Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mubashir Saleem
  4. Maghrib Ka Urooj Aur Hum

Maghrib Ka Urooj Aur Hum

مغرب کا عروج اور ہم

سولہویں صدی کے بعد تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ ایک طرف یورپ بیداری کیلئے کروٹ لے رھا تھا۔ اور دوسری طرف امریکہ کی دریافت کے بعد ایک نیا معاشرہ جنم لے رھا تھا جس کی بنیاد صاحب ثروت لوگ، چور اچکے، مجرم اور مہم جو افراد رکھ رہے تھےجس کی اساس فرد واحد کی بجائےاداروں پر تھی۔

ایک علم ہوتا ہے جو ہم کتابوں سے ڈھونڈتے ہیں۔ دوسرا علم ہم استاد سے حاصل کرتے ہیں۔ لیکن ایک تیسرا علم ایسا بھی ہے جو ہم سفر سے حاصل کرتے ہیں۔ لوگوں سے مل کر حاصل کرتے ہیں اور وہ علم بہت بہتر اور تیار حالت میں ہوتا جن سے نتائج اخذ کرنا آسان ہوتا ہے۔ اور امریکی معاشرے کی بنیاد ایسے ہی مہم جو افراد نے رکھی تھی۔ جن کے پاس دنیا گھوم پھر کر تجربہ بھی تھا اور وژن بھی۔۔

ایشیا کے بیشتر ممالک اپنی ضروریات کیلئے چونکہ کسی کے محتاج نہیں تھے اس لیئے وہ تیزی سے ہونے والی دنیا کی سیاسی اور فکری تبدیلی سے بے خبر رہے اور نتیجہ نوآبادیاتی نظام کا حصہ بننے کی صورت میں نکلا۔

تیسری طرف یورپ تھا جو چرچ کی گرفت میں تھا جب یورپ میں چرچ کے اثرورسوخ کو کم کرنے کی کوششیں شروع کی گئیں تو ان شعبوں کو چلانے کا مسئلہ سامنے آیا جن کی ذمہ داری چرچ نے سنبھال رکھی تھی۔ ان شعبوں کو چلانے کیلئے ادارے بنائے گئے۔ وقت کے ساتھ ادارے مضبوط ہوتے گئے۔ اختیارات فرد کےہاتھوں سے نکل کر اداروں کو منتقل ہوتے گئے اور ایک وقت ایسا آیا ہے کہ ریاستوں کا مکمل انتظام ان اداروں نے سنبھال لیا اورفرد کی اہمیت علامتی رہ گئی۔

ریاستوں کا انتظام اداروں کے ہاتھ میں جانے کے بعد ایک تو انصاف کی فراہمی ممکن ہوئی دوسرا مساوات نے عملی شکل اختیار کرنا شروع کی۔ اور انصاف اور مساوات دو ایسے خواص ہیں جو کسی بھی فلاحی معاشرے کی لیئے کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ اور یوں ان اداروں کے سہارے یورپ اپنے ڈارک ایجز سے نکل کر دنیا کے سامنے ایک مستحکم پوزیشن میں سامنے آیا۔ اتنا مستحکم کہ دو عظیم جنگیں اور شدید ترین کساد بازاری اور معاشی بحرانوں کے باوجود دنیا کی حکمرانی سے یورپ کے قدم نہیں اکھڑے۔ کیونکہ یہ سب ان اداروں کی مرہون منت تھا جو یورپ نے مستحکم کر لیے تھے۔

انصاف کا نظام ہو یا پھر پارلیمنٹ کی بالادستی، تعلیم کا شعبہ ہو یا پھر صحت کا میدان یہ وہ شعبے ہیں جنہیں ہمارے ہاں سب سے سے زیادہ نظر انداز کیا جاتاہے۔ لیکن مغرب نے ان کو خصوصی توجہ کا مرکز بنایا۔ ان اداروں نے یورپ کو اندھیروں سے نکالااور ایک نئی روح پھونکی۔ ابن خلدون کی عصبیت کی مجسم شکل یورپ کے وہ ممالک نظر آئے جو پانچ پانچ سو سال اسی "قومیت" کے چکر میں حالت جنگ میں رہے تھے لیکن جب ادارے مضبوط کر لیے تو پھر تمام تر اختلافات بھلا کر معاشی و معاشرتی ترقی پر اپنی توجہ مبذول کرلی اور ان اداروں نے لوگوں کو نا صرف ترقی دی بلکہ شعور دیااوروہ مجموعی قومی عرفان بھی جس سے آج ہمارہ معاشرہ یکسر محروم نظر آتا ہے۔

یہ ایک لمبی بحث ہوجائے گی کہ مغرب کے عروج کے پیچھے اور کون کون سے عوامل کارفرما تھے لیکن یہ بات طے شدہ ہے کہ ان سب عوامل نے اداروں کو ہی استحکام بخشا اورآج مغرب جس مقام پر کھڑا نظر آتاہے وہ ان ہی اداروں کی مرہون منت ہے۔ اور آج جس قوم نے بھی اداروں کے سہارے ملک چلانے کی کوشش کی ہے وہ ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں نظر آئیں گے۔ دبئی سمیت ایشیا کے کئی ممالک کا نام لیا جاسکتا ہے۔

Check Also

Fahash Tarkari

By Zubair Hafeez