Azad Kharja Policy (1)
آزاد خارجہ پالیسی (1)
پاکستان اس وقت تاریخ کے ایک اہم موڑ پہ آن کھڑا ہوا ہے۔ پاکستانی قیادت نے تیزی سے بدلتی دنیا کی ڈائمنیشن میں ایک ایسا فیصلہ لے لیا ہے جس کے نتائج طویل المدتی ہیں۔ اس فیصلے کے ملکی سیاست، ملکی معیشت، ملکی سلامتی، علاقائی سیاست اور خطے کی مجموعی صورتحال پہ دو رس اثرات مرتب ہوں گے۔ وزیراعظم پاکستان کا خطاب پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں کمی کی نظر ہو گیا۔ میڈیا میں پچھلے دو دنوں سے انھی پوائنٹس پہ ڈسکشن ہو رہی ہے۔ خطاب میں وہ اہم پوائنٹ ہی نظرانداز کر دیا گیا جس سے وزیر اعظم نے آغاز کیا تھا۔ اور وہ اعلان تھا آزاد خارجہ پالیسی کا۔
ایک ایسی خارجہ پالیسی جس کو بنانے کا اختیار پاکستانی قوم کو ہو اور وہ کسی کی غلامی کرنے کی بجائے اپنے مفادات کے تحت فیصلے کر سکے۔ وزیراعظم پاکستان نے قوم کو دو بڑی اہم باتیں سمجھائیں۔ خطاب کے شروع میں وزیراعظم پاکستان نے قوم کو بتایا کہ وہ ہمیشہ سے ہی ایک آزاد خارجہ پالیسی کی تمنا کرتے رہے تھے۔ ان کے والدین ایک غلام ملک میں پیدا ہوئے تھے لہٰذا انہوں نے انہیں آزادی کی قیمت سکھا دی تھی۔ لیکن سات دہائیوں بعد بھی ملک آزاد نہیں ہو پایا تھا۔ انھوں نے ملک کی آزادی کا نعرہ بلند کیا اور قوم کو خارجہ پالیسی کی نئی سمت سے آگاہ کیا جو بالکل آزاد اور خودمختار ہو گی۔
ان کے یہ جملے بھی قابل فہم ہیں کہ ہر وقت امریکہ کی ڈکٹیشن لینے والی خارجہ پالیسی غلط تھی اور آج ہم نے اس سے چھٹکارا پا لیا ہے۔ انھوں نے امریکی غلامی کو قبول کرنے سے انکار کر کے ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ سوال مگر یہ بھی ہے کہ کیا آزاد خارجہ پالیسی سے مراد امریکہ سے تعلقات پہ نظر ثانی ہے یا پھر اب معاشی ماڈل ہی بدلنے والا ہے؟ پاکستان اب یورپ کی بجائے ایشیا کو ترجیح دے گا تو اس کے کیا نتائج ہوں گے اور وہ کس حد تک اس پہ عملدرآمد کر سکتے ہیں؟ اس فیصلے کے بعد ہمارے امریکہ و یورپ سے تعلقات کی نوعیت کیا ہو گی اور ان سے باہمی تجارت کے ہجم اور دیگر خارجہ معاملات پہ کتنا فرق پڑے گا؟
اس سوال کا جواب بھی ان کے خطاب کے اندر موجود تھا۔ انھوں نے قوم کو اس آفاقی سچائی سے آگاہ کیا کہ خارجہ پالیسی معیشت سے جڑی ہوتی ہے۔ کوئی بھی ملک معاشی طور پر مضبوط اور خودمختار ہونے کے بعد ہی اپنی آزاد خارجہ پالیسی تشکیل دے سکتا ہے۔ قوم کو دوسری اہم بات یہ سمجھائی گئی کہ جن لوگوں کے اثاثے یورپ میں ہوں وہ کبھی بھی ملکی مفادات کا تحفظ نہیں کر سکتے۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے یہ باریک نقطہ بھی بیان کیا کہ آمر اپنی حکومت کو تسلیم کروانے کے چکر میں ان طاقتوں کے سامنے جھک جاتے ہیں لہٰذا ایک ایسی شفاف اور جمہوری حکومت جس کے سربراہ کے اثاثے باہر نہ ہوں، وہی آزادانہ فیصلے لے سکتا ہے۔
قارئین غور کریں تو انھوں نے قوم کے سامنے تمام صورتحال بیان کر دی ہے۔ آج روس کے اندر موجود بزنس مینوں اور طاقتور شخصیات کو یورپ سے دھمکیاں مل رہی ہیں کہ اگر انہوں نے اپنی قیادت پہ پریشر نہ بنایا تو ان کے اکاؤنٹس فریز کر دیے جائیں گے۔ اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ جن کے اپنے ذاتی مفادات دوسرے ممالک سے جڑے ہیں اور جن کے اثاثے دوسرے ملکوں میں ہوں، وہ آزادانہ فیصلہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ ڈکٹیٹر کے متعلق ان کا نقطہ بھی قابل فہم ہے کیونکہ ایک آمر کا سب سے بڑا نقصان ہی یہی ہوتا ہے کہ اسے اپنی حکومت کو ان طاقتوں سے تسلیم کروانا ہوتا ہے لہٰذا وہ ملکی مفادات پہ کمپرومائز کر جاتے ہیں۔
وزیر اعظم نے آزاد خارجہ پالیسی کو ملکی معیشت کے ساتھ نتھی کرنے کی بات کر کے یہ اشارہ بھی دے دیا ہے کہ اب یورپ اور امریکہ ہمیں معاشی طور پہ بلیک میل نہیں کر سکتے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ انھوں نے معاشی طور پہ بھی بڑے فیصلے لے لیے ہیں۔ یقیناً روس اور چین کی جانب سے پاکستان کو معاشی میدان میں تعاون کی امید دلائی جا چکی ہے۔ دورہ چین کے دوران چین سے معاملات طے ہوئے ہیں لیکن سب سے اہم دورہ روس کا تھا جس میں جنگ کی حالت میں بھی روسی صدر نے وزیراعظم پاکستان سے لمبی ملاقات کی، جو اڑھائی گھنٹے سے بھی طویل تھی۔
اس کے بعد یورپ کا پاکستان سے روس کی مذمت کرنے کا مطالبہ اور پھر پاکستان کا آزاد خارجہ پالیسی کا اعلان اس چیز کو مزید تقویت دیتا ہے کہ پاکستان اور روس کے درمیان بڑے معاشی معاہدے ہونے ہیں۔ روس اور چین خطے سے امریکی اجارہ داری ختم کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ ایسا ممکن ہے کہ دورہ روس کے دوران وزیر اعظم کو عالمی سطح پہ بڑھتی قیمتوں کے باجود روس نے کم قیمت پہ تیل مہیا کرنے کا وعدہ کیا ہو، جس کی وجہ سے انھوں نے دس روپے بڑھانے کے بجائے کم کر دیے۔
تیل سستا ہونے کی وجہ سے، پیدا ہونے والی بجلی کی قیمتوں میں بھی کمی ہو سکتی ہے۔ یہ ایک اندازہ ہے۔ دوسری جانب ایف بی آر نے اپنے ٹارگٹ سے تیس فیصد زیادہ ٹیکس اکٹھا کیا ہے اور حکومت آسانی سے یہ سبسڈی قوم کو دے سکتی تھی اور ان قیمتوں کو لگام دے سکتی تھی، لہٰذا انھوں نے دی۔ فی الحال حکومت کی جانب سے بھی مؤخر الذکر توجیہ دی جا رہی ہے جو سرکاری بیان بھی ہو سکتا ہے۔
یہاں سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہےکہ کہیں ہم امریکہ غلامی سے نکل کر روس اور چین کی غلامی میں تو نہیں چلے جائیں گے؟ ان شاءاللہ اس پہ اگلے حصے میں بات کریں گے۔