Mulk e Khudadad Aur Apna Kirdar
ملک خداداد اور اپنا کردار
جو بات حق ہو، وہ مجھ سے چھپی نہیں رہتی
خدا نے مجھ کو دیا ہے دل خیبر و بصیر (اقبال)
ہر دور میں لفظوں کی روانی، چرب زبانی اور دوسروں کو کم تر اور گھٹیا کے الفاظ نے حشر بپا کر رکھا ہے۔ دیکھنے والوں کی آنکھوں میں دھول، سننے والوں کی سماعت کو وہم اور حقیقت کو جادوئی رنگ دنیا فنون انسانی میں مہارت رکھنے والوں کے لئے کوئی انوکھی بات نہیں۔ دوسروں کو ظالم، فاسق و فاجر اور بد دیانت کے القاب سے یاد کرنا کتنا ارزاں اور آسان دکھائی دیتا ہے۔ نفس کے پیمانے جانچنے کے آلات یعنی ضمیر مردہ اور افسردہ ہو کر فریب انسانی کا ماتم کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
76 سال بیت گئے ہم قوم بن کر نہ اُبھر سکے، ہمارے اقوال و افعال آپس میں الجھتے اور شرمندہ و ندامت سے کہیں غائب ہو گئے، ہم نے قوم بننے کیلئے اچھائی اور ترقی کو پس پشت ڈال کر ظلم وزیادتی کا لبادہ اوڑھ لیا۔ اصلیت کا روپ اپنانے کی بجائے بہروپیے کے کردار بدل بدل کر سامنے آنے لگے۔ ہم میں سے ہر شخص اپنے حق کو لازم اور فرض عین سمجھتا ہے مگر کیا کبھی کسی نے سوچا اس وطن کی آغوش میں زندگی کے شام وسحر گزارنے کے لئے اس نے کتنے فرائض کو پایہ تکمیل تک پہنچایا ہے۔ کیا ہمارا فرض تھا کہ ہم لوگوں کی جانوں سے کھیلنے کے لئے ملاوٹ کا دھندا کرتے۔
آج کتنی ہی بیماریاں جو انسانوں کو موت کے منھ میں دھکیل دیتی ہیں کیا وہ ملاوٹ کا سبب نہیں۔ چند ٹکوں کے عوض اپنی زندگی کو عارضی جنت میں تبدیل کرنے کی غرض سے دوسروں کی زندگی کو جہنم میں دھکیل دیا ہے۔ کتنی ملاوٹی اشیاء نے ہسپتالوں کو پر رونق ہجوم میں تبدیل کیا کیا ہمارا یہ کردار ہے اپنے ملک کو عظیم سے عظیم تر بنانے میں بحثیت پاکستانی قوم برائیوں کا مجموعہ بن کر سامنے آئے ہیں۔
گذشتہ اقوام میں اگر دیکھا جائے تو صرف ایک گناہ، عیب ظلم اور بری عادت ملے گی اور ہم نے تمام کو اکٹھا کرکے یکجا کر لیا۔ کسی ایک شعبہ کو بھی آپ اس ناسور (ملاوٹ) سے پاک اور مبرا قرار دینے سے قاصر ہیں۔ کیا یہ دین کی تعلیمات کے برعکس نہیں۔ کیا عبادات کو دین قرار دے رکھا ہے۔ یادرکھیں! عبادت کا تعلق آپ کی ذات اور مالک کائنات کا معاملہ ہے۔ مگر مخلوق خداوندی کا معاملہ نا قابل معافی گناہ ہے۔ جس نے ہمارے ملک کو کھوکھلا اور بیکار کر دیا ہے۔ ملاوٹ سے نہ صرف ایک فرد متاثر ہوتا ہے بلکہ اجتماعی تشخص پر قدغن لگتا ہے۔ کیا ہم نے غور کیا ہے کہ ہم آنے والی نسل کو کیا درس دے رہے ہیں؟
باپ اگر برائی پر کار بند ہے تو بیٹے کو وہ فارمولے از بر کروائے گا کہ میرے مرنے کے بعد یہ مشن ختم نہ ہو جائے۔ ہم قانون و انصاف کی بات کرتے ہیں سوچیے گا کے آپ سگنل پر کھڑے ہو کر قانون کے رکھوالے صرف اس وقت بنتے ہیں جب قانون نافذ کروانے والے موجود ہیں۔ جان بوجھ کر کمزور اور مظلوم کو انصاف تک دادرسی نہیں۔ کیا یہ کردار ہے کہ آپ طاقت کے بل بوتے پر ہر شے کوزیروز بر کرتے جاؤ۔ ارسطو نے کہا تھا "جو معاشرہ عدل و انصاف کی بنا پر قائم کیا جائے اس میں تمام افراد کے اخلاق خود بخو دسنور جاتے ہیں دوسری طرف جس معاشرے میں نا انصافی ہوگی وہ نصیحت، تقریر لیکچر، سے افراد کے اخلاق کو بہتر کرنے کی تمام کوششیں بے کار ثابت ہوں گی"۔ مگر آج وعظ وارشاد سننے اور بولنے کی حد تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔
ہم نے تو انصاف کی دھجیاں بکھیر ڈالی۔ ریڑھی والے نے کم تول کر اپنا کردار ادا کیا، کسی نے ذخیرہ اندوزی کرکے، کسی نے مجبوریوں کا فائدہ اٹھا کر غریب کا گھر تک ہتھیانے کا منصوبہ بنایا رشوت شانی کے بازار کو گرم کرے اور اسے جائز قرار دے کر ظلم کی حمایت کا اعلان کیا۔ کسی نے کارخانے اور فیکٹریاں چلانے کے لئے براہ راست بجلی کے حصول کو اپنے لئے لازم قرار دیا تا کہ پاکستان دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرے اور اس کا شمار ایتھوپیا، صومالیہ جیسے ترقی یافتہ ممالک میں ہونے سے پیچھے نہ رہ جائیں کسی نے سوچا ہمارا 76 سال سے انفراسٹرکچر مکمل نہیں ہورہا صرف لاہور کو ہی دیکھ لیں ہر آنے اور جانے والی حکومت سڑکوں اور نالوں کی کھدائی پر ووٹ کے بینرز آویزاں کرتی دکھائی دے گی۔
ہم من حیث القوم خود کو بدلنے کے لئے کسی صورت تیار نہیں۔ شاید ہماری جغرافیائی حدود اور خطہ کا قصور ہے یا ہم نے خود کو ہر چیز سے مبرا اور آزاد سمجھ رکھا ہے۔ غلطی کی اصلاح اس وقت ممکن ہے جب غلطی کو تسلیم کیا جائے۔ جب غلطی پر ضد اور انا کے مینار کھڑے کر دیئے جائیں تو اصلاح قوم تو دور کی بات اصلاح فرد ممکن نہیں رہتا۔ ساحر نے کہا تھا۔
ہم نے ہر حال میں جینے کی قسم کھائی ہوئی ہے
اب یہی حال مقدر ہو تو شکوہ کیوں ہو