Cancer Hospital Aur Janoobi Punjab
کینسر ہسپتال اور جنوبی پنجاب
ہمارا تعلق ملتان سے ہے اور ہمیں اپنے شہر کے متعلق یہ خوش فہمی ضرور رہی ہے کہ اس جیسا شہر رہنے کے لئے کوئی دوسرا نہیں۔ مگر تمام دنیاوی اشیاء کی طرح خوش فہمی کی بھی ایک عمر ہوتی ہے۔ شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال سے والدہ مرحومہ کے علاج کے لیے مستفید ہونے (یا نہ ہو سکنے) کے بعد چند سوال ذہن میں بارہا آتے رہے۔
پہلا اور اہم سوال یہ ہے کہ تین سال گزرنے کے بعد بھی تحریک انصاف کی حکومت نے اس طرز کا کوئی بھی ادارہ جنوبی پنجاب یا نزدیکی اضلاع میں کیوں نہیں شروع کیا؟ کیا یہ مجرمانہ غفلت نہیں؟ کیا جنوبی پنجاب کے لوگ کینسر جیسے مرض کے علاج کے حق دار نہیں؟ جہاں ہمیں موردالزام موجودہ حکومت کو ٹھہرانا چاہیے وہاں اس جرم میں برابر کے شریک ہمارے علاقائی نمایندے بھی ہیں۔ وہاں ہمیں یہ سوال خود سے بھی کرنا چاہیے کہ ہم کن رہنمائوں کو منتخب کر کے اسمبلیوں میں بھیجتے رہے ہیں چاہے انکا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو۔
کُج انج وی راہواں اوکھیاں سَن
کج گَل وچ غم دا طوق وی سی
کج شہر دے لوک وی ظالم سَن
کج سانوں مرن دا شوق وی سی
جنوبی پنجاب میں صحت و علاج کی سہولیات کا شدید فقدان ہے اور لاہور اس معاملے میں بہت بہتر اور جدید ہے۔ حال ہی میں نشر ہسپتال ٹو پر تیزی سے کام ہوا ہے۔ مگر ابھی بھی آبادی کے تناسب سے یہ بہت ہی قلیل کوشش ہے۔ معلوم نہیں جنوبی پنجاب کے حکمرانوں کا کبھی محاسبہ بھی ہو سکے گا یا نہیں۔ عوام بھی ایسے شکوے کرے گی یا نہیں؟ یا پھر شعبدہ بازوں کو ووٹ دیتے رہیں گے۔
یقیناً یہ ادارہ پاکستان میں بے حد مناسب طریقے سے علاج کے فرائض ادا کر رہا ہے۔ لیکن اس ادارے میں مریض کو اپنے مرض یا ممکنہ علاج کے بارے میں صحیح آگاہی کے حصول کے لیے انتہائی دشواری کا سامنا ہوتا ہے۔ شاید ہسپتال انتظامیہ پر کام کا بہت دباؤ ہے۔ اور اس دباؤ کے باعث وہ مریض پر پوری توجہ نہ دے سکتے ہوں۔
اس ادارے کے ڈاکٹرز یقیناً بہت قابل ہیں۔ انکا یہ زعم بے جا نہیں ہے کہ وہ اس ملک کا سب سے اچھا ہسپتال ہیں۔ اور یہ آپ کو بارہا باور کروایا جاتا ہے۔ مگر ادارے کی کارکردگی کو بہتر بنانے کیلئے اس جیسے اور بھی ادارے حکومتی سرپرستی میں کھولے جانے چاہیے۔ جنوبی پنجاب آبادی کا بہت بڑا حصہ کینسر کا علاج کروانے لاہور آنے سے قاصر رہتا ہے۔ نشر ہسپتال میں واقع مینار کے پاس محدود طریقہ علاج ہیں اور مریضوں کا بے تحاشا دباؤ بھی ہے۔ یعنی سونے پر سہاگا ہو گیا۔ جھنگ، لیہ، ڈیرہ غازی خان، ڈیرہ اسماعیل خان، صادق آباد، رحیم یار خان، بہاولپور، میلسی، خانیوال اور ایسے ہی بہت سے شہروں کو یہ نعرہ عام سننے کوملتا ہے کہ مریض کی حالت بگڑ گئی ہے اور نشتر ہسپتال لے جایئے۔
سوال یہ ہے کہ حکومت اس اہم معاملے پر کیوں کوئی قدم نہیں اٹھاتی؟ وہ بھی خاص طور پر تحریک انصاف کی حکومت جن کی وجہِ شہرت ہی کینسر ہسپتال ہے۔ کیا حکومتی سرپرستی میں ایسا ادارہ نہیں قائم کیا جا سکتا؟ پہلے ادوار کے مقابلے میں اب تحریک انصاف کو کونسی طاقت کینسر ہسپتال قائم کرنے سے روک رہی ہے؟