Agar Mujhe Nikala Gaya
اگر مجھے نکالا گیا
وزیراعظم عمران خان نے حکومت کو گرا کر چور دروازے سے اقتدار تک پہنچنے کی خواہش کرنے والوں اور ان کے سہولت کاروں کو آخری تنبیع دیتے ہوئے کہا کہ مخالفین کو شکر کرنا چاہیے کہ میں دفتری کاموں میں مصروف ہوتا ہوں اور ان کے تماشے دیکھتا رہتا ہوں۔ اگر کسی نے ان فیئر طریقے سے حکومت کو گرایا تو پھر اپوزیشن میں آ کر میں مزید خطرناک ہو جاؤں گا اور پھر کسی کو چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی۔ انھوں نے عوامی ردعمل کے بارے میں کہا کہ لوگ اب آپ کو جان چکے ہیں اور اگر میں سڑکوں پہ آیا تو یہ لوگ آپ کا جینا حرام کر دیں گے۔
وزیر اعظم کی جانب سے دی جانے والی یہ وارننگ اور پورے اعتماد سے یہ کہنا کہ ان کی حکومت نہ صرف موجودہ ٹرم پوری کرے گی، بلکہ اگلی ٹرم پوری کرے گی، کافی اہم ہے۔ وزیر اعظم پاکستان کی جانب سے ایسا رویہ شاید پہلے نہیں اپنایا گیا۔ اس طرح کا انداز وہ صرف اپوزیشن میں اپناتے رہے ہیں لیکن موجودہ صورتحال میں وہ ایک بار پھر کھل کر سامنے آئے ہیں اور سب کو للکارا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ اس بار ان کی حکومت کے خلاف وسیع پلاننگ ہو رہی ہے اور وہ عوامی اعتماد کے ساتھ اس سازش کو کاؤنٹر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
اس بات میں رتی برابر شک نہیں ہے کہ ان کے پاس ایک بہت بڑی سٹریٹ پاور ہے، جس کو وہ جس وقت چاہیں استعمال میں لا سکتے ہیں۔ اسی بنیاد پہ وہ اپوزیشن میں بھی چند سیٹوں کے باوجود طاقتور ترین حکومت کو تگنی کا ناچ نچاتے رہے ہیں۔ پچھلے ساڑھے تین سالوں سے چند سیٹوں پہ ٹکی ایک کمزور حکومت میں بھی وہ مشکل ترین فیصلے لے رہے ہیں اور پورے کانفیڈنس سے مافیاز اور سیاسی اشرافیہ سے ٹکڑا رہے ہیں جس کی واحد وجہ عوام کا ان پہ اعتماد ہے۔
اپنی 22 سالہ جدوجہد کے دوران انہوں نے قوم کے اندر کرپشن کے خلاف اس قدر غصہ اور نفرت بھر دی ہے کہ اب دیگر سیاسی پارٹیاں مہنگائی اور دیگر عوامی ایشوز کے باجود لوگوں کو باہر نکالنے میں کامیاب نہیں ہو سکی جبکہ دوسری جانب عمران خان مشکل حالات کے باجود عوامی مقبولیت نہیں کھوئے۔ انھوں نے این آر او نہ دینے کا اعلان اتنی بار کیا ہے کہ قوم کو ہمیشہ ان کے سامنے مخالفین چور لٹیروں کے روپ میں نظر آئے ہیں۔ انھوں نے سیاسی اشرافیہ اور مافیا سے بار بار پنگا لے کر قوم کے سامنے سسٹم کو ایکپسوز کیا ہے۔ ابھی وہ ایک کریمنل جسٹس سسٹم کا رہے۔
عمران خان نے اپنی ویژنری قیادت میں مشکل ترین اور غیر مقبول فیصلے لے کر نہ صرف کریش ہوتی معیشت کو بچایا ہے بلکہ اربوں ڈالر کے خسارے اور قرضے بھی ختم کیے ہیں۔ انھوں نے دنیا کی سب سے بڑی وبا جھیل کر بھی تمام معاشی فگرز کو مثبت کر کے 5۔ 37 فیصد کی شرح نمو حاصل کر لی ہے۔ کرونا وائرس سے قوم کو محفوظ بھی رکھا ہے اور معیشت کو بھی بچایا ہے۔ تین سالوں میں نواز دور سے زیادہ سڑکیں بنا دی ہیں اور ان سے آدھی قیمت پہ موٹروے تعمیر کر کے دکھائی ہے۔
ایشیا کا سب سے بڑا احساس پروگرام بھی شروع کیا ہے جس کے تحت شیلٹر ہوم، نقد کیش سے مدد اور دس لاکھ کی ہیلتھ انشورنس سے انھوں نے عوامی رائے عامہ بدل دی ہے۔ پاکستان سٹیزن پورٹل سے عوام کی لاکھوں شکایت روزانہ کی بنیاد پہ حل ہو رہی ہیں۔ ساتھ ساتھ وہ میگا ڈیمز، اسپیشل اکنامک زونز اور ٹیکنالوجی پارکس وغیرہ پہ بھی کام کر رہے ہیں۔ خارجہ محاذ پہ بھی وہ کامیابیوں کے جھنڈے گاڑتے چلے جا رہے ہیں۔
انھوں نے ملک کو امریکہ تسلط سے آزاد کیا اور عالمی فورمز پہ ناموس رسالت کا مقدمہ لڑا، جس سے ان کی مقبولیت میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ ان کے شروع کردہ اکثر میگا پروجیکٹس کے اثرات اگلے دو تین سالوں میں آنے ہیں، لہذا اس وقت حکومت کو گرانے کی سازش، لمحہ فکریہ ہے جس کے خلاف وہ عوامی ردعمل سے لڑنے کا تہیہ کر چکے ہیں۔ اب آگے آگے دیکھیے کیا ہوتا ہے۔