Tuesday, 18 March 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mubashir Ali Zaidi
  4. Masters In Learning Design And Technology

Masters In Learning Design And Technology

ماسٹرز ان لرننگ ڈیزائن اینڈ ٹیکنالوجی

جرنلزم میں میری سب سے پہلی ملازمت ڈائجسٹ میں تھی۔ کام میری پسند کا تھا، یعنی کہانیاں ایڈٹ کرنا اور پروف پڑھنا۔ لیکن چند ماہ میں مجھے اندازہ ہوگیا کہ یہاں زندگی نہیں گزاری جاسکتی۔ اس وقت میری شادی نہیں ہوئی تھی۔ بابا بھی ریٹائر نہیں ہوئے تھے۔ یعنی وہ شغل جاری رکھ سکتا تھا۔ لیکن ایڈیٹر انور فراز صاحب اور مالک جناب معراج رسول کے سمجھانے کے باوجود نوکری چھوڑ دی۔

میں نے اخبارات میں ملازمت تلاش نہیں کی، دوست بنائے۔ جاب کے لیے نیٹ ورکنگ چلتی ہے۔ یہ بات بہت سے لوگوں کو بہت دیر سے پتا چلتی ہے۔ نیا اخبار ایکسپریس نکلا تو صوفی صاحب اس میں روزگار کا وسیلہ بنے۔ وہ پہلا اخبار تھا جو مکمل طور پر کمپیوٹر سے تیار ہوا۔ اس وقت بہت کم صحافی کمپیوٹر اور انٹرنیٹ سے واقف تھے جبکہ میں کوڈنگ تک سیکھا ہوا تھا۔

ایکسپریس میں ساڑھے تین سال کام کیا۔ پھر جنگ جانے کی کوششیں کیں کیونکہ وہی سب سے بڑا ادارہ تھا۔ عبدالماجد بھٹی سینئر دوست تھے۔ انھوں نے ایک سے زیادہ بار انٹرویو کروائے۔ آخر ملازمت مل گئی۔

پرائیویٹ الیکٹرونک میڈیا کا غلغلہ مچا تو جیو میں جانے کی تگ و دو میں لگ گیا۔ جنگ کے کارکنوں کے وہاں جانے پر روک تھی تاکہ اخبار متاثر نہ ہو۔ کچھ نیٹ ورکنگ، کچھ زور لگانے اور شور مچانے کے بعد اس میں گھس گیا۔ ان دنوں دبئی سے نشریات ہوتی تھیں۔ کراچی میں اچھا کام کرکے دکھایا تو دبئی کا ویزا لگ گیا۔ چار سال وہاں گزارے۔

کراچی سے نشریات شروع ہوئیں تو دبئی والے مرکز نگاہ تھے۔ چنانچہ تیزی سے ترقی ملی۔ تنخواہ بہتر سے بہتر ہوتی گئی۔ لیکن ملک کی معیشت بگڑ رہی تھی۔ نیوز چینلوں کی تعداد ضرورت سے زیادہ ہوچکی تھی۔ سوشل میڈیا بھی میدان میں آچکا تھا۔ یہ جاننے کے لیے ولی اللہ ہونا ضروری نہیں تھا کہ پاکستانی جرنلزم پابندیوں اور مالی مشکلات کے بھنور میں پھنسنے والی ہے۔ آخر پھنس گئی۔

میں کافی عرصے سے بیرون ملک اداروں میں اپلائی کررہا تھا۔ نیٹ ورکنگ کام آئی۔ وائس آف امریکا میں ملازمت مل گئی۔ بلاشبہ اس میں خوش قسمتی کا بھی دخل تھا۔ میں درست وقت پر باہر نکل آیا۔

ساڑھے تین سال بعد یہ ملازمت چھوٹ گئی۔ ایک دو سال برا وقت دیکھا۔ ایک امریکی نیوز چینل میں بھی کام کیا۔ لیکن سمجھ آگئی کہ امریکا میں مجھ جیسے پاکستانی صحافی کے لیے جیو جیسی پوزیشن اور اچھا معاوضہ ملنا مشکل ہے۔ پاکستانی ڈگری بھی کسی کام نہیں کی۔

مشکل حالات میں، اوبر چلاتے ہوئے، امریکی یونیورسٹی سے ماسٹرز کرلیا۔ اس دوران ایک اسکول میں ٹیچنگ اسسٹنٹ کی جاب کرکے دیکھی اور معاوضے، کام، بھرتیوں کی ضرورت اور ترقی کے امکانات معلوم کرلیے۔ اس کے بعد لازمی امتحانات اور ضروری ٹیچنگ کورس کرکے ٹیچنگ لائسنس لے لیا۔ اب ڈیڑھ سال سے فل ٹائم ہائی اسکول ٹیچر کی جاب کررہا ہوں۔ لوگوں کے پاس ایک شعبے میں پڑھانے کا لائسنس ہوتا ہے، میرے پاس چار شعبوں کا لائسنس ہے۔

اسکول کی جاب فی الحال کہیں نہیں جارہی۔ کم از کم اپنی زندگی میں اس کا امکان کم ہے۔ لیکن مستقبل ٹیکنالوجی کا ہے، اس کا اندازہ لگاتے ہوئے میں نے لرننگ ٹیکنالوجی کے شعبے کی طرف توجہ کی۔ ایک سال پہلے ماسٹرز میں داخلہ لیا اور اگلے ماہ اسے مکمل کرلوں گا۔ ماسٹرز ان لرننگ ڈیزائن اینڈ ٹیکنالوجی نئی ڈگری ہے اور اس کی کافی مانگ ہے۔

یہ سارا بورنگ بایوڈیٹا اس لیے لکھا کہ بھائی وسی بابا نے اس بارے میں اہم پوسٹ کی ہے۔ امریکا افغانستان میں تھا تو سیکورٹی امور والوں کی بہت مانگ تھی۔ امریکا رخصت ہوگیا۔ اب ماہرین موجود ہیں لیکن مہارتیں کسی کام کی نہیں رہیں۔ ماہرین اپنی مہارت بتاتے، ان کی باتیں کرکے خود کو بس تھکاتے ہی ہیں۔ سننے والا الگ اکتا جاتا ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ زمانے کے ساتھ بدلیں۔ بلکہ زمانہ بدلنے سے پہلے مستقبل کے بارے میں سوچیں۔ نہیں تو مکھیاں مارنے کے اولمپکس میں حصہ لینا پڑے گا۔ لیکن خیال رہے کہ ادھر بھی بڑا سخت مقابلہ ہے۔ اے آئی کی مدد سے مکھیاں مارنے والے میڈل لے جائیں گے۔

Check Also

Ittefaq Itna Khoobsurat Nahi Hua Karte

By Tehsin Ullah Khan