Iran Ko Asad Ke Zawal Ke Baad Tareekhi Hikmat e Amli Ki Nakami Ka Saamna
ایران کو اسد کے زوال کے بعد تاریخی حکمت عملی کی ناکامی کا سامنا
تہران کو شام میں بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد ایک "تاریخی نوعیت کے حکمت عملی دھچکے" کا سامنا ہے۔ یہ اہم تبدیلی نہ صرف مشرقِ وسطیٰ میں ایران کی ایک اہم شراکت داری کے خاتمے کی نشاندہی کرتی ہے بلکہ اسلامی جمہوریہ کو اپنی دہائیوں پرانی سیکیورٹی اور خارجہ پالیسیوں پر نظر ثانی کرنے پر بھی مجبور کر رہی ہے۔
ایران کی ولایت فقہیہ مطلق کے نادر عقیدے پر قائم سخت گیر مذہبی حکومت کو مشرق وسطی میں قائم کردہ اپنے "مزاحمت کے محور" پر خاصا ناز رہا ہے۔ وہ سلفی-دیوبندی مسلم بنیاد پرست تحریکوں کی مسلح حکمت عملیوں کے مقابلے میں اسے زیادہ کامیاب حکمت عملی کے طور پر پیش کرتا رہا ہے۔ اس کا دعوا تھا کہ اس نے حزب اللہ کو ناقابل شکست بنا دیا ہے اور شام میں بھی اس کا یہی دعوا رہا- لیکن اسرائیل نے حال ہی مین لبنان میں جس طرح سے حزب اللہ کا گھیراؤ کیا اور اس کی صف اول کی قیادت کو مار گرایا اور پھر اب جیسے بشار الاسد کا تختہ الٹا اس نے ایرانی حکومت کے دعوؤں پر سوالیہ نشان کھڑے کر دیے ہیں۔ ایرانی حکومت پر الزام ہے کہ وہ حزب اللہ کو اسرائیل سے بچا نہیں سکا اور ایسے ہی بشار الاسد کاجس طریقے سے دھڑن تختہ ہوا اس نے بھی ایرانی رجیم کو خاصی خجالت سے دوچار کیا ہے۔
اسد کا زوال ایران کے علاقائی اثر و رسوخ کے لیے 2003 میں عراق پر امریکی حملے کے بعد سب سے بڑا دھچکہ ہے۔ عراق میں، صدام حسین کے خاتمے نے بالآخر تہران کو اپنے اثر و رسوخ کو وسعت دینے کے مواقع فراہم کیے، لیکن شام کی موجودہ صورتحال ایران کے علاقائی غلبے کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔
شام، جو مشرقِ وسطیٰ میں ایران کا واحد ریاستی اتحادی تھا، ایران کی "مزاحمتی محور" حکمت عملی کا مرکز تھا، جو حزب اللہ کو زمین کے ذریعے رسائی فراہم کرتا تھا، جو ایران کا سب سے مضبوط غیر ریاستی اتحادی ہے۔ اسد کے خاتمے کے ساتھ، یہ لاجسٹک اور حکمت عملی کا راستہ مؤثر طور پر منقطع ہو چکا ہے، جس سے ایران کی پراکسی کارروائیاں درہم برہم ہو رہی ہیں۔
انٹرنیشنل کرائسز گروپ کے ایران پراجیکٹ کے ڈائریکٹر علی واعظ نے اس صورتحال کی سنگینی پر زور دیتے ہوئے کہا، "ایران کے مغربی محاذ پر ایک کے بعد ایک ڈومینو گر چکا ہے۔ اسلامی جمہوریہ کا یہ خیال کہ حماس کا 7 اکتوبر کا حملہ تاریخ کا ایک موڑ ہوگا، سچ نکلا، لیکن اس کے امیدوں کے بالکل برعکس"۔
یہ اثرات صرف حکمتِ عملی تک محدود نہیں ہیں بلکہ معاشی بھی ہیں۔ شام ایران کا ایک اہم اقتصادی شراکت دار تھا، جو ہر سال 40 ملین بیرل تیل کریڈٹ پر درآمد کرتا تھا اور اس کے تجارتی راستے حزب اللہ اور دیگر گروہوں کو مالی اور لاجسٹک مدد فراہم کرتے تھے۔ اسد کی حکومت کے خاتمے کے ساتھ، یہ معاشی تعلقات اب خطرے میں ہیں۔
حزب اللہ کے لیے، اسد کی حکومت کا خاتمہ خاص طور پر تباہ کن ہے۔ یہ گروہ شام پر اپنے لاجسٹک سپورٹ، اسمگلنگ کے راستوں اور معاشی فائدے کے لیے انحصار کرتا تھا۔ ماہرین پیش گوئی کرتے ہیں کہ حزب اللہ کو مستقبل میں شدید مالی اور عملی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ان دھچکوں کے درمیان، تہران اپنے ڈیٹرنس کو بحال کرنے کے لیے اپنے جوہری پروگرام کو تیز کر سکتا ہے۔ حالیہ امریکی انٹیلیجنس اور اقوام متحدہ کی رپورٹس نے ایران کی یورینیم افزودگی کی سرگرمیوں میں نمایاں اضافے کی نشاندہی کی ہے، جس سے ہتھیاروں کے درجے کی پیداوار کی طرف ممکنہ تبدیلی کے خدشات پیدا ہو رہے ہیں۔
اگرچہ ایران نے اپنے جوہری سرگرمیوں پر بات چیت کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے، لیکن اس نے اپنے میزائل پروگرام اور خطے میں اپنی پراکسی سپورٹ پر سمجھوتہ کرنے کا کوئی اشارہ نہیں دیا ہے، جس سے مغرب اور اسرائیل کے ساتھ مزید کشیدگی کے امکانات پیدا ہو گئے ہیں۔
اسد کے زوال اور علاقائی شکستوں کے پس منظر میں یہ سوال اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے: کیا ایران میں اب رجیم تبدیلی کا وقت آ چکا ہے؟
ایران کی موجودہ سخت گیر شیعی ملائیت، جو داخلی سطح پر عوامی بے چینی اور بیرونی دباؤ کا سامنا کر رہی ہے، کیا گرجانے کے دہانے پر ہے؟ کیا عوامی احتجاج کسی منظم تحریک میں بدل سکتا ہے جو موجودہ نظام کو چیلنج کر سکے؟
ایرانی عوام کے اندر موجود بے اطمینانی اور ماضی کے احتجاجی مظاہروں کے تناظر میں، یہ ممکنہ سوال ہے کہ کیا داخلی قوتیں کسی بڑی تحریک کی شکل اختیار کر سکتی ہیں؟ موجودہ حالات میں، ایران کی سیاسی قیادت کو نہ صرف خارجی بلکہ داخلی خطرات کا بھی سامنا ہے۔ اسد کے بعد شام میں، عوامی جذبات تہران کے خلاف زیادہ ہیں، جو اسد کی ظالمانہ حکومت کی حمایت میں ایران کے کردار پر غصے کو ظاہر کرتے ہیں۔ ایرانی مشنز کو نقصان پہنچایا گیا ہے اور شام کے عوام تہران اور حزب اللہ کو جنگ اور مظالم کے ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔
اپنے مغربی محاذ کے گرنے کے بعد، ایران کی توجہ اب عراق پر مرکوز ہوگی، جو اس کا قریب ترین پڑوسی اور ایک اہم اقتصادی شراکت دار ہے۔ عراق تہران کی پابندیوں سے بچنے کی سرگرمیوں کا ایک اہم مرکز ہے اور اس کے علاقائی حکمتِ عملی میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔
ان چیلنجز کے باوجود، ایران اب بھی ایک مضبوط طاقت ہے، جس کے پاس خطے میں وسیع ملیشیا نیٹ ورک ہیں اور اسرائیل مخالف جذبات کا فائدہ اٹھانے کی ایک طویل تاریخ ہے۔ ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ تہران اب بھی اپنے اثر و رسوخ کو برقرار رکھنے کے طریقے تلاش کر سکتا ہے، خاص طور پر اگر شام انتشار کا شکار ہو جائے یا ایران کے لیے ہمدردی رکھنے والے دھڑے ابھریں۔
ایران کے مستقبل کے بارے میں غیر یقینی صورتحال کے ساتھ، یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیا موجودہ رجیم بیرونی دباؤ اور داخلی بے چینی دونوں کا سامنا کرنے کے قابل ہوگی یا ایران مزید سیاسی اور سماجی تبدیلیوں کی طرف بڑھے گا۔