Daur Peeche Ki Taraf Aye Gardish e Ayyam Tu
دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو
ماضی کے کچھ نقوش تخیل کے تاروں کو جب چھیڑتے ہیں تو یادیں مون سون کی تیز بارشوں کی طرح آپ کے پورے وجود کے گرد ڈیرے ڈال لیتی ہیں۔ ماضی کے تار جب بجنے لگتے ہیں تو یادوں کے ساز قطار اندر قطار نکلنے اوربکھرنے لگتےہیں۔ کچھ ایسا ہی ہوا جب کمالیہ سے جڑی یادوں پر مشتمل ایک تحریر پڑھنے کو ملی۔
جب پہلی بار چیچہ وطنی کمالیہ روڈ از سر نو تعمیر ہوئی تو ارد گرد کی عمارتیں کافی نیچی رہ گئی تھیں اور سڑک کے کنارے ابھی زیادہ مضبوط نہیں تھے۔ اس لیئے آئے دن گاڑیوں کے الٹنے کی خبریں سننے کو ملتی تھیں۔ ایک دن ایک بس ہائی سکول نمبر ایک کے سامنے الٹ گئی۔ اگرچہ کوئی جانی نقصان تو نہیں ہوا۔ لیکن امدادی کاروائیوں میں ہائی سکول کے طلبا نے بھرپور کردار ادا کیا۔۔ بریک ٹائم میں ہم بھی تجسس کے مارے الٹی ہوئی بس کو دیکھنے چلےگئے اور واپسی پر نارمل سکول کی دیوار کے ساتھ ایک ضعیف بابا جی کو ایک بڑی سی پرات میں چنے لیکر بیٹھے دیکھا۔ اور اس کے گرد طالبعلموں کاہجوم تھا۔ چنے بیچنے والے اس بابا جی سے یہ میری پہلی ملاقات تھی لیکن بعد میں ان کی محنت اور مستقل مزاجی کی بہت کہانیاں سنیں کہ اسی کمائی سے اس نے حج بھی کیا تھا۔
میں نےاپنی تعلیمی آنکھ نارمل سکول میں کھولی اور میرا نارمل سکول سے جڑا ناسٹیلجیا آج بھی ترو تازہ ہے۔ عثمانی صاحب کا صبح کادرس قرآن۔ ہیڈماسٹر محمد اسحاق صاحب کا لندن سے بائی پاس آپریشن کے بعد واپسی پر شاندار استقبال اور ان کا باغبانی کا شوق اور پھلواریوں سے سکول کی سجاوٹ۔ ٹریننگ کیلئے آئے اساتذہ کا سالانہ سکاؤٹ میلہ۔ اور زیر تربیت اساتذہ کا نت نئے انداز سے پڑھانے کے طریقے۔ ولید صاحب، عطا محمد صاحب، رشید صاحب، عبدلمجید صاحب، عثمانی صاحب، سلیم صاحبب، گلزار صاحب کی شخصیت کے میرے ذہن پر ایسے نقوش ایسے ہے کہ ان کا خیال آتے ہیں نگاہیں احترام سے آج بھی جھک جاتی ہیں۔
اساتذہ کا ذکر جو ہوا تو چھٹی یا ساتویں جماعت کا ایک قصہ یاد آگیا۔ ایک نیا لڑکا کلاس میں داخل ہوا جس نے جلد ہی میرے ساتھ دوستی بنا لی اور دوستی بڑھی تو اس کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھنا شروع کردیا۔ ایک دن عبدالحفیظ طاہر صاحب اللہ ان کوغریق رحمت کرے، عربی کی کلاس لینے بعد مجھے بریک ٹائم میں ملنے کو کہا۔ ملنے گیا تو ایک جملہ بولا میں دوبارہ تمہیں اس لڑکے کے ساتھ نہ دیکھوں۔ اور میں تھا کہ اس کی وجہ پوچھنے کا حوصلہ پیدا نہ کرسکا۔ بستہ اٹھایا اور واپس اپنی جگہ پر منتقل ہوگیا۔ وقت گزرنے پر دیکھا کہ اس لڑکے نے بہت سے اچھے لڑکوں کو آوارہ گردی کی راہ پر ڈال کر ان کا تعلیمی کیئرئیر برباد کیا۔
بارہ ربیع الالول کے حوالے سے کمیٹی کے زیراہتمام ایک تقریری مقابلہ ہوا تھا جس میں شرکت کیلئے سلیم صاحب نے بڑے بھائی کو تیاری کروائی۔ اور انہوں نے پہلی پوزیشن حاصل کی اور شائد انعام میں بیس یا پچاس روپے حاصل کیئے۔ کمیٹی باغ چوک میں ایک ہوٹل ہوتا تھا، جہلم ہوٹل نام تھا شائد اس کا۔ جہاں سے پولکا آئس کریم ملتی تھی اور بھائی نے ان پیسوں سے زندگی کی پہلی آئسکریم بار کھلائی جو شائد اڑھائی روپے میں ملی تھی۔ پولکا آئسکریم بعد میں دھلی چوک میں واقع مدینہ ہوٹل سے بھی ملنا شروع ہوگئی تھی۔۔ لیکن ابھی آئسکریم صرف عید پر یا کسی خاص موقع پر ہی کھانے کا رواج تھا۔ ورنہ تو قلفی ہی خاص و عام میں مشہور تھی۔ گرمیوں کی دوپہر کو جب کھوئے والی قلفی کی آواز کانوں میں پڑتی تھی تو قدم بے ساختہ گلی کے طرف نکل جاتے تھے۔ سلطان مارکیٹ کے سامنے سرنٹی والا گرمیوں میں اپنے فالودے کیلئے بھی کافی مشہور تھا۔
کمالیہ کی پہچان کھدر ہے۔ ایک وقت تھا کہ لگ بھگ ہر گلی محلے میں کھڈیوں کی آوازیں گونجتی رہتی تھیں۔ اور ان کی وجہ شام کو وولٹیج کے مسائل اس قدر ہوتے تھے کہ ٹیوب لائٹس چلنے سے انکاری ہوجاتی تھیں کیونکہ ابھی تک سٹارٹر کے بغیر ٹیوب لائٹ کا نام کسی نے نہیں سنا تھا۔ اور تمام گرمیاں بلب کی زرد روشنی میں گزارنے پر مجبور ہوتے تھے اورجن علاقوں میں کھڈیاں ہوتی تھیں ان میں لوڈ شیڈنگ بھی زیادہ ہوتی تھی۔
شائد کسی کو یاد ہوتو کمالیہ کچے برتنوں کی بھی ایک اہم مارکیٹ رھا ہے اور مٹی سے بنے ان برتنوں کو پکانے کیلئے شہر کے ارد گرد بہت بھٹیاں لگی ہوئی تھیں۔ سردیوں میں ٹھنڈک کی وجہ سے دھواں ہوا میں بکھرنے کی بجائے شہر کو ہی اپنی لپیٹ میں لے لیتا تھا اور ایک طرح کی سموگ سردیوں میں شہر کو اپنی گرفت میں لےلیتی تھیں جس کا احساس شام کے بعد زیادہ ہوتا تھا۔
سلیم رفوگر سے تعلق اس وقت بنا تھا جب اس سے بچوں کا رسالہ، نونہال، آنکھ مچولی، مسٹری میگزین خریدنا شروع کیا تھا۔۔ سیدھا اور بھلا مانس انسان تھا۔۔ اس کی سادہ لوحی کی ایک بات یاد آگئی کہ نونہال نے جولائی میں سالانہ نمبر نکالا تو اخبار میں بھی اشتہار شائع کیا اور ٹی وی پر بھی۔۔ جس کی وجہ سے وہ جتنے شمارے منگواتا تھا تو وہ ایک ہی دن میں بک گئے اور بہت زیادہ ڈیمانڈ کی وجہ سے اسے مزید منگوانے پڑے۔۔ اگلے مہینے اس نے پہلے سے زیادہ شمارے منگوا لیئے لیکن وہ معمول کا شمارہ تھا اور بک نہ سکا۔۔ اور جب میں اس سے لینے گیا تو اس نے مجھ سے اپنی حیرت کا اظہار کیا تو مجھے اس کی معصومیت پر بڑا پیار آیا تھا۔ پاکستان اور خبریں کے جمعہ ایڈیشن اور نوائے وقت کا ہفتہ وار میگزین فیملی اور اخبار جہاں اسی سے خریدا کرتے تھے۔ رفو گری میں تو کمال تھا ہی بلکہ اس کے بعد یہ ہنر دوبارہ کہیں دیکھنے کو نہیں ملا۔
سلیم رفوگر کے سٹال کے کے سامنے کچھ آگے جب پہلی بار عمران بیکری نے اپنی بنیاد رکھی تو ایک بار اپنے ٹیسٹ اور معیار کی وجہ سے پورے شہر میں ہل چل مچا دی تھی کہ اب لاہور کی بیکریوں جیسا ٹیسٹ کمالیہ سے بھی ملنا شروع ہوگیا ہے۔ کریم رول جیم رول پیسٹری ڈبل روٹی کا ذائقہ آج بھی یاد ہے۔۔
عمران بیکری کے تقریبا سامنے محبوب سویٹس کی دکان تھی جس کو ہوش سنبھالنے سے دیکھتے چلے آرہے تھے اور شائد شہر کی مٹھائی کی قدیم ترین دکانوں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔۔ اپنے مخصوص انداز اور رکھ رکھائو کے سبب محبوب سویٹس کی یاد ذہن سے کبھی محو نہیں ہوسکی۔
جس دن مجھے معلوم ہوا سییپریٹ چائے سرو کی جاتی ہے تو ایک کزن کے ہمراہ پہلی بار سٹی ٹاپ کے اندر جانے کا اتفاق ہوا۔ جاوید صاحب ابو کی و اور شاہد محمود رامے صاحب کی وجہ سے شائد مجھے جانتے تھے اور میں ان کو اقبال بک ڈپو کے حوالے سے جانتا تھا جہاں سے رسالوں کے پرانے شمارے آدھی قیمت پر مل جایا کرتے تھے، اپنے کائوئنٹر سے اٹھ کر ٹیبل پر آگئے۔۔ باتوں کے دوران ان کے وسیع علمی وادبی کینوس سے شناسائی ہوئی تو ہمیشہ کیلئے تعلق بن گیا اور سٹی ٹاپ میرے لیئے پاک ٹی ہائوس کا درجہ اختیار کرگیا۔ دوران تعلیم جب بھی کمالیہ آنا ہوتا تو رات کو دیر تک محفل برپا رہتی۔
ٹکٹ گھر سے بلند ہونے والی گھنٹیوں کی آواز اور سٹیشن کی طرف بڑھتی ٹرین کی گرج دھمک اور سٹیشن پر گاڑی کی آواز سن کر لوگوں کی افراتفری اور سامان کو ٹرین کے قریب لیجانے کیلئے ٹھیلوں کے لوہے کے پہیوں کے سیمنٹ والے فرش سے ٹکرا کر بلند ہوتی اپنی طرف متوجہ کرتی آوازیں۔ اور ٹرین کے گزر جانے کے بعد سٹیشن پر چھا جانے والا گہرا سکوت۔۔ ٹرین کے گزر جانے کے بعد کینٹین سے مٹی کے تیل سے چلنے والے سٹو کی تیز آواز پر ابلتی چائے کی بکھری خوشبو اور مٹی سے بنے چولہے پر رکھی کڑاھی میں پکتے پکوڑوں کی خوشبو، جو پہلے لوگوں کے شور سے توجہ کھو چکی ہوتی ہے ایک دم سے اپنی موجودگی کااحساس دوبارہ سےدلانے لگتی ہے۔
کمالیہ شہر کا ریلوے سٹیشن شائد بہت سے لوگوں کی طرح میری بھی بچپن کی یادوں کا حصہ رھا ہے۔ لیکن سٹیشن کا حسن صرف ٹرین یا سٹیشن کے ہجوم کے ساتھ ہی نہیں تھا بلکہ شہر سے الگ تھلگ جگہ پر ہونے کی وجہ سے اس پر گہری خاموشی اور اداسی کا ماحول طاری رہتا ہے۔ ناسٹلجیا کو بہلانے کیلئے شائد اس سے بہتر جگہ کمالیہ شہر میں موجود نہیں ہے۔ سٹیشن کے بنچ پر بیٹھ کر دور سے کسی کھیت میں ہل چلاتے ٹریکٹر سے اٹھتی ہوا کے ساتھ منتشر ہوتی موسیقی، سڑک سے گزرتے خاموشی کو چیڑتی تانگے کے سموں کی چاپ، پرندوں کی آپس میں اٹھکیلیاں اور درختوں کے پتوں سے سنسناہٹ پیدا کرتی ہوا کی گونج سے گیان پانے کیلئے کسی وجدان کی ضرورت نہیں۔۔
نارمل سکول میں پھلواریوں والی سائیڈپر مسجد کی دوسری طرف ایک تالاب ہوا کرتا تھا جو باغیچوں کو پانی دینے کے کام آتا تھا لیکن طالب علموں کیلئے وہ ناصرف تختیاں دھونے کے کام آتا تھا بلکہ ان کی تفریح و طبع کا بھی ایک ذریعہ تھا۔ پانی کی سطح پر تختی کو کھینچ کر اس طرح مارنا کہ وہ کشتی کی طرح بہتی دوسرے کنارے کو جالگتی اور اس دوران دوسرے بچے اپنی تختیاں پھینک کر اس کو دوسرے کنارے پہنچنے سے روکنے کی کوشش کرتے۔ کھیل کھیل کے دوران کئی دفعہ تختیاں ٹوٹ بھی جاتی تھیں۔ تختیاں دھو کر ان کو گاچی لگا کر ہوا میں سکھانا اور ساتھ ساتھ ماہیئے پڑھنے کا مقابلہ اور جس کی تختی پہلے سوکھ جاتی وہ فاتح ٹھہرتا۔۔
گرلز نارمل سکول کی بیرونی دیوار کے ساتھ ٹانگوں کا اڈا ہوا کرتا تھا۔ چھٹیوں میں جب ننہیال جانا ہوتا تو سٹیشن جانے کیلئے پہلے اس اڈے پہنچنا پڑتا تھا پھر تانگے۔ والے سے ریٹ طے کرکے اسے گھر لایا جاتا تھا۔ سٹیشن۔ جانے کے رستے اگرچہ بہت تنگ تو نہ تھے لیکن پھر تانگہ کافی سست روی سے فاصلہ طے کرتا تھا لیکن جونہی آبادی سے نکلتا تو فراٹے بڑھنے لگتا۔ تانگے کی سواری میں جو مزہ اور لطف تھا وہ شائد ہماری نئی نسل کبھی محسوس نہ کرسکے۔ گھوڑے کے سموں کے سڑک سے ٹکڑاکر اٹھنے والی آواز سے پیدا ہونے والا راگ۔ منظر پرستی۔۔ تخیل پرستی۔۔ یہ راگ زندگی کا راگ تھا۔۔
پریشر ککرکے اوپر رکھا وزن سیٹی بجاتا، لٹو کی طرح اس قدر تیز گھومتا تھا کہ مجھے ہمیشہ اندیشہ لگا رہتا کہ یہ گھومتا گھومتا ہوا میں اڑ جائے گا۔
گھنٹہ گھر کے پاس مٹھو ہوٹل ہوا کرتا تھا۔ جس کی کھانے دیگچیاں ایک سائیڈ پر دھری ہوتی تھیں اور سامنے دو تین چولہے ہوتے تھے جس پر تازہ کڑاھی بنائی جاتی تھی۔ گوشت کو جلدی گلانے کیلئے پہلے اسے پیاز لہسن۔ نمک۔ ڈال کر پریشر ککر میں رکھ کر تیز آنچ پر وزن کو نچایا جاتا تھا۔ اور یہ منظر جب کبھی روٹیاں لینے کیلئے اس ہوٹل پر رکتا تو دیکھنے کو ملتا تھا۔ دکان کے اندر ایک سائیڈ پر سیمنٹ کا بنا ایک شیلف ہوتا تھا جس میں پیاز کاٹ کر ڈالا ہوتا تھا اور گاہک کو کھانا پیش کرتے وقت ہاتھ سے نکال کر ایک پلیٹ میں ڈال کر ساتھ پیش کیا جاتا۔ سردیوں میں پیاز کے ساتھ مولیاں گاجریں بھی نظر آجایا کرتی تھیں۔۔