Door Andesh
دوراندیش
ماضی بعید میں کوئی کوئی ہی دوراندیش ہوتا تھا۔ تعلیم عام نہیں تھی۔ سفر مشکل تھا۔ عام سمجھ بوجھ سے زندگی اچھی گزر جاتی تھی۔ صنعتی انقلاب اور تعلیم عام ہونے سے مستقبل کے بارے میں سوچنے والوں کی تعداد بڑھی۔ عام طور پر ایسے لوگ حکومت اور بڑے اداروں کا سرمایہ ہوتے تھے۔
اب وہ زمانے گزر گئے۔ انٹرنیٹ آنے کے بعد ہر شخص کے لیے مستقبل بیں ہونا لازم ہے۔ مجھے جمیل الدین عالی یاد آرہے ہیں۔ انھوں نے غالبا پچیس سال پہلے اس بارے میں کالم لکھے تھے اور ہمیں فورچون اور ایسے جریدوں کے بارے میں بتایا تھا جو مضامین چھاپتے ہیں کہ مستقبل کیسا ہوگا، کیسا ہونا چاہیے۔ اکانومسٹ کا سال کیسا ہوگا جیسے سالنامے بعد میں چھپنے شروع ہوئے۔
سائنس فکشن لکھنے والے آئزک آئسی موف اور آرتھر کلارک نے بھی ہمیں مستقبل کی بہت سی خبریں دی تھیں۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ آئسی موف نے انٹرنیٹ آنے سے بہت پہلے اس کی پیش گوئی کردی تھی؟
چند دن پہلے میں نے انسٹی ٹیوف آف فیوچر کی پیش گوئی کا ذکر کیا تھا کہ 2030ء کی 85 فیصد جابز ابھی تک وجود نہیں رکھتیں۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ مطلب یہ ہے کہ دنیا جس تیزی سے تبدیل ہورہی ہے، اس میں مزید تیزی آئے گی۔ دراصل ہم ایک انقلاب برپا ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ چونکہ ماضی میں صرف خونی انقلاب آتے تھے، اس لیے لوگ اکیسویں صدی کے آرٹیفشل انٹیلی جنس انقلاب کا درست اندازہ نہیں کرپارہے۔ لیکن یہ شروع ہوچکا ہے اور جلد پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینے والا ہے۔
بی بی سی نے آج رپورٹ شائع کی ہے کہ مستقبل میں کن کاموں کو اے آئی سے خطرہ نہیں ہے۔ وائٹ کالر ملازمتوں کو زیادہ خطرہ ہے۔ بلو کالر جابز برقرار رہیں گی۔ ایک صحافی دوست خوش ہورہے تھے کہ مستقبل میں ان کے نوکری کو کوئی خطرہ نہیں۔ میرا خیال ہے کہ صرف انویسٹی گیٹو رپورٹر کی جاب محفوظ ہے۔ ڈیسک جابز خطرے میں ہیں۔ پاکستان تو ایسا عجیب ملک ہے کہ ایڈیٹر کے بغیر اخبار اور نیوز ڈائریکٹر کے بغیر ٹی وی چینل چل جاتا ہے۔ بلکہ متعدد اخبار اور چینل تو قارئین اور ناظرین کے بغیر بھی چلے جارہے ہیں۔
میں کوئی دانشور نہیں لیکن جیسا کہ عرض کیا، تھوڑی سی دور اندیشی انٹرنیٹ کے دور میں ہر شخص کے لیے ضروری ہے۔ میں نے اندازہ لگایا کہ آج میں نے ٹیچنگ لائسنس لے لیا اور اسکول میں پڑھا رہا ہوں۔ لیکن مستقبل میں کیا ہوگا۔ فی الحال پرائمری اسکول کے اساتذہ کو اے آئی سے خطرہ نہیں لیکن ہائی اسکول اور یونیورسٹی کے اساتذہ کا کیا بنے گا؟
میں نے کوئی دو درجن آن لائن کورسز کیے ہیں۔ بیشتر یونیورسٹیاں بھی آن لائن ڈگریاں آفر کررہی ہیں۔ یہی دیکھ کر میں نے لرننگ ڈیزائن اینڈ ٹیکنالوجی کے ماسٹرز میں داخلہ لے لیا۔ میں امریکا میں ایک ماسٹرز کرچکا تھا۔ دوسرے کی ضرورت نہیں تھی۔ لیکن پچاس سال کی عمر میں بطور ٹیچر نیا کرئیر شروع کیا ہے تو اب تعلیمی شعبے کے مستقبل سے بے خبر نہیں رہ سکتا۔ میں نے اس مستقبل میں بہتر جگہ حاصل کرنے کے لیے اس ماڈرن کورس کی ضرورت محسوس کی۔
پاکستان مستقبل کے لیے کس قدر تیار ہے، ہم سب جانتے ہیں۔ ہم حکومت سے اس کی امید اور تقاضا نہیں کرسکتے۔ آپ کسی غریب اور مقروض آدمی کو آرٹیفشل انٹیلی جنس کے انقلاب کی تیاری کے لیے کہیں گے تو بھڑک اٹھے گا، یا قمیض کا دامن ہٹاکر اپنا پچکا ہوا پیٹ دکھائے گا۔ اس لیے میں پاکستانی نوجوانوں کو مشورہ دوں گا کہ کسی اچھے ملک کو ٹارگٹ کریں اور اس کی زبان سیکھیں۔ چین آپ کے پڑوس میں ہے۔ اسے افرادی قوت کی ضرورت ہے۔ یورپی ملکوں کو ضرورت ہے۔ نئی زبانیں سیکھیں، جدید کورسز کریں اور اپنا مستقبل بہتر بنائیں۔