Sarsabz Kheton Se Concrete Ke Jungle Tak
سرسبز کھیتوں سے کنکریٹ کے جنگل تک
عبداللہ کے لکڑدادا کی تین ایکڑ زمین تھی جس پر وہ کاشتکاری کرتا اور اپنا گزر بسر کرتا۔ اچانک لکڑدادا کی زمین پر انگریزوں نے قبضہ کرلیا اور لکڑدادا کو اپنے رعیت میں لے لیا اور حکمرانی کرنے لگے۔ لکڑدادا کی وفات کے بعد پردادا غلامی کرنے لگا۔ یہ سلسلہ چلتا رہا اور حکمرانی کرتے کرتےایک صدی بیت گئی۔ پھر عبداللہ کے دادا کے تین بیٹے پیدا ہوئے جو اس بات سے نالاں تھے کہ اُن کی زمین پر اغیار کا قبضہ کیوں کر ہے۔ تینوں مل کرانگریزوں سے پیچھا چھڑوانے اور اپنی قبضہ شدہ زمین کو واگزار کروانے میں ڈٹ گئے۔
طویل جدجہد کے بعد زمین مل گئی تو تینوں بھائیوں میں جھگڑا شروع ہوگیا کہ کون کتنی زمین لے گا پھر بٹوارہ ہوا اور زمین تینوں میں تقسیم ہوگئی اپنے اپنے گھر تعمیر کرلئے اور اُسی پر کاشتکاری کرکے اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ پالنے لگے۔ پھر آہستہ آہستہ لوگوں کو دیکھتے دیکھتے زمین کو پلاٹ کی شکل میں بیچنے لگے۔ وہ زمیں جہاں سے مال معاش کما رہے تھے اب اُس میں مزید گھر اور بلڈنگ تعمیر ہونے لگے اور کاشتکاری کے لئے زمین کم پڑنے لگی یہاں تک کہ کمی اِس قدر ہوگئی کہ ساتھ والی زمین سے اُدھار مانگنے لگے اور دھیرے دھیرے قرض بڑھنے لگا۔ اُس قرض کو اُتارنے کے لئے کسی اور سے اُدھار لینے لگے اور اب بھکاری کا درجہ حاصل کرنے کے در پے ہیں۔ ملکِ پاکستان کی مثال کوئی مختلف نہیں ہے۔
ایک طویل عرصے کی مسلسل جدجہد اور قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا یہ وطنِ عزیز پاکستان اِسی بیماری کی لپیٹ میں آچکا ہے۔ ملکِ پاکستان پراپرٹی ڈیلروں کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ ہر دوسرا شخص پراپرٹی ڈیلنگ کا ایک وسیع تجربہ رکھتا ہے یا پھر اِن تجربات سے گزر رہا ہے۔ سرکاری ملازمین سے لے کر پرائیویٹ ملازمین تک یا پھر ایک عام چھابڑی فروش سے ایک مالدار آدمی تک، ایک عوامی نمائندہ سے لے کر انصاف کی کُرسی تک بیٹھے ایک اہم شخص تک ہرایک اِس کا منفرد تجربہ رکھتا ہے۔ جس نے کبھی تھانہ کچہری کے معاملات نہ دیکھیں ہوں وہ بھی اِس سے مستفید ہو چکا ہے۔ لوگوں کے ساتھ دھوکہ دہی ایک عام سی بات بن کر رہ گئی ہے۔ ریٹائرڈ لوگ اپنی ساری زندگی کی کمائی ایک ایسی زمین کی فائل خرید کر لوٹا دیتے ہیں جو حقیقت میں کہیں موجود ہی نہیں ہوتی۔
اِس کے برعکس اِس تحریر کے لکھنے کا بنیادی مقصد کچھ اور ہے۔ ملکِ پاکستان قرض کی لعنت میں دھنستا چلا جا رہا ہے جو کہ 124.3 بلین ڈالر تک پہنچ چکا ہےجس سے موجودہ صورتِ حال بدتر ہوتی جارہی ہے۔ معیشت تباہ حالی کا شکار ہے، بے روزگاری اپنی انتہا پر ہے اور مہنگائی اپنے عروج پر ہے۔ پاکستان زراعت کی پیداوار میں عالمی سطح پر آٹھویں نمبر پر ہے۔ ملکی جی ڈی پی میں زراعت کا 19 فیصدحصہ ہے۔ جس میں گندم، چاول، کپاس، گنا، آم، کِنو اورکھجوریں اہم ہیں۔ اس کے علاوہ زراعت سے متعلقہ مصنوعات کا ملکی آمدنی میں حجم 80 فیصد تک ہے۔ زرعی شعبہ سے 42.3 فیصد آبادی کا روزگار بھی وابستہ ہے- جنگلات کا عالمی معیار کل رقبے کا تقریباََ 25 سے 30 فیصد حصہ ہے جبکہ پاکستان میں یہ حصہ محض 5.4 فیصد ہے۔
ملک میں پراپرٹی ڈیلروں کی ان گنت تعداد کی وجہ سے ملک ایک پلاٹ کی شکل میں جگہ جگہ سے ٹکروں کی شکل میں کاٹا جا رہا ہے اور تعمیرات کے لئے ہاتھوں ہاتھ بیچا جا رہا ہے۔ خاص طور پر کاشتکاری کے رقبے پر بغیر کسی روک تھام کے کاٹ کاٹ کر کنکریٹ کی منزلیں تعمیر کی جارہی ہیں۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ زرعی زمینوں پر رہائشی اسکیمیں بننے کا سلسلہ پنجاب میں زیادہ ہے لیکن یہ رجحان ملک کے دوسرے صوبوں میں بھی بڑھ رہا ہے۔ پاکستان میں کراچی، لاہور، ملتان، پشاور اور فیصل آباد سمیت کئی شہروں کی آبادی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ نتیجتاً شہروں کے اطراف جو زرعی زمینیں تھیں وہ اب ریئل اسٹیٹ کی ڈویلپمنٹ کے لیے کام آ رہی ہیں۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود گندم کی درآمدات کر رہا ہے تاکہ مطلوبہ طلب پوری کی جاسکے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کے ادارے جن میں ٹاؤن پلاننگ اور اربن مینجمنٹ ایک اہم ادارہ ہے دیہاتوں، قصبوں اور شہروں کے لئے کوئی جامع پالیسی بنانے میں کیوں دلچسپی نہیں رکھتے۔ عوام کے نمائندگان کاشتکاری اراضی میں پلاٹوں کے کٹاؤ پر پارلیمنٹ میں آواز اُ ٹھانے سے کیوں قاصر ہیں۔ کوئی قانونی پیشرفت کیوں نہیں کی جارہی۔ کوئی قانون پاس کیوں نہیں کیا جا رہا یا پھر ہر پاکستانی اپنے ذاتی مفادات کی آڑ میں خاموش ہے۔ یوں محسوس ہور ہا ہے جیسے اپنے اپنے مفادات کی جنگ لڑی جارہی ہو۔ کس کا پلاٹ کتنا مہنگا اور کِس زمین کے درمیان سے سڑک گزاری جائے یہ زیادہ ضروری ہے۔ یا پھر مفادِعامہ کا مسئلہ اہم ہے۔
اداروں کو ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے۔ حکومتِ وقت اِس ظلم کو روکنے کے لئے عملی اقدامات کرے اور لوگوں کو میڈیا اور اخبارات کے ذریعے متنبہ کیا جائےکہ زرعی اراضی پر تعمیرات ممنوع ہیں۔ ٹاؤن پلاننگ اور اربن مینجمنٹ اپنا کردار ادا کرے اور ایک منظم نظام وضع کرے۔ ٹاورپلاننگ کے منصوبہ جات پر عمل کیا جائے۔ پاکستان ہے تو ہم ہیں لہٰذا اپنے ذاتی مفادات کو پسِ پشت ڈال کر ملکی مفاد کو ملحوظِ خاطر رکھا جائے۔