Lolita
لولیتا
انڈین فلموں کے ولن شکتی کپور کا سب سے مشہور ڈائیلاگ "او للیتا" ہے۔ یہ 1984 میں ریلیز ہوئی فلم تحفہ کا تحفہ ہے جس میں سری دیوی کا نام للیتا تھا۔ میرا خیال ہے کہ فلم کے ڈائریکٹر نے نابوکوف کا ناول لولیتا پڑھا ہوگا اور وہ نام انھیں پسند آیا ہوگا۔
ولادی میر نابوکوف روسی ناول نگار تھے جو کافی عرصہ امریکا میں رہے اور روسی زبان کے علاوہ انگریزی میں بھی فکشن تخلیق کیا۔ وہ امریکا کی ممتاز یونیورسٹی کورنیل میں بھی پڑھاتے رہے۔
لولیتا اپنے وقت کا متنازع ناول تھا۔ اس کا مرکزی کردار ہمبرٹ ایک مجرم ہے جو جیل میں آپ بیتی لکھتا ہے۔ اسے بچپن میں ایک ہم عمر لڑکی سے محبت ہوجاتی ہے جو بدقسمتی سے بیمار ہوکر مرجاتی ہے۔ ہمبرٹ تعلیم حاصل کرکے فرانسیسی ادب کا پروفیسر بن جاتا ہے لیکن نفسیاتی مسئلے کی وجہ سے زندگی بھر نابالغ لڑکیوں کی محبت میں مبتلا رہتا ہے۔ درحقیقت کئی لڑکیوں کے بجائے اس کی محبت کا محور ایک لڑکی ڈولورس ہوتی ہے لیکن وہ اس کا نام لولیتا رکھ دیتا ہے۔ لڑکی سے قربت کی خاطر وہ اس کی ماں سے شادی کرلیتا ہے جو بعد میں پراسرار طور پر ایک حادثے میں ہلاک ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد وہ لولیتا کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرتا ہے۔
نابوکوف کو خدشہ تھا کہ امریکا یا برطانیہ میں یہ ناول سنسر کی زد میں آئے گا اس لیے 1955 میں اس نے یہ ناول پیرس سے شائع کروایا۔ اس پر تنقید بہت ہوئی اور اب بھی ہوتی ہے لیکن اس کا شمار کلاسکس میں کیا جاتا ہے۔
لولیتا کا ذکر میں نے اس لیے کیا کہ آج کل آذرُنفیسی کی کتاب ریڈنگ لولیتا ان تہران پڑھ رہا ہوں۔
یہ ایک ایرانی پروفیسر کی آپ بیتی ہے جو انقلاب سے پہلے اور بعد میں بھی ایرانی یونیورسٹیوں میں پڑھاتی رہیں۔ انقلاب کے فورا بعد انھیں تہران یونیورسٹی سے نکال دیا گیا تھا کیونکہ انھوں نے چادر اوڑھنے سے انکار کردیا تھا۔ ضیا دور میں ہماری مہتاب راشدی نے ان کی تقلید کی تھی۔
ریڈنگ لولیتا میں نفیسی نے ان دنوں کا ذکر کیا ہے جب انھیں یونیورسٹی سے نکالا گیا۔ انھوں نے سات طالب علموں کو اپنے گھر بلاکر مغربی ادب پڑھانا شروع کردیا۔ یہ وہ مغربی ادب تھا جو انقلاب کے بعد ایران میں ممنوع تھا۔ نفیسی نے صرف لولیتا نہیں، اور بھی دو درجن ناولوں پر گفتگو کی جن میں مادام بواری، دا گریٹ گیٹس بی، پرائیڈ اینڈ پریجوڈس، وودرنگ ہائیٹس، ٹام جونز اور دا لینگویج پولیس شامل ہیں۔
ریڈنگ لولیتا 2003 میں شائع ہوئی اور دو سال تک نیویارک ٹائمز کی بیسٹ سیلر لسٹ میں رہی۔ اس کا 30 سے زیادہ زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ میں نہیں جانتا کہ اس کا اردو میں ترجمہ ہوا ہے یا نہیں۔
نفیسی نوے کی دہائی میں امریکا منتقل ہوگئی تھیں اور اب ہمارے پڑوس یعنی واشنگٹن ڈی سی میں رہتی ہیں۔