Artificial Intelligence Aur Jaal Saz
آرٹیفشل انٹیلی جنس اور جعل ساز
ڈوئچلے ویلے اردو پر آج تحقیق میں فراڈ پر ایک مضمون شائع ہوا ہے جس کی شہ سرخی سوشل میڈیا پر وائرل ہورہی ہے۔ اس کے مطابق دنیا بھر میں جعلی پیپرز کی اشاعت میں پاکستانی دوسرے نمبر پر ہیں۔ مضمون میں سائنسی جریدے نیچر کا حوالہ موجود ہے۔
دراصل یہ پرانا مضمون ہے جو نیچر میں دسمبر 2023 میں شائع ہوا تھا۔ تقریبا ہر سال اس طرح کے اعدادوشمار سامنے آتے ہیں۔ گزشتہ سال خاص بات یہ تھی کہ جعلی پیپرز کی تعداد پہلی بار دس ہزار سے بڑھ گئی۔
ڈوئچلے ویلے کے مضمون میں سب سے اہم بات درج نہیں تھی یعنی پاکستانی جعلی پیپرز کی تعداد یا شرح کتنی تھی۔ اگر میں لکھتا تو پہلے نیچر کا مضمون حاصل کرکے پڑھتا۔ میں ان نمبرز کا عکس یہاں شامل کررہا ہوں۔
ایک سال پہلے، یعنی 2022 میں جعلی ریسرچ پیپرز کی تعداد 6 ہزار تھی۔ ایک سال میں یہ تعداد 4 ہزار بڑھ گئی۔ آئندہ برسوں میں مزید بڑھے گی کیونکہ آرٹیفشل انٹیلی جنس نے جعلسازوں کا کام آسان کردیا ہے۔
ایک الگ خبر آج واشنگٹن پوسٹ میں چھپی ہے کہ آرٹیفشل انٹیلی جنس کی مدد سے گھڑے گئے جعلی مواد کی شناخت کے لیے امریکا میں کم از کم 40 کمپنیاں کام کررہی ہیں۔ ان کا دعوی ہے کہ وہ 99 فیصد تک ایسا مواد پکڑ سکتی ہیں۔ ایسی بعض کمپنیوں کو امریکی حکومت کے کنٹریکٹس ملے ہیں۔
مجھے اپنے اسکول اور یونیورسٹی، دونوں کی جانب سے دنیا بھر کے رسائل، تحقیقی جریدوں اور ریسرچ ویب سائٹس تک رسائی حاصل ہے۔ میں کانگریس لائبریری سمیت تین کتب خانوں کا بھی رکن ہوں۔ نیویارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ اور گارڈین بھی روز دیکھتا ہوں۔ گزشتہ کچھ عرصے سے ہر جگہ سب سے اہم اور مقبول موضوع آرٹیفشل انٹیلی جنس ہے اور اتنے زیادہ مضامین اور کتابیں شائع ہورہی ہیں کہ سب کو پڑھنا ممکن نہیں۔ لیکن تین کام کے نکات میں آپ کو بتادیتا ہوں:
ایک، مستقبل میں اے آئی نہیں ہے بلکہ اے آئی ہی مستقبل ہے۔
دو، آئندہ ملکوں، اداروں اور افراد کی کامیابی یا ناکامی کا پیمانہ ان کی اے آئی میں پیشرفت ہوگی۔
تین، اے آئی سے جعلسازی ممکن ہے لیکن یہ کام زیادہ دیر نہیں چلے گا اور آج نہیں تو کل پکڑا جائے گا۔ صرف ایتھیکل یعنی جائز استعمال ہی فائدہ پہنچائے گا۔