ہمارا موجودہ بیرونی قرضہ جی ڈی پی کا 93.7 فیصد ہے جو جی ڈی پی کے بڑھنے کی وجہ سے 107 فیصد سے کم ہو کر یہاں تک پہنچا ہے۔
اب دو طاقتور ممالک کی مثال لیتے ہیں جن کی ڈی پی اور پر کیپٹا انکم مثالی ہے۔ جاپان کی بیرونی قرضہ جی ڈی پی کا تقریباً 200 فیصد بنتا ہے جبکہ سنگاپور کا بیرونی قرضہ جی ڈی پی کا 400 فیصد بنتا ہے۔ لہذا اس قرض پہ پریشان ہونے کی بجائے لانگ ٹرم پلاننگ پہ فوکس کیا جائے اور فی کس آمدنی اور جی ڈی پی کو مزید بڑھانے پہ توجہ دی جائے۔ ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں مزید اضافہ کیا جائے۔ توازن ادائیگی اور فارن ریزرو کی مدد سے معاشی استحکام حاصل کرنا بنیادی ٹارگٹ ہونا چاہیے۔