Fasl e Bahar Ke Aate Aate Kitne Gareban Chaak Hue
فصل بہار کے آتے آتے کتنے گریباں چاک ہوئے
اسلم ملک صاحب کی وال پہ ظہیر کاشمیری کی برسی کے موقع پر ان کو یاد کیا اور کیا خوب یاد کیا۔ وہ 1994 میں اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ اس زمانے میں محترمہ بے نظیر بھٹو وزیر اعظم پاکستان تھیں اور ان کی حکومت کو بنے قریب قریب ایک سال ہو چلا تھا۔ وہ پی پی پی کی حکومت سے سخت شاکی تھے اور اس کی بائیں بازو کی نظریاتی لائن سے انحراف کے سخت ناقد تھے۔ بیماری کے آخری دنوں میں، انھوں نے بے نظیر بھٹو کی جانب سے علاج و معالجے کی مد میں بھاری رقم کی پیشکش کو سختی سے ٹھکرا دیا تھا۔
میں نے ان کی شاعری سے پہلے ان کی مارکسی ادبی تنقید کی کتاب "ادب کے مادی نظریے " پڑھی تھی۔ دسمبر کی ایک سرد شام میں نے یہ کتاب آغا امیر حسین مرحوم کی ریگل چوک پر مشہور و معروف کتابوں کی دکان "کلاسیک" سے خرید کی تھی جب ابھی یہ دکان مٹھائی اور گفٹ کی دکان میں تبدیل نہیں ہوئی تھی۔ سچی بات یہ ہے کہ گزشتہ دس سالوں میں، میں درجنوں بار ریگل چوک سے گزرا، ہال روڈ سے گزرتا ہوا گوال منڈی کی طرف بھی گیا لیکن میں نے پلٹ کر اس بلڈنگ کی طرف نہیں دیکھا جہاں کلاسیک قائم تھی۔ اب یہ کس حال میں ہے کچھ پتا نہیں ہے۔
جیسے میں لکشمی مینشن جاکر دل خراب کرنا نہیں چاہتا جہاں انجمن تاجران ہال روڈ کے تاجروں نے وہ تمام نشانیاں مٹادیں جن کا تعلق منٹو سے تھا اور ملک معراج خالد کے گھر سے تھا جہاں ہماری سیاسی تاریخ کی بہت سی یادیں پرچھائیوں کی صورت رہا کرتی تھیں۔ جیسے نکلسن روڈ پہ نوابزادہ نصر اللہ خان کا گھر جو پاکستان کی حزب اختلاف کی سیاست کا گواہ تھا۔ اسے اگر ایک یادگار کے طور پر باقی رہنے دیا جاتا اور اس گھر کے اصل مالک کو اس بلڈنگ کی تین گنا زیادہ بھی قیمت دے دی جاتی تو یہ گھاٹے کا سودا نہیں ہوتا۔
بیڈن روڈ پہ جہاں ظہیر کاشمیری رہا کرتے تھے ایک روز میں اور میرے دوست ساجد بلوچ پرانی انار کلی سے پیدل مارچ کرتے ہوئے وہاں جانکلے اور میں ڈبی جیسے اس گھر کی طرف اشارہ کرنے والا تھا کہ وہاں مجھے چکن پکوڑے، مرغ پیس بکتے نظر آئے اور ترقی پسند تحریک کے ایک بڑے اثر کو ان کی بساند میں گم ہوتے ہوئے محسوس کیا اور میں کچھ نہ بولا۔ ساجد بلوچ بھی میری کیفیت کو سمجھ رہا تھا۔ میں پھر وہاں سے جب بھی گزرا تو سر جھکا کر گزرتا چلا گیا۔ اب مجھے نہیں پتا کہ لاہور کی وہ تنظیم جو اندرون لاہور، لاہور شہر میں رہنے والی یادگار زمانہ شخصیات جہاں وہ رہا کرتی تھیں وہاں یادگاری تختیاں نصب کر رہی ہے تو ظہیر کاشمیری کے گھر کی جگہ کے نصیب میں وہ تختی آئی کہ نہیں۔
ظہیر کاشمیری نے ایک بار فلمسازی بھی کی تھی اگرچہ وہ فلم انڈسٹری سے پاکستان بننے سے پہلے ہی وابستہ تھے اور اس فلم کا اسکرپٹ بشمول گیت، مکالمے سب انھوں نے لکھے تھے اور اس فلم کا نام "تین پھول" تھا۔ یہ فلم اس زمانے میں اپنے موضوع کے اعتبار سے بہت ایڈوانس اور ٹیبو سمجھے جانے والے معاملات پر مشتمل تھی۔
پاکستان فلم میگزین نے ان کے فلمی کیریئر کا یوں جائزہ لیا ہے:
ظہیر کاشمیری نے فلمی دنیا میں نغمہ نگار، مصنف اور ہدایتکار کے طور پر بھی کام کیا۔ انھوں نے اپنی اکلوتی فلم تین پھول (1961) بنائی جو بے وفائی جیسے ایک بڑے ہی بولڈ موضوع پر بننے والی ایک منفرد فلم تھی۔
ہماری فلموں میں عام طور پر ہیروئن کو بڑی نیک پروین یا دیوی اور ہیرو کو گلفام یا دیوتا کے روپ میں پیش کیا جاتا رہا ہے لیکن ان کی اس فلم کی ہیروئن نیرسلطانہ، علاؤالدین کی بیوی ہے لیکن اپنے سابقہ آشنا کے ساتھ ناجائز تعلقات بھی رکھتی ہے۔ آشنا یعنی فلم کا ہیرو اسلم پرویز، اس سے بھی دو ہاتھ آگے ہے اور بیک وقت تین عورتوں سے جھوٹی محبت کا کھیل کھیلتا ہے اور اسی لیے اس فلم کا نام تین پھول (1961) رکھا گیا تھا۔
اسلم پرویز کے ہیرو شپ کے دور کی خاص بات یہ تھی کہ وہ اپنی مشہور زمانہ فلموں پاٹے خان (1955)، چن ماہی (1956)، کوئل اور نیند (1959) وغیرہ میں ہرجائی ہیرو کے روپ ہی میں کامیاب ہوئے تھے۔ بعد میں اردو فلموں کے چوٹی کے ولن اداکار ثابت ہوئے تھے۔
بطور ہدایتکار اپنی اکلوتی فلم تین پھول (1961) کی کہانی، مکالمے اور منظرنامہ بھی ظہیر کاشمیری کا اپنا لکھا ہوا تھا۔ فنی طور پر یہ ایک کمزور فلم تھی اور بری طرح سے ناکام رہی تھی۔ اس تجربے سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جس طرح ہر کوئی، شاعر یا ادیب نہیں بن سکتا، ایسے ہی ہر کوئی فلم بھی نہیں بنا سکتا۔
عام طور پر نامور ادبی شخصیات، فلمسازی کے میدان میں ناکام رہی ہیں جن میں امتیاز علی تاج، شوکت ہاشمی، اشفاق احمد اور احمد بشیر وغیرہ چند بڑی مثالیں ہیں۔
ایک فلم، صرف الفاظ و بیاں کا کھیل نہیں ہوتی بلکہ فنون لطیفہ کے جملہ فنون کا ایک حسیں امتزاج ہوتی ہے جس کے لیے ایک ذہین ہدایتکار کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک کامیاب ہدایتکار کے لیے کسی اعلیٰ تعلیمی ڈگری کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ یہ شخصی قابلیت ہوتی ہے جو ایک ان پڑھ یا نیم خواندہ شخص میں بھی ہوسکتی ہے، بھارتی ہدایتکار محبوب اور پاکستانی ہدایتکار اقبال کاشمیری اس کی بہترین مثالیں ہیں۔۔!
ظہیر کاشمیری کا فلمی کیرئر
دستیاب معلومات کے مطابق، ظہیر کاشمیری نے اپنے فلمی کیرئر کا آغاز بطور نغمہ نگار، تقسیم سے قبل لاہور میں بننے والی ہندی/اردو فلم راگنی (1945) سے کیا تھا۔ ان کا لکھا ہوا پہلا گیت "ہم دو جیون ساتھی، سونے کے پنکھ لگائیں۔۔ " تھا۔ زینت بیگم اور باتش نے موسیقار پنڈت امرناتھ کی دھن میں اس گیت کو گایا تھا۔ ہدایتکار شنکر مہتہ کی اس رومانٹک فلم کے ہیرو نجم الحسن تھے جو فلم ہیررانجھا (1970) میں فردوس کے باپ کے رول میں تھے۔
ظہیر کاشمیری نے گیت نگار کے طور پر فلم کہاں گئے اور آج اور کل (1947) کے علاوہ لاہور میں بننے والی ہندی/اردو فلم فرض (1947) کے جملہ گیت بھی لکھے تھے۔ موسیقار ایس کے ساگر کی دھنوں میں دو گیت، ان کے انداز فکر کی ترجمانی کرتے ہیں، جن میں "بتا اے کاتب قسمت، لکھا کیا بدگمان ہوکر۔۔ " اور "اس دیش کے جوانوں کو اب آزمایا جائے گا۔۔ " قابل ذکر ہیں۔ اس فلم کا سکرین پلے بھی کا لکھا ہوا تھا۔
فلم فرض (1947) میں پاکستان کے پہلے سپرسٹار ہیرو سدھیر کو متعارف کرایا گیا تھا اور ان کی ہیروئن معروف اداکارہ راگنی تھی جو تقسیم سے قبل لاہور میں بننے والی بیشتر فلموں میں ہیروئن کے طور پر نظر آتی تھی۔
قیام پاکستان سے پہلے انھی چار ریلیز شدہ فلموں کار ریکارڈ ملتا ہے جبکہ متعدد فلمیں فسادات کی نظر ہوگئی تھیں۔
تقسیم کے بعد ظہیر کاشمیری کی پہلی فلم طوفان (1955) تھی جس میں موسیقار بابا جی اے چشتی نے ان سے ایک گیت لکھوایا تھا "بوجھو رے، میرے من کی بات کو بوجھو رے۔۔ "
فلم انجام (1957) کی کہانی، مکالمے اور سکرین پلے بھی لکھے تھے جبکہ فلم شیخ چلی (1958) کے مکالمے اور گیت لکھے تھے۔ ان کے علاوہ فلم لال رومال، ہیرسیال (1965)، غیرتمند، خون ناحق (1969) اور ڈیراسجناں دا (1970) میں گیت نگاری کی تھی۔ یہ حتمی اعداد و شمار نہیں ہیں۔
ظہیر کاشمیری نے مسعود رانا کے لیے بھی دو گیت لکھے تھے جن میں سے پہلا گیت، پنجابی فلم غیرت مند (1969) میں تھا "بھل گئیوں قول تے قرار وے، تینوں ترس نہ آیا۔۔ " بخشی وزیر کی دھن میں مسعود رانا کے ساتھ نسیم بیگم اور آئرن پروین تھیں۔
دلچسپ بات یہ تھی کہ اردو فلم خون ناحق (1969) میں اسی ٹیم کا دوسرا گیت بھی ملتا ہے "درد کی تصویر بن کے رہ گئی زندگی۔۔ " یہ گیت رانی اور عالیہ کے علاوہ اداکار سکندر پر بھی فلمایا گیا تھا جو ایک دراز قد اداکار تھے اور ساٹھ کی فلموں میں نظر آتے تھے۔ فلم اپنا پرایا (1959) میں ان کا ایک غائب دماغ پروفیسر کا کردار یادگار تھا۔
فلم ہیرسیال (1965) میں مسعود رانا کے گائے ہوئے شاہکار گیت "لوکو، ایویں نئیں جے یار دا نظارا لبھدا۔۔ " کے بارے میں شک ہے کہ وہ بھی ظہیر کاشمیری کا لکھا ہوا ہے۔
ظہیر کاشمیری نے متعدد غیر فلمی گیت اورغزلیں بھی لکھی تھیں جن میں استاد امانت علی خان کی گائی ہوئی یہ سپرہٹ غزل ناقابل فراموش ہے
موسم بدلا، رت گدرائی، اہل جنوں بے باک ہوئے
فصل بہار کے آتے آتے، کتنے گریباں چاک ہوئے
پیرزادہ (غلام دستگیر) سے جس دن وہ ظہیر کاشمیری ہوئے تھے اور انھوں نے محنت کشوں کے نظریہ و عمل سے وابستگی اختیار کرکے سرخ چوغہ پہنا تھا اس دن سے لیکر دم اخیر تک وہ اسی نظریہ و عمل سے وابستہ رہے۔ انھوں نے لیاقت علی خان کے دور سے لیکر جنرل ضیاء الحق کے دور تک مصائب برداشت کیے۔ جنرل ضیاع الحق کے دور میں قید و بند کی صعوبت کاٹی لیکن ان کے پایہ استقلال میں کوئی لرزش دیکھنے میں نہیں آئی اور کسی حاکم سے انھوں نے اپنی جدوجہد کا انعام لینا پسند نہیں کیا۔ ان کی وفات کے بعد پی پی پی کی حکومت نے ان کو صدارتی حسن کارکردگی کے ایوارڈ سے نوازا۔ میرا خیال ہے کہ اگر ان کی زندگی میں انھیں اس کی پیشکش کی جاتی تو اسے لینے سے انکار کر دیتے۔
نئی نسل کے لوگوں کے لیے ظہیر کاشمیری جیسے لوگوں کی زندگی امید اور جوش کا پیغام ہے کہ بے ضمیری، موقعہ پرستی کی لہر کتنی ہی شدید کیوں نہ ہوجائے ضمیر کو زندہ رکھا جائے۔