Quran Ka Sanaa Makhtoota
قرآن کا صنعا مخطوطہ
مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن مجید فرقان حمید لوح محفوظ پر لکھا ہے اور اس میں قیامت تک زیر زبر پیش کی بھی تبدیلی نہیں ہوسکتی۔ لیکن مسئلہ یہ آن پڑتا ہے کہ قرآن جن دنوں نازل ہوا، تب اس میں زیر زبر پیش ہوتے ہی نہیں تھے۔ وہ بعد میں لگوائے گئے۔ حجاج بن یوسف نے اعراب کے علاوہ ایک ہزار مقامات پر الف شامل کروایا۔ رسول اللہ کے زمانے میں عربی کے حروف تہجی 22 تھے۔ مزید 6 حروف بعد میں شامل کیے گئے۔ تب نقطے بھی نہیں ہوتے تھے۔
قرآن پاک کی پاروں میں تقسیم، سورتوں کی تعداد اور نام، آیات کی نمبرنگ، یہ سب رسول اللہ کے وصال کے بعد طے کیا گیا۔ بلکہ بعض معاملات پر صحابہ میں شدید اختلاف رہا۔ جیسے عبداللہ ابن مسعود بعض سورتوں کو قرآن کا حصہ نہیں مانتے تھے۔
ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ قرآن میں بعض الفاظ کا املا ایک جگہ کچھ ہے اور دوسری جگہ کچھ اور۔ یوں بھی ہے کہ قرآن کے ایک نسخے میں کوئی لفظ کسی طرح لکھا ہوا ہے اور دوسرے نسخے میں کسی اور طرح۔ میں گزشتہ سال ان الفاظ کا عکس پیش کرچکا ہوں جو قرآن کے دس قدیم مخطوطوں میں الگ الگ طرح لکھے ہیں۔ علما سے سوال کریں تو وہ کہتے ہیں کہ الفاظ بدلنے سے معنی پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ درست بات نہیں ہے، معنی میں فرق پیدا ہوتا ہے۔ بے شک معمولی فرق ہوتا ہے لیکن یہ کہنا غلط ثابت ہوجاتا ہے کہ قطعی کچھ تبدیل نہیں۔
قرآن پر تحقیق کرنے والے بعض مستشرقین اور مسلمان عالم یہ بھی کہتے ہیں کہ اس کا متن تبدیل ہوا ہے۔ مستشرقین کے ساتھ مسلمان عالم کا لفظ پڑھ کر آپ چونکے ہوں گے۔ مصری عالم ڈاکٹر نصر ابو زید نے 2004 میں ہالینڈ میں ایک تقریر کی جس کے چند جملے یہ ہیں:
قرآن کو محض ایک تحریر بننے سے روکنا ہوگا۔ قرآن مکالمے، مباحثے، امکان، دلیل، قبولیت اور استرداد کا نتیجہ تھا۔ یہ افقی، ابلاغی اور انسانی جہت قرآن کی ساخت کے اندر ہے، باہر نہیں۔
مستشرقین میں ایک نام جرمن اسکالر ڈاکٹر جرڈ پوئن کا ہے جو قرآن کے صنعا مخطوطے کے بحالی منصوبے کے انچارج تھے۔
قرآن کا صنعا مخطوطہ کیا ہے؟ اس کی تفصیل پڑھنا چاہیں تو گوگل کرکے دیکھ لیں۔ بہت سے دوست جانتے بھی ہوں گے۔ مختصرا یہ کہ 1972 میں صنعا کی جامع الکبیر میں ایک زمانے سے بند کمرے سے بہت سے صدیوں پرانے مخطوطات برآمد ہوئے تھے۔ ایک مخطوطے کی ریڈیوکاربن کاپی سے پتا چلا کہ وہ پہلی صدی ہجری کا ہے۔ لیکن ایک اور دلچسپ بات بھی معلوم ہوئی۔ کسی نے ایک تحریر کو مٹانے کی کوشش کرکے دوسری تحریر لکھی تھی۔ دوسری تحریر تو قرآن کے موجودہ متن کے مطابق ہے لیکن پچھلی تحریر اس سے مختلف ہے۔
ایک طالبہ رزان غسان حمدون نے اس قرآنی مخطوطے کو اپنے ماسٹرز کے مقالے کا موضوع بنایا اور اس میں دونوں تحریروں کے عکس شامل کیے۔ میرے پاس نہ صرف وہ مقالہ موجود ہے بلکہ صنعا مخطوطے کے وہ تمام عکس بھی موجود ہیں جو بعض لوگوں نے چوری کرکے بلیک مارکیٹ میں فروخت کردیے۔
صنعا سے مخطوطے برآمد ہونے کے بعد جرمن حکومت نے یمن سے تعاون کیا اور مالی امداد کے ساتھ جرڈ پوئن کو انچارج بناکر بھیجا جو عربی زبان و ادب کے پروفیسر تھے۔
جانوروں کی کھال پر لکھے ہوئے 15 ہزار اوراق کی صفائی کروانا، پڑھنے کے قابل بنوانا، عکس بنانا، کیٹلاگنگ کرنا، یہ سب آسان نہیں تھا۔ ان میں سے 926 قرآنی مخطوطے برآمد ہوئے۔ جرڈ پوئن نے برسوں ان مخطوطوں پر تحقیق کی۔ پھر ایک انٹرویو پر یمن نے انھیں نکال باہر کیا اور ان مخطوطوں تک ان کی رسائی روک دی۔
انھوں نے اپنے انٹرویو میں کہا تھا، میری رائے یہ ہے کہ قرآن مختلف تحریروں کا مجموعہ ہے جنھیں رسول اللہ کے زمانے میں بھی ٹھیک سے نہیں سمجھا گیا۔ ان میں سے بعض تحریریں اسلام سے بھی سو سال پرانی ہیں۔ کئی میں تضاد ہے۔ اس کا پانچواں حصہ کوئی مفہوم پیدا نہیں کرتا۔ جب یہ عربی ہی میں سمجھ نہیں آتا تو اس کا ترجمہ کیسے کیا جاسکتا ہے۔
ڈاکٹر جرڈ پوئن نے تین کتابیں لکھی ہیں جن میں سے ایک انگریزی میں ترجمہ ہوچکی ہے۔ اس کا عنوان دا ہڈن اوریجن آف اسلام، نیو سرچ ان ٹو اٹس ارلی ہسٹری ہے۔
میں ذاتی طور پر ان میں کسی بات کو اہم نہیں سمجھتا۔ تمام مذہبی کتب کی طرح قرآن کا اصل مقصد انسان کو اخلاقیات کا درس دینا ہے اور وہ مقصد پورا ہوتا ہے۔