Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mubashir Saleem
  4. Tareekh e Lahore

Tareekh e Lahore

تاریخ لاہور

لاہور کی تاریخ پر لکھی گئی سب سے مستند کتاب جس کا دیباچہ 1875 میں لکھا گیا لیکن چھپ کر لوگوں کے پاس 1884 میں آئی۔ ایک دو نئے ایڈیشن میں کتاب کی معلومات میں اضافہ کیا گیا۔

یہ کتاب ہے لال بہادر کنہیا لال ہندی کی تاریخ لاہور۔ جو برٹش راج میں اسٹنٹ انجینئر بھرتی ہوئے اور سپرٹنڈنٹ انجینئر کے عہدے سے ریٹائرڈ ہوئے تھے۔ گورنمنٹ کالج منٹگمری ھال این سی اے میو ہسپتال سمیت بیسیوں عمارتیں ان کے عہد ملازمت کی نشانیاں ہیں۔ اردو فارسی زبان کے شاعر بھی تھے۔ ہیر رانجھا کو فارسی زبان میں منتقل کیا۔ بغاوت ہند کے موضوع پر بھی ایک کتاب لکھی۔ ان کی تاریخ پر لکھی ایک اور کتاب تاریخ پنجاب نے کافی شہرت پائی تھی۔

تاریخ لاہور کے تمہیدی صفحات دلچسپ نہیں ہیں۔ لاہور شہر کا نام کیسے نکلا اور اس کی ابتدائی تاریخ اور پرانی املا قاری کو تھوڑا اکتاہٹ کا شکار کر دیتی ہے۔ لیکن لاہور شہر سے بات شروع کرکے بات جب مشہور دروازوں اور ان کے تعارف تک پہنچتی ہے۔ تو کتاب آپکی بھرپور توجہ حاصل کرلیتی ہے۔ لاہور کی تاریخ میں پیش آنے والے اہم واقعات سے بات شروع ہوکر لاہور پر آنے والے مشکل وقت کو تیرہ ادوار میں تقسیم کرکے لاہور پر اترنے والی بیرونی حملہ آوروں کی صورت میں افتاد پر تفصیلی گفتگو ملے گی۔ یہیں پر لاہور میں آباد لوگوں کے پس منظر بارے ذکر ملے گا۔

لاہور شہر سے شائع ہونے والے مجلے اخبارات لاہور شہر کے پرنٹنگ پریس حکیم کیلیگرافر طوائفوں پر نوٹس ملتے ہیں۔ مذہبی سکالرز اور شاعروں بارے بھی ذکر ملتا ہے۔ شہر کے حکیموں اور ڈاکٹروں کی فہرست بھی ملے گی۔ ابتدائی ابواب میں لاہور شہر کی بہتری کیلئے کی گی کوششوں میں پانی کی فراہمی کے حوالے سے پہلی کوشش کی ناکامی سے ہونے والے نقصان اور اسباب کا ذکر ملتا ہے۔ لاہور شہر کے انتظامی ڈھانچے کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ شہر کے ممتاز مسلمان اور ہندو روسا اور فیملیوں کا تعارف بھی تفصیل سے لکھا گیا ہے۔

دوسرے حصے میں لاہور شہر کی آبادی کے پھیلائو کے بعد آباد ہونے والے مشہور محلوں کا ذکر ملتا ہے۔ ان کی تاریخ اور ان کو کس نے بسایا تھا۔ موضع مزنگ مغل پورہ محلہ گنج سمیت بہت سے محلوں کا ذکر ملے گا۔ اپکو میانی گائوں بارے بھی تفصیل سے جاننے کا موقع ملے گا۔

تیسرے حصے میں شہر کی اہم عمارتوں بارے ذکر ہے۔ جس میں ہندوئوں مسلمانوں کے تمام مذہبی مقامات سے لیکر حویلیوں مقبروں مزاروں باغوں تاریخی عمارتوں کی ناصرف فہرست بلکہ ان سے منسلک تاریخ اور واقعات کو بھی جمع کیا ہے۔ آخری حصہ میں انگریزوں کے عہد میں تعمیر ہونے والی عمارتوں کا ذکر ہے۔ یہ حصہ تاریخ سے زیادہ انجیئنرنگ کا احوال زیادہ ہے۔

مغل عہد کی تاریخی یادگاروں اور مقبروں بارے بار بار پڑھنے کو ملے گا سکھوں کے عہد میں کیسے ان کو برباد کر دیا گیا۔ ان کی اینٹوں سے لوگوں نے اپنے مکان اور حویلیاں کھڑی کیں۔ گولڈن ٹیمپل اور اپنی عمارتوں کیلئے مقبروں اور عمارتوں سے قیمتی پتھر اور سنگ مرمر کب کب چرایا۔ صرف حضوری باغ کی تعمیر کیلئے زیب النسا کے مقبرے سمیت کتنی عمارتوں سے پتھر چرایا گیا۔ شالیمار باغ کو کتنا برباد کیا گیا اور کتنے ایسے باغ جن کا وجود ہی ختم کر دیا گیا تھا۔

کتاب محض لاہور شہر کی عمارتوں یا تاریخی مقامات کا انسائکلوپیڈیا ہی نہیں ہے بلکہ ہر عمارت سے جڑی تاریخ کا ایک صفحہ بھی۔

لاہور شہر کے گرد سکھوں نے گہری خندق کھود رکھی تھی جس میں نہر چلتی تھی۔ انگریزوں نے اسے مٹی سے بھر کر باغات لگوا دیئے۔ ساتھ شاہ شجاع جو افغانستان سے شکست کھا کر لاہور پناہ گزیں ہوا تو مبارک حویلی اترا اور یہیں پر رنجیت سنگھ نے اس سے کوہ نور ہیرا چھینا تھا۔

مزار اسحاق گاذرونی کا ذکر آیا تو موراں طوائف اور رنجیت سنگھ کی توبہ والا قصہ پڑھنے کو ملے گا۔ کھڑک سنگھ کی حویلی کا نوحہ پڑھا جائے گا تو اس کی مذہبی رواداری کو یاد کیا جاتا ہے جب اس نے مسجد کی خاطر اپنی حویلی کا نقشہ تبدیل کردیا تھا۔ حضوری باغ کے ذکر میں اس کے تہہ خانوں اور غلام گردشوں کا ذکر پڑھنے کو ملے گا۔ سمادھی حقیقت رائے کے ساتھ جڑا قصہ جس میں اسے گستاخی رسول پر سزائے موت دی گئی۔ مسجد موراں کا ذکرکرتے ہوئے موراں کے نام کا سکہ پنجاب میں جاری ہونے کا قصہ کا پتا چلے گا۔

مقبرہ علی مردان کا ذکر آئے گا تو پتا چلے گا شالامار باغ کا پانی فراہم کرنے والی نہر کس نے کھدوائی تھی۔ سید بدرالدین گیلانی نے ایک محلہ آباد کیا تھا پھر وہیں دفن ہوئے۔ قبر پر شاندار مقبرہ تعمیر کیا گیا۔ بہت پررونق جگہ تھی۔ سکھوں نے لوٹ مار سے علاقہ ویران کر دیا اور ایک اکھاڑہ بنا دیا۔ انگریز آئے تو ان کو یہ جگہ پسند آگئی اور آج لاہور کا گورنر ہائوس اس مزار والی جگہ پر کھڑا ہے اور مزار اس عمارت کے اندر آج بھی محفوظ ہے۔

اگر آپ لاہور شہر کو جانتے ہیں تو یہ کتاب پڑھتے ہوئے آپ ماضی میں کھو جائیں گے۔

ضروری بات۔

یہ کتاب بھی کوئی ڈیڑھ سو سال پرانی اردو کی کتاب ہے اور اسکی املا موجودہ املا سے تھوڑی مختلف ہے۔ لیکن بہت زیادہ نہیں۔ کتاب میں آپکو "ھ" کا استعمال نہیں ملے گا۔ اس لئے آپ نے خود سے سمجھنا ہوگا۔ جیسے سکھوں کی بجائے سکہوں۔ تھا کی جگہ تہا۔ تھی کی جگہ تہی۔ بھرتی کی جگہ بہرتی، بھائی کی جگہ بہائی، اکھاڑہ کی جگہ اکہاڑہ، کوٹھی کی جگہ کوٹہی پڑھنے کو ملے گا۔

Check Also

Aag Lage Basti Mein, Hum Apni Masti Mein

By Rauf Klasra