Aane Wali Naslon Ka Sochein (1)
آنے والی نسلوں کا سوچیں (1)
دنیا کا کوئی بھی ملک جدید تبدیلیوں سے ہم آہنگ ہوئے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا۔ علم اور معیشت، ترقی کی بنیاد ہیں۔ دنیا نے ابتدا میں زرعی معیشت کو اپنایا لیکن اٹھارویں صدی میں صنعتی ترقی کا دور شروع ہوا، جس نے معیشت کو انڈسٹری سے جوڑ دیا۔ جس ملک نے بھی اس وقت اس نئی تبدیلی کو اپنانے میں تھوڑی سے بھی کوتاہی کی، وہ باقی ممالک سے پیچھے رہ گیا۔ بیسویں صدی کے آخر میں ایک نئی معیشت نے جنم لیا ،جس نے ایک بار پھر دنیا کی ڈائریکشن بدل دی۔ یہ علمی معیشت تھی۔ یوں تو ساٹھ کی دہائی سے اس پہ کام شروع ہو گیا ،تاہم نوے کی دہائی میں علمی معیشت پہ کام تیزی سے شروع ہوا۔
علمی معیشت سے مراد اپنی اکانومی کو جدید علم و ٹیکنالوجی سے نتھی کر دیا۔ اس کےلیے جدید نالج سے لیس افرادی قوت اور علمی ماحول ضروری ہے۔ آج کی ڈیجٹل دور میں تو علمی معیشت کے بغیر کوئی ملک آگے نہیں بڑھ سکتا۔ جن ممالک نے اس پہ توجہ دی، آج وہ علمی بدولت اپنی فی کس آمدنی اور دیگر معاشی فیکٹرز کو مضبوط کر چکے ہیں۔ ستر کی دہائی میں، جب ہمارے حکمران روٹی کپڑا اور مکان کے نعرے لگا رہے تھے، پڑوسی ملک بھارت میں آئی ٹی پہ کام شروع ہو گیا۔ نوے کی دہائی میں، جب ہم مرگ برگ امریکہ کے نعرے لگا رہے تھے، بھارت اپنے ذہین بچوں کو دنیا کی عظیم جامعات میں بھیج رہا تھا۔
نتیجتاً نہ صرف اس نے دنیا کے تمام بڑے اداروں میں بھارتیوں کو پہنچایا ،بلکہ وہاں سے واپس آنے والی اکثریت کے بل بوتے پہ، اپنے ملک میں ایک نالج اکانومی بنانے میں کافی حد تک کامیاب رہا۔صرف بھارت ہی نہیں بلکہ کئی ترقی پذیر ممالک نے اپنی استطاعت سے بڑھ کر اس مقصد کےلیے فنڈز قائم کیے یوں جدید ٹیکنالوجیز ،خصوصاً مصنوعی ذہانت کے بل بوتے پر ان ممالک نے اپنے تمام سیکٹر میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے، ایک مضبوط علمی معیشت قائم کر دی۔ مثلاً آج سنگاپور کی فی کس آمدنی یورپی ممالک سے بھی زیادہ ہے۔
ترجیحات کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ، وہاں کی صرف نیشنل یونیورسٹی کا بجٹ ہماری ایچ ای سی کے ٹوٹل بجٹ سے آٹھ سو گنا زیادہ ہے۔ اس پہ سب سے زیادہ توجہ چین نے دی اور ریسرچ کے فروغ اور جدید ٹیکنالوجی کے بل بوتے پر دنیا کی عظیم ترین معاشی قوت بن گیا۔ آج نہ صرف چین کے پاس بہترین ادارے ہیں ،بلکہ وہ سالانہ چھے لاکھ کے قریب سٹوڈنٹس کو دنیا بھر میں سکالرشپ کےلئے بھیجتا ہے ،جن میں سے پانچ لاکھ واپس آتے ہیں۔ آج کے نئے ڈیجیٹل دور میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس اور انٹرنیٹ آف تھنگز بزنس کو بڑے تیزی سے بدل رہی ہے۔
کہتے ہیں کہ کسی سیاستدان اور لیڈر میں بنیادی فرق یہ ہوتا ہے کہ ،سیاستدان آنے والے الیکشن کے بارے میں سوچتا ہے، جبکہ ایک لیڈر آنے والی نسلوں کے بارے میں سوچتا ہے۔ سیاستدان کی سوچ محدود ہوتی ہے جو ذاتی مفاد پہ مبنی ہوتی ہے، جبکہ لیڈر کا ویژن قوم کے وسیع تر مفاد کے پیشِ نظر ہوتا ہے۔ بد قسمتی سے ہمیں لیڈر کی بجائے سیاستدان ملتے رہے،جنھوں نے وقتی مفاد پہ فوکس کیا۔مشرف دور میں پہلی دفعہ پاکستان نے علمی معیشت کی اہمیت کو سمجھا اور اس جانب توجہ دی۔ اس دوران گیارہ ہزار سٹوڈنٹس کو امریکہ، چین، برطانیہ اور فرانس جیسے ممالک میں بھیجا گیا ،جن میں سے 97 فیصد واپس آئے۔
ریسرچ ورک شروع کیا گیا اور جدید جامعات کا منصوبہ بنا، لیکن بدقسمتی سے 2008 میں آنے والی نئی حکومت نے یہ پروگرام بند کر دیے اور تحقیقی فنڈ بھی یکلخت 90 فیصد کم کر دیا،2018 میں عمران خان کی قیادت میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ ملک کو پہلے سال دیوالیہ ہونے سے بچایا گیا اور پھر نئے پاکستان کی تعمیر شروع ہوئی۔ جہاں ایک طرف انھوں نے مضبوط اور پائیدار معیشت کےلیے میگا ڈیمز، اسپیشل اکنامک زونز، سٹی پلانز، بلین ٹری پروجیکٹ اور کنسٹرکشن انڈسٹری جیسے انقلابی قدم اٹھائے، وہیں سائنس و ٹیکنالوجی پہ بھی خصوصی توجہ دی جانے لگی۔
2019 میں وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے دوبارہ سے ایک ایسا انقلابی پروگرام شروع کیا، جسے پاکستان کی تاریخ میں کسی حکمران کا سب سے بڑا کارنامہ سمجھا جانا چاہیے۔ یہ قدم قرضوں اور خساروں میں گھرا ہونے کے باوجود، نالج اکانومی ٹاسک فورس کا قیام تھا ،جس نے ملک میں علمی معیشت کے قیام کےلیے اڑھائی سالوں میں کارہائے نمایاں سر انجام دیے۔