Gandhi College Se Nara e Takbeer Ki Sada
گاندھی کالج سے نعرہ تکبیر کی صدا
ہندوستانی ریاست کرناٹک میں ایک ایسا منظر دیکھا گیا جس نے پوری دنیا میں ظلم و جبر کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو ایک توانائی بخش دی۔ جس کی آواز، مذہبی جنونیوں کے جتھوں کے خلاف مزاحمت کی آوازوں کےلیے کیٹالسٹ کا کام کر گئی۔ گاندھی کالج او ڈی پی کی نہتی مگر بہادر طالبہ کی مزاحمتی ویڈیو وائرل ہو چکی ہے۔ مسکان خان بنت ِمحمد حسین خاں نامی، یہ بہادر بچی نہ صرف ہندوستانی بلکہ دنیا بھر کی عورتوں کےلیے ایک مثال بن چکی ہے۔
بھارت کی شدت پسند تنظیم آر ایس ایس، کے سٹوڈنٹس کے ذہنوں میں مسلمانوں کے خلاف بالکل اسی طرح کی نفرت پائی جاتی ہے جس طرح کی نفرت پاکستان میں احمدی کمیونٹی کے خلاف پائی جاتی ہے۔ اس لیے وہ نقاب پہننے والی لڑکیوں کو ہراساں کرتے ہیں۔ لیکن یہ کوئی عام بچی نہیں تھی۔ وہ پورے اعتماد کے ساتھ اپنے موٹر سائیکل پہ آئی، بائیک کھڑی کی اور رعب دار انداز میں چلنے لگی۔ برقع دیکھ کر وہاں موجود آر ایس ایس کے غنڈوں نے اسے گھیر لیا اور جے شری رام کے نعرے لگانے شروع کر دیے۔
مردوں کی ان آوازوں کے سامنے ایک کامن لڑکی منہ چھپا کر بھاگنے کو ترجیح دیتی لیکن اس نے اپنی شخصی آزادی کےلئے لڑنے کا فیصلہ کیا اور ان کے نعروں کے جواب میں پورے اعتماد سے نعرہ تکبیر بلند کرتی رہی۔ اس نے ہندوستان کے کروڑوں بچیوں کو سبق سکھایا کہ عورت کی آواز اس قدر کمزور نہیں کہ اسے دبایا جا سکتا ہے۔ عورت، مردوں کے ہجوم میں لڑ سکتی ہے۔ اس نے پوری دنیا کی عورتوں کو نڈر اور بے خوفی کے معانی سمجھا دیے۔ اس نے دنیا بھر کے آزادی پسندوں، امن پسندوں اور انسانیت پسندوں کو مذہبی جنونی جتھوں کے سامنے مزاحمت سکھا دی۔
اس نے شخصی آزادی کےلیے لڑنا سکھا دیا۔ اس نے اپنے حقوق کےلئے سٹینڈ لینے کی اہمیت سمجھا دی۔ اس نے سب کو سکھا دیا کہ اگر آپکی شرطوں پہ جینا ہے تو پھر اس کا حوصلہ اور مزاحمت بھی ضروری ہے۔ ہمیں یہ فخر حاصل ہے کہ ہم نے ہمیشہ بلا تعصب رنگ و نسل، جغرافیائی سرحد و مذہب، ہر جنونی جتھے کے خلاف آواز اٹھائی۔ مذہب کے نام پہ خلق ِخدا کی زندگی اجیرن کرنے والے چاہے کسی بھی نام کا نعرہ لگائیں، کسی بھی رنگ کا جھنڈا اٹھائیں، کوئی بھی توجیہ پیش کریں۔ ہر قابل ِنفرت بیانیہ، ناقابلِ قبول رہے گا۔
ہم نے پاکستان میں تحریک لبیک کے شدت پسندوں کے خلاف بھی اسی قوت سے آواز اٹھائی جو بھارتی آر ایس ایس کے غنڈوں کے خلاف اٹھاتے ہیں۔ ہم نے اسرائیلی صہیونیت کے خلاف بھی آواز بلند کی اور طالبان کے ظالمانی جبر کے خلاف بھی کھڑے رہے۔ ہم نے زبردستی برقعے پہنانے والوں کے خلاف بھی کلمہ حق بلند کیا اور نقاب اتروانے والوں کے خلاف بھی قلم اٹھایا۔ ہم نے جینر پہننے والیوں کو بھی احترام دیا اور برقع پہننے والیوں کو بھی عزت دی۔ ہم نے لباس، رنگ، نسل، مذہب یا کسی بھی بنیاد پہ فتنہ و فساد پھیلانے والوں کو رد کیا۔
بھارتی ریاست سے نعرہ تکبیر کے ساتھ اٹھنے والی یہ مزاحمتی صدا، ظلم و جبر پہ آمادہ ہر جتھے کے خلاف ہماری آواز کا تسلسل ہی ہے۔ ان مذہبی جنونیوں کے خلاف اٹھنے والی شخصی آزادی کی ہر امن پسند آواز ہماری ہے اور ہم اس کا ساتھ دیں گے۔ ہم امن، محبت اور پیار کے داعی ہیں۔ ہم انفرادی آزادی کے قائل ہیں۔ ہماری نفرت کی بنیاد کسی کا لباس، مذہب، قومیت، رنگ یا نسل نہیں بلکہ انسانیت کے خلاف، آزادی کے خلاف اٹھنے والا ہر نظریہ ہے۔ ہم امن و محبت کے پرچارک ہیں۔ ہم جیو اور جینے دو، کے قائل ہیں۔ بھیا ہم تو لبرل ہیں۔
دوسری جانب ملکِ عزیز میں وہ طبقہ جو آج اس لڑکی کو اسلام کی شہزادی کہہ کر خراجِ تحسین پیش کر رہا ہے، کیا وہ بھی ایک ہی معیار قائم رکھ سکتا ہے؟ کیا وہ اپنے ہم مذہبی جتھوں کی ڈکٹیشن کو بھی اسی طرح رد کر سکتے ہیں یا ایسے جتھوں کے سامنے اٹھنی والی آواز کو اسی طرح خراج تحسین پیش کریں گے؟ اگر آج یہ پتہ چل جائے کہ یہ لڑکی احمدی ہے تو کیا تب بھی ان کےلیے وہ آئیڈیل رہے گی؟
کیا تحریک لبیک، جیش محمد، طالبان، داعش وغیرہ کے خلاف اٹھنے والی آوازیں بھی اسی طرح قابل احترام رہیں گیں یا یہ پیکج صرف مخالف مذہب کے جنونیوں کے خلاف مزاحمت کاروں کےلئے ہی مختص ہے؟ جس طرح یہ بچی اکیلی گھر سے نکلی اور خود بائیک ڈرائیو کر کے کالج پہنچی، کیا اس طرح گھر سے اکیلی باہر نکلنے والی لڑکیاں بھی اسلام کی شہزادیاں ہی رہیں گی یا ایک خاص کیس تھا؟