Wednesday, 15 January 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Aamir Hussaini
  4. Comrade Zawar, Chand Yaadein

Comrade Zawar, Chand Yaadein

کامریڈ زوار، چند یادیں

مجھے ابھی ابھی اطلاع ملی کہ کامریڈ زوار حسین انتقال کر گئے۔ اس اطلاع نے طبعیت کو اداس اور دل کو دکھی کیا۔ وہ کافی عرصہ سے ٹی بی اور یرقان سے نبرد آزما تھے اور اس سال تو ان کی بیماری میں شدید اضافہ ہوگیا تھا۔ ان کی فون کال مجھے اکثر وبیشتر موصول ہوتی اور وٹس ایپ وائس میسج و برقی پیغامات تو ملتے ہی رہتے تھے۔ لیکن اس سال ان کے آخری چند مہینوں میں ان کی کالز میں طویل وقفے آنے لگے تھے۔ کبھی کبھار وٹس ایپ وائس میسجز ملتے جن میں وہ اپنی بیماری کی شدت پکڑ جانے کا ذکر کرتے۔۔ آواز میں نقاہت ہوتی اور کہتے کہ انہیں لکھنے میں سخت دشواری کا سامنا ہے۔

ان کا آخری تحریری میسج مجھے 23 نومبر 2024ء کو ملا، انھوں نے وحید مراد کی برسی پر لکھا اپنا مضمون مجھے ارسال کیا تھا۔ دسمبر کے دوسرے ہفتے میں مجھے ان کی ایک کال موصول ہوئی جس میں انھوں نے مجھے کہا، کامریڈ! لگتا ہے کہ جانے کا وقت اگیا ہے۔ امید ہے آپ جیسے اس کے سینئر انکلز اس کی سرپرستی جاری رکھیں گے اور اس کا حوصلہ بڑھاتے رہیں گے۔ میں نے انہیں کہا کہ انہیں فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، سبط حسن ایک باشعور نظریاتی ساتھی بن چکا ہے اور اسے اپنی راہ خود بنانا آتی ہے اور وہ ہم سب کے آدرش کو آگے لیکر جائے گا اور جو ہم نہ دیکھ سکے اس انقلاب کا سویرا اس کی نسل ضرور دیکھے گی۔ آج 24 دسمبر ہے اور کامریڈ زوار امید پرست سوچ کے ساتھ ہمیشہ کے لیے امر ہوگئے ہیں۔ میرا دل ان کی لازوال سیاسی جدوجہد اور قلمی خدمات کے سبب احترام کے جذبوں سے بھرا ہوا ہے۔

کامریڈ زوار کو پہلی بار میں نے فیصل آباد میں ایک احتجاجی کیمپ میں دیکھا تھا جہاں وہ "زنجیر" نام کا ایک رسالہ تقسیم کر رہے تھے اور پھر میں نے انہیں بہت عرصے بعد جنرل مشرف کی آمریت کے زمانے میں راولپنڈی میں ہونے والی ایک سوسلسٹ کانگریس میں دیکھا جہاں وہ اپنی اہلیہ، اپنے بیٹے اور بیٹیوں کےساتھ آئے ہوئے تھے۔ ان دنوں لاہور سے نکلنے والے ایک فلمی میگزین میں کام کر رہے تھے۔ پھر میری ان سے اگلی ملاقات قلعہ گوجر سنکھ میں ہوئی جہاں وہ ایک مکان کی اوپر والی منزل کرائے پر لیکر رہ رہے تھے۔

میں ہوٹل میں ٹھہرنا چاہتا تھا لیکن انہوں نے مجھے بصد اصرار اپنے گھر ٹھہرانے کی کوشش کی جب میں رضامند ہوتا دکھائی نہیں دیا تو انہوں نے اچانک ایک ایسا فقرہ کہا کہ میں آکے کچھ بول نہ سکا اور وہیں ٹک گیا۔ انہوں نے کہا تھا، "کامریڈز کے گھر، گھر نہیں کمیون ہوتے ہیں، جو سب کی مشترکہ رہنےکی جگہ ہوتے ہیں، جہان وہ انقلاب کی جدوجہد میں آرام کے وقفے میں قیام کرتے ہیں اور پھر تازہ دم ہوکر دوبارہ جدوجہد کرنے نکل جاتے ہیں"۔

میں پانچ دن اور پانچ راتیں وہاں رہا۔ اس دوران ہم دونوں نے اندرون لاہور شہر کی سڑکیں ماپیں، ہم خیال ساتھیوں سے ملے۔ یہ عید کی چھٹیوں کے دن تھے۔ رات کو سبط حسن اور اس کے کئی دوست بھی آجاتے تھے۔ جبکہ اس دوران فیصل آباد سے کامریڈ شاہد مرشد اور ایک اور ساتھی بھی وہاں آگئے۔ پہلی بار مجھے کامریڈ زوار کو اچھے سے جاننے کا موقعہ ملا۔ انھوں نے اپنے خاندان کی دلچسپ تاریخ اور سکھ مت سے اس کے رشتے کی کہانی بھی سنائی۔ شوبز سے اپنے شغف اور پھر بطور صحافی شوبز انڈسٹری سے وابستہ ہوجانے کے بارے میں بھی بتایا۔ ایک شام طارق طافو بھی ان کے گھر آئے جن سے سبط حسن گٹار بجانا سیکھ رہا تھا۔ طارق طافو نے اس رات ہمیں گٹار پر فیض صاحب کی غزلوں پر کمپوزڈ دھنیں سنائیں۔ میری فرمائش پر انھوں نے پیلو راگ بھی بجاکر اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ طارق طافو ان دنوں الحمراء آرٹس کونسل میں میوزک کی کلاس بھی لے رہے تھے۔

مجھے فیصل آباد سے آئے ان کے ایک دوست کا نام بھول گیا جسے نصرت فتح علی خان سے کے ساتھ ان کے بچپن سے عنفوان شباب تک ساتھ رہنے کا اتفاق ہوا تھا۔ اس نے ان دنوں کی اپنی یادیں اتنے دلچسپ انداز میں سنائیں کہ سماں باندھ دیا۔ زوار کو خود بھی موسیقی، تھیڑ، ڈراما اور فلم سے بہت شغف تھا۔ انہیں برصغیر ہند کے فلمستان کی پوری تاریخ ازبر تھی۔ پاکستانی فلم انڈسٹری کی نشیب و فراز کی تاریخ سے بھی وہ بخوبی واقف تھے۔ ایک بار میں ان کے ساتھ الحمرآہ میں موسیقی کانفرنس میں بھی شریک ہوا تھا۔۔ وہ اپنی پوری فیملی کے ساتھ لاہور میں ہونے والی سر سنگیت، تھیڑ، ڈرامے کی سرگرمیوں میں شرکت کیا کرتے تھے۔

پھر کامریڈ زوار قلعہ گوجر سنگھ سے اٹھ کر ڈیوس روڈ کی طرف جہاں روزنامہ مشرق لاہور کا دفتر ہے وہاں کالونی میں بنے کرائے کے دوسرے گھر میں منتقل ہوگئے۔ اس گھر میں بھی میرا آنا جانا رہا۔ کامریڈ زوار اور ان کی بیوی کامریڈ روبینہ دونوں پیشہ صحافت سے وابستہ تھے اور دونوں نظریاتی اعتبار سے انقلابی سوشلسٹ تھے اور انھوں نے اپنا انقلابی سیاسی شعور اپنے بچوں میں بھی منتقل کیا تھا جس کے آثار ان میں دیکھنے کو ملتے تھے۔

کامریڈ زوار نے پاکستان پیپلزپارٹی سے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا تھا اور وہ پیپلزپارٹی کی تاسیس میں شامل سوشلسٹ نظریات سے جڑی پارٹی کے اندر بائیں سمت جھکے رجحان سے وابستہ تھے اور یہ رجحان پی پی پی میں آہستہ آہستہ زوال پذیر تھا اس کا پارٹی کے اندر لیفٹ اپوزیشن کی تعمیر میں کردار کم ہوتا جا رہا تھا کیونکہ پیپلزپارٹی میں بائیں بازو کا رجحان رکھنے والا اب کوئی فعال سوشلسٹ سیاست دان موجود نہیں تھا۔

شیخ محمد رشید اپنی عمر اور پارٹی کی مرکزی قیادت کی گریزپائی کے سبب اب کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے جبکہ ملک کے دیگر حصوں سے بھی پارٹی میں سوشلسٹ رجحان کی نمائندہ آوازوں میں سے کئی ایک نے اپنا رخ بدل لیا تھا۔ ایسے میں کامریڈ زوار جیسے درجنوں کارکن جو بائیں بازو کی روایت سے جڑے تھے نے اپنے آپ کو بڑی مشکل میں پاتے تھے۔ پارٹی میں دیہاڑی بازوں، نوکریاں بیچنے والوں، فراڈ کرنےوالوں اور داؤ لگانے والوں کا کلجر پھل پھول رہا تھا۔ شاید وہی وقت تھا جب یورپ سے جلا وطنی ختم کرکے اور سزائیں معاف ہونے پر پی پی پی سے وابستہ بائیں بازو کے ساتھیوں کا ایک گروپ پاکستان آیا۔

اس گروپ نے پاکستان پیپلزپارٹی میں سوشلسٹ روایت کے احیاء کے لیے کام کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس گروپ نے خود کو "جدوجہد" کے نام سے منسوب کیا۔۔ یہ گروپ جس کی قیادت اس وقت ڈاکٹر تنویر گوندل، فاروق طارق، شعیب بھٹی کر رہے تھے اصل میں یورپ کے اندر جلاوطنی کے دنوں میں ٹراٹسکی کے نظریات کے گرد بننے والی چوتھی انٹرنیشنل کے سے ٹوٹ کر الگ ہونے والے گروپ انٹرنیشنل مارکسسٹ ٹینڈنسی۔۔ آئی ایم ٹی سے جڑ گیا تھا جس کی قیادت اس زمانے میں ایلن ووڈ اور ٹیڈ گرانٹ کر رہے تھے۔

پاکستان میں بھی انھوں نے آئی ایم ٹی کا سیکشن قائم کیا اور پاکستان پیپلزپارٹی کے اندر سوشلزم کی روایت کو زندہ کرنے کا فریضہ سنبھالا۔ جدوجہد گروپ نے اپنا ایک رسالہ "جدوجہد" کے نام سے ناکالا جس کی پیشانی پر لکھا ہوتا تھا "پیپلزپارٹی میں سوشلزم کی آواز"۔ پی پی پی کے بائیں بازو سے جڑے کارکنوں کی ایک بڑی تعداد کو اس گروپ میں بڑی کشش محسوس ہوئی اور انہیں یوں لگا کہ جیسے انھیں پارٹی کے اندر بائیں بازو کی سیاست کو زندہ رکھنے کے لیے ایک مرکز مل گیا ہے۔ زوار اور میں بھی انہی کارکنوں میں شامل تھے اگرچہ میں ٹراٹسکائیٹ ازم سے کہیں زیادہ مارکسزم کی مارکسی۔ لیننی روایت کے قریب ہی رہا اسی لیے اس گروپ کی این سی یا ریجنل برانچ میں، میں نے کبھی کوئی ھمہ داری نہ لی۔

ہم اس گروپ میں ساتھ چلتے رہے یہاں تک کہ میں کامریڈ فاروق طارق، شعیب بھٹی اور دیگر ساتھیوں کی اس بات سے متفق ہوگیا کہ "انٹر ازم" کی حکمت عملی سے پاکستان میں بائیں بازو کی سیاست کی تعمیر ممکن نہیں رہی ہے اور میں "جدوجہد" کے انٹرازم کی مخالفت گرنے والے گروپ کے ساتھ شامل ہوگیا۔ یوں "جیت" گروپ کی تشکیل سے آخر کار "لیبر پارٹی پاکستان" کی تشکیل اور اس میں جدوجہد کے دوران میری سیاسی راہیں "پاکستان پیپلزپارٹی" سے جدا ہوگئیں۔ لیکن جنرل مشرف کے دور میں جب لیبر پارٹی پاکستان سمیت بائیں بازو کے چند گروپوں نے مل کر "عوامی تحریک" کے نام سے لیفٹ الائنس بنایا اور اس الائنس کا میں پنجاب کا کنوئنر بنا تو اس الائنس نے اے آر ڈی کی بجائے اے پی ڈی ایم میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا جس سے مجھے شدید اختلاف تھا اور مجھے عدلیہ بحالی تحریک بارے بھی شدید تحفظات تھے تو میری راہیں لیبر پارٹی پاکستان سے جدا ہوگئیں اور میں واپس پاکستان پیپلزپارٹی میں آگیا اور یوں زوار اور میں پھر ایک ہی پارٹی میں اکٹھے جدوجہد کرنے لگے۔

اگرچہ اب میں نے "طبقاتی جدوجہد" کو جوائن نہیں کیا تھا جبکہ زوار اسی گروپ میں شامل تھے۔ اس دوران زوار سے میری پارٹی کے اندر سوشلسٹ اپوزیشن ونگ کی تعمیر کے سوال پر کافی مرتبہ بحث بھی ہوئی۔ اگرچہ اب میں پارٹی کے اندر ایک آزادانہ لیفٹ اپوزیشن ونگ کی تعمیر کا حامی تھا۔ اس دوران میں کسی ایسے گروپ کی تلاش میں تھا جسے میر پیپلزپارٹی میں کام کرتے رہنے پر اعتراض نہ ہو اور وہ فرقہ پرستانہ تنگ نظری کا شکار بھی نہ ہو۔ ایسا ایک چھوٹا سا گروپ مجھے "انٹرنیشنل سوشلسٹ" کا نظر آیا جس کا مضبوط مرکز کراچی میں تھا اور اسے کراچی یونیورسٹی کے استاد ڈاکٹر ریاض احمد چلا رہے تھے۔ وہ "سوشلسٹ" کے نام سے ایک رسالہ بھی نکالتے تھے۔ میں اس گروپ سے وابستہ ہوگیا اور ابھی تک اسی گروپ سے وابستہ ہوں۔

کامریڈ زوار بعد ازاں طبقاتی جدوجہد سے چوہدری مںطور احمد کی قیادت میں الگ ہونے والے گروپ میں شامل ہوگئے۔ بعد ازاں چوہدری منظور احمد کی اپنی دلچسپی اس گروپ کو چلانے میں نہ رہی تو عملا اس گروپ کا وجود ختم ہوگیا۔ خود آئی ایم ٹی گروپ کے اندر نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد نے انٹرازم کو مسترد کرتے ہوئے آزادانہ طور پر پاکستان میں ایک انقلابی سوشلسٹ پارٹی کی تعمیر کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے آئی ایم ٹی کا الگ سیکشن پاکستان میں بنایا۔ اس سے طبقاتی جدوجہد گروپ جس کی قیادت ڈاکٹر تنویر گوندل لال خان کر رہے تھے وہ اپنے آپ کو زندہ رکھنے کے لیے اتنا مجبور ہوئے کہ جسے وہ لبرل این جی او نائزڈ لیفٹ او پوسٹ ماڈرنسٹ لبرل کہتے تھے ان کے ساتھ شامل ہوکئے اور تادم مرگ وہیں رہے۔

دیکھا جائے تو یہ ایک طرح سے پاکستان پیپلزپارٹی میں سوشلزم کی روایت کو زندہ کرنے کے اس پروگرام کی تباہی کا اعلان تھا جس کا آغاز 1989ء میں بہت جوش اور امید کے ساتھ کیا گیا تھا۔ آج آئی ایم ٹی جو بین الاقوامی سطح پر اپنے آپ کو "انٹرنیشنل انقلابی کمیونسٹ " کہلواتی ہے اس کا پاکستان سیکشن " انقلابی کمیونسٹ پارٹ" کے نام سے اب ازادانہ جماعتی سیاست کر رہا ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی میں سردست سوشلزم کی تعمیر کی کوئی تحریک موجود نہیں ہے۔ 2013ء سے گزشتہ سال تک انٹرنیشنل بھٹو فاوئںڈیشن، پیپلز ڈیموکریٹک فورم کے نام سے گجھ کوششیں ہوئیں جن کا میں بھی حصّہ رہا اور زوار بھی ان کوششوں کو ہمدردی کی نگاہ سے دیکھتے تھے لیکن یہ سب کوششیں موقعہ پرستی، دیہاڑی بازی اور کیرئرسٹ رجحانات کی نذر ہوگئیں۔

پی پی پی نے پی ڈی ایم ون کی حکومت میں شامل ہونے، پھر اس کے بعد سے ریاست کی جانب سے مسلسل سیاسی، شہری آزادیوں اور انسانی حقوق کی سنگین ترین خلاف ورزی اور عوام دشمن معاشی ایجنڈے کے باوجود حکومت میں رہنا پسند کیا۔ اس کے بعد اس نے جس طریقے سے بلوچستان میں حکومت بنائی اور بلوچ عوام کے قاتلوں کو پیپلزپارٹی کا نام دیا اور بدترین دھاندلی جو خود پی پی پی کے خلاف بھی ہوئی اس پر خاموشی اختیار کی اور ایک کٹھ پتلی وفاقی حکومت کی تشکیل میں مدد کی اور بدلے میں دو صوبوں کی گورنر شپ اور ایک صوبے کی سیاسی یتمیوں کی حکومت کو اپنا نام دیا اس نے پیپلزپارٹی کو سنٹر لیفٹ لبرل ڈیموکریٹک درجے سے گراکر اسے اسٹیٹس کو برقرار رکھنے والی سرمایہ دار پارٹی کے درجے پر پہنچادیا۔

اس پارٹی کی اب محنت کشوں اور غریب کسانوں ہاریوں میں بھی حمایت بہت کمزور ہے۔ اسے اب سرمایہ دارانہ جمہوری لڑاکا پارٹی بھی نہیں کہا جاسکتا۔ ایسے ماحول میں پیپلزپارٹی جن کا پہلا اور اخری عشق رہی ہو ان کے لیے اس سے بڑے صدمے کی بات کوئی اور نہیں ہوسکتی۔

کامریڈ زوار اپنے آخری ماہ و سال میں اسی دکھ اور بے گانگی کا شکار تھے۔ پیپلزپارٹی کا وہ ماضی جو ان کا اور مجھ جیسے ہزاروں لاکھوں کارکنوں اور حامیوں کا ماضی بھی ہے جس میں ہماری لڑائی ملک سے ضیاء الحقی آمریت اور اس کی باقیات کے خاتمے کے لیے ہی نہیں تھی بلکہ پیپلزپارٹی کو محنت کشوں کی ایک حقیقی لڑاکا پارٹی میں بدلنے کے لیے بھی تھی جس کی قیادت میں ہم پھر "عوامی راج" کو واپس لانا چاہتے تھے ہمارے حال کی "سیاسی لائن" کو اختیار کرنے کے راستے میں بہت بڑی رکاوٹ بن گیا تھا۔

اس ملک کے طبقاتی شعور سے مالا مال چند سو نوجوانوں نے تو اپنی راہ متعین کرلی ہے جبکہ پیٹی بورژازی نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد اس وقت دائين بازو کے پاپولزم میں پھنسی ہوئی ہے۔

محنت کش نوجوانوں جو کروڑوں ميں ہیں سیاسی بے گانگی کا شکار اور سیاست سے دور ہیں ان کو بیدار کرنا اور طبقاتی شعور سے مسلح کرنا ہی آج کی انقلابی سیاست ہے۔

یہ صورت حال کامریڈ زوار جیسے ساتھیوں کے لیے کافی مایوس کن تھی۔ اس سب کے باوجود زوار کامریڈ نے "انقلابی سیاسی نظریے" اور اس کی تاریخ کی موت کا اعلان نہیں کیا اور نہ ہی انقلابی آدرش سے دست بردار ہوئے۔ وہ موقعہ پرست نہین بنے اور اپنی کوششیں جاری رکھیں۔

انہیں ان کی اولاد نے بھی مایوس نہيں کیا۔ سبط حسن جو ان کے بیٹے ہیں بائیں بازو کی انقلابی سوچ سے مسلح ہیں۔ با صلاحیت آرٹسٹ اور فنکار ہیں اور نوجوان طلبآء میں ترقی پسند سوچ کی آبیاری کے لیے سرگرم ہیں۔

زوار حسین کامریڈ اور ان کی شریک حیات کامریڈ روبینہ اپنی انقلابی جدوجہد کے سبب امر ہوگئی ہیں۔ ہم سب انہیں سرخ سلام پیش کرتے ہیں۔

Check Also

Zamano Ki Awaz

By Ali Akbar Natiq