Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Nasir Saddeqi
  4. Captain Mind Game Ka Master Hai

Captain Mind Game Ka Master Hai

کپتان مائنڈ گیم کا ماسٹر ہے

اس وقت عوام سے دھتکارے ہوئے تمام لوگ اس شخص کے خلاف عدم اعتماد کےلیے اکٹھے ہوئے ہیں، جسے پوری قوم کا اعتماد حاصل ہے۔ جن پہ اپنے حلقے والے بھی اعتماد نہیں کرتے انھوں نے منتخب وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کا پتہ پھینکا، جس کے جواب میں حسب توقع عمران خان نے انھیں چھٹی کا دودھ یاد دلا دیا۔ اپوزیشن اسے نمبر گیم سمجھ رہی تھی اور وہ نمبر بنانے میں لگی رہی لیکن عمران خان نے اعلان کیا کہ یہ نمبر گیم نہیں بلکہ مائینڈ گیم ہے جس کا ماسٹر میں خود ہوں۔

اس وقت کچھ لوگوں کو یہ سیاسی بڑھک لگی، لیکن بہت جلد احساس ہو گیا کہ اپوزیشن عمران خان کے پھینکے گئے جال میں ٹریپ ہو چکی ہے، جہاں سے بھاگنے کا کوئی راستہ نہیں بچا۔ عمران خان نے پاکستانی سیاست کے ڈائمنشن بدل دیے ہیں۔ وہ روایتی سیاستدان نہیں ہیں بلکہ انھوں نے ایک ایسی سیاست متعارف کروائی ہے، جس نے چالیس سال سے اقتدار سے چمٹے لوگوں کو نکال باہر کیا۔ ہر زمانے کے اپنے تقاضے پورے ہیں لیکن ہمارے سیاستدان آج بھی 80، نوے کی دہائی والی سیاست کر رہے ہیں، جو اکیسویں صدی کے تیسرے عشرے میں متروک ہو چکی ہے۔

انھیں عوام کی سائیکی کی سمجھ ہی نہیں ہے۔ یہ خود کو تجربہ کار سمجھتے ہیں لیکن یہ لوگ نہ تو نوجوان نسل کی نفسیات سے واقف ہیں اور نہ ہی موجودہ دور کے تقاضوں کو سمجھتے ہیں۔ ان کی سیاست کا وقت ختم ہو چکا ہے۔ ان لوگوں کو ابھی تک سمجھ نہیں آئی کہ عمران خان کس طرح سیاسی اُفق پہ اُبھرا ہے۔ انھیں لگتا ہے کہ کوئی بڑا کرکٹر یا ایکٹر بڑا سیاستدان بن سکتا ہے، حالانکہ یہ انتہائی غیر منطقی سی بات ہے۔

عمران خان کی سیاست کرکٹ کی مرہون منت نہیں ہے۔ یہ الگ بات کہ انھوں نے کرکٹ کے تجربے اور ایک کھلاڑی اور کرشماتی کپتان کی شخصیتی مہارت کو سیاست میں استعمال کیا لیکن انھوں نے ایک نئی سیاست متعارف کروائی، جس کا تعلق الیکٹبلز سے نہیں بلکہ براہ راست عوام کے ساتھ ہے۔ عمران خان کی جڑیں عوام میں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کو گرانا ناممکن ہے۔

عمران خان نے نوے کی دہائی میں کہا تھا کہ ابھی میرے ووٹر کا شناختی کارڈ نہیں بنا۔ انھوں نے ایک لمبی جدوجہد کی اور نوجوان نسل کو ٹارگٹ بنایا۔ شارٹ کٹ کے بجائے ایک لمبی اور پائیدار جدوجہد کی بدولت وہ آج پاکستان کی تاریخ کے سب سے مضبوط لیڈر ہیں۔ آج پاکستان کے تقریباً ہر گھر میں ان کا سپورٹر موجود ہے۔ انھیں جس وقت مسئلہ ہو وہ عوام کا رُخ کرتے ہیں اور عوام تمام شکوے بھول کر پوری قوت سے ان کے پیچھے آن کھڑی ہوتی ہے۔ ان کا بلند حوصلہ اور شفاف سیاست انھیں عوام میں ہمیشہ مقبول بنائے رکھتی ہے۔

عمران خان صرف نوجوانوں کے ہی نہیں بلکہ ہر نسل اور عمر کے لوگوں کے فیورٹ ہیں۔ لگاتار تین نسلیں ان کی مداح ہیں۔ انھوں نے ملک کو ایک مثبت تشخص دیا اور پہلی دفعہ عالمی سطح پہ پاکستان کا مقدمہ جاندار طریقے سے لڑا۔ اسلاموفوبیا کے خلاف جدوجہد کی وجہ سے وہ دنیا کے بھی ایک مقبول لیڈر ہیں۔ ان کی فین فالونگ کا دائرہ کار کسی ایک ملک تک محدود نہیں ہے۔ وہ ایک بہترین سپیکر، ایک بہترین وکیل اور بہترین فیصلہ ساز ہیں۔

کرونا جیسی وبا کے سخت دنوں میں مقبول کی بجائے معقول فیصلہ لے کر انھوں نے پوری دنیا کے سربراہان کےلیے مثال قائم کی۔ ان کی بلین ٹری پروجیکٹ کی مثال اقوام متحدہ میں برطانیہ کے وزیراعظم دیتے ہیں اور دنیا کے لیڈران کو اسے فالو کریں۔ وہ ایک ویژنری اور دور اندیش لیڈر ہیں اور لانگ ٹرم پلاننگ کے ماہر ہیں۔

انھوں نے وقتی سیاسی مفاد کی بجائے دس بڑے ڈیمز پہ کام شروع کروایا، جو کسی پاکستانی لیڈر نے نہیں کیا (ایوب دور میں عالمی بینک کے تعاون سے منگلہ اور تربیلا بنے)، انھوں نے بلین ٹری پروجیکٹ، کنسٹرکشن انڈسٹری، اسپیشل اکنامک زونز، انرجی زونز، ووکیشنل انسٹی ٹیوشن، میڈ ان پاکستان پالیسی اور نالج اکانومی جیسے وژنری اقدامات اُٹھائے۔ ان کے اقدامات اور ویژن کو دیکھ کر ہر پاکستانی صدق دل سے سمجھتا ہے کہ عمران خان ہی وہ واحد سیاستدان ہیں جو پاکستان سے مخلص ہیں۔

عمران خان نے ذاتی اکاؤنٹس بھرنے کی بجائے قومی بچت، ویژنری پالیسیوں اور پاکستان کےلیے عالمی سطح پہ مثبت تشخص کےلیے سٹینڈ لے کر قوم میں اعتماد کی فضا پیدا کی ہے۔ آج ہر کوئی کسی بھی دوسرے سیاستدان سے زیادہ ان پہ اعتماد کرتا ہے۔ پاکستان میں عمران خان کو غدار یا کرپٹ کہنا ایک لطیفہ سمجھا جاتا ہے۔ انھوں نے کریش ہوتی معیشت کو بچا کر اسے استحکام بخشا ہے۔ انھوں نے دنیا بھر میں ذلت کا باعث بن جانے والے سبز پاسپورٹ کو عزت بخشی ہے۔ انھوں نے ڈو مور کے مقابلے میں ایبسولیوٹی ناٹ کا نعرہ بلند کر کے قوم کو خودداری سکھائی ہے۔ انھوں نے عالمی فورمز پہ ناموس رسالت اور اسلاموفوبیا کا مقدمہ لڑ کر پوری دنیا کے مسلمانوں کے دل میں عموماً اور پاکستانی قوم میں خصوصاً بلند مقام حاصل کر لیا ہے۔

قوم جانتی ہے کہ اس وقت دستیاب سیاستدانوں میں سے صرف ایک ہی شخص ہے جو ان کی نسلوں کی جنگ لڑ رہا ہے، جو عالمی سطح پہ پاکستان کا مقدمہ جاندار طریقے سے لڑ سکتا ہے، جو عالمی راہنماؤں میں شمار ہوتا ہے، جو دانشور ہے، جو ویژنری ہے، جو دور اندیش ہے، جو انٹیلیکچوئل ہے، جو بلا کا حوصلہ مند اور مضبوط اعصاب کا مالک ہے۔ قوم جانتی ہے کہ اس وقت حقیقی معنوں میں لیڈر صرف عمران خان ہے۔ پاکستان کو ہر مشکل سے نکال سکنے کی صلاحیت رکھنے والا صرف عمران خان ہے۔

عمران خان نے روایتی سیاست کرنے کی بجائے اسی عوام میں جانا مناسب سمجھا اور پھر یہاں سے مائنڈ گیم شروع ہوئی۔ اپوزیشن کی گنتی گیم کے مقابلے میں یہ ذہنی گیم خطرناک باؤنسر تھا۔ عمران خان عوام میں پہنچے تو ہر جگہ لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد ان کے استقبال کےلیے نکلی آئی۔ لوگ جلسوں میں پورے جوش و خروش سے انھیں رسپانڈ کر رہے تھے۔ اس سیچویشن کے بعد سب کو معلوم ہو گیا کہ آج بھی ملک کا مقبول ترین لیڈر صرف عمران خان ہے۔ یہ دیکھ کر وہ تمام لوگ عمران خان کو چھوڑنے کا سوچ چکے تھے، تیزی سے واپس پلٹے کیونکہ کل سب نے اسی عوام میں جا کر ان سے اعتماد کا ووٹ لینا ہے۔

عمران خان کے اس موو سے اتحادی بھی گھبرا گئے۔ انھوں نے اپوزیشن کو اپنے پسندیدہ ماحول میں لا کر انھیں دھول چٹا دی۔ 27 مارچ کو ڈی چوک میں پاکستانی تاریخ کا سب سے بڑے جلسہ کا اعلان کر کے انھوں نے سب کے اعصاب کو شل کر دیا ہے۔ انھوں نے 2018 سے پہلے والی مقبولیت سے بھی دوگنی مقبولیت ابھی سے ثابت کر دی ہے۔ وہ اس نئی عوامی سیاست کے بانی ہیں۔ ان کے سامنے سب سیاستدان بونے ہیں۔ انھوں نے 2028 تک اپنا اقتدار پکا کر لیا ہے۔

Check Also

Ghair Yahudion Ko Jakarne Wale Israeli Qawaneen (2)

By Wusat Ullah Khan