Tuesday, 18 March 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mubashir Ali Zaidi
  4. Adab Ka Haqeer Sa Talib Ilm

Adab Ka Haqeer Sa Talib Ilm

ادب کا حقیر سا طالب علم

میں ادب کا حقیر سا طالب علم ہوں۔ اردو اور انگریزی میں تھوڑا سا ادب پڑھا ہے۔ مجھے ادبی شاہکاروں کا علم ہے۔ عالمی ادب سے واقفیت ہے۔ کچھ کتابوں کے ذوق کے سبب اور کچھ ادیبوں شاعروں کی صحبت ملنے کی وجہ سے۔

دوسری جانب میں پچیس سال پیشہ ور صحافی رہا ہوں۔ سادہ زبان کیسے لکھنی ہے، یہ بڑے اور زباں داں صحافیوں سے سیکھا ہے۔ ادب سے لگاو اور صحافت کے تجربے کے بعد تیسری جہت کی کوشش امریکا میں کمیونی کیشنز میں ماسٹرز تھا۔ اگرچہ وہ جرنلزم سے رخصت لینے کے بعد کیا لیکن ابلاغ فقط پیشے کا تقاضا نہیں، زندگی بھر کا معاملہ ہے۔ اس سے کچھ نہ کچھ فائدہ تو ملتا رہے گا۔

بعض اوقات اپنا تعارف کروانا پڑتا ہے کہ کچھ کہنے کے قابل بھی ہوں یا نہیں۔

قرآن پاک ہدایت کی کتاب ہے، میں سو فیصد متفق ہوں اور ہزار بار خود یہ بات لکھ چکا ہوں۔ میری سابقہ تحریریں دیکھ لیں۔ لیکن علما اگر زبان و بیان کی بنیاد پر اس کے متعلق دعوے کریں گے تو پھر ان کو پرکھنا پڑے گا۔ اس سے کتاب کی اہمیت ختم یا کم نہیں ہوگی لیکن ان دعووں کی وجہ سے سوال پیدا ہوجائیں گے۔

میرے محب اور محبوب ڈاکٹر طفیل ہاشمی نے کہا ہے کہ قرآن کو سمجھنے کے لیے عربی سیکھنا ضروری ہے کیونکہ ادب کے شاہکاروں کو ان کی زبان میں سمجھا جاسکتا ہے۔ میں ان کے عربی سیکھنے کے حکم پر عمل کی کوشش کروں گا۔ لیکن عاجزانہ طور پر ان سے اختلاف کی جرات کرنا چاہتا ہوں۔

ہمیں پہلے یہ طے کرنا پڑے گا کہ قرآن خواص کے لیے ہے یا عوام کے لیے۔ الہامی کتاب کو عوام کے لیے ہونا چاہیے۔ عوام کو عوامی گفتگو سمجھ آتی ہے۔ یعنی ان کے لیے سادہ اور آسان زبان استعمال کی جاتی ہے۔ اسے ترجمہ کرنا آسان ہوتا ہے۔ اسے سمجھانے کے لیے تفسیریں نہیں لکھنا پڑتیں۔

علمائے مذہب کہتے ہیں کہ قرآن چونکہ معجزہ ہے اس لیے اس کا سامنے کا مطلب عوام کے لیے ہے اور چونکہ یہ ادب کا شاہکار ہے، اس لیے اس کے گہرے معانی صاحبان ذوق کے لیے ہیں۔

ہم جانتے ہیں کہ ادب کے شاہکار کیسے ہوتے ہیں۔ وہ پڑھنے والے کو مکمل گرفت میں لے لیتے ہیں۔ کیونکہ ان میں روانی ہوتی ہے۔ ترتیب اور نظم ہوتا ہے۔ ری پیٹیشن نہیں ہوتی۔ ان کی لفظیات اور گرامر پر اعتراضات نہیں کیے جاسکتے۔ ان میں استعارے بلند خیالی کا مظہر ہوتے ہیں، معمولی مثالیں نہیں ہوتیں۔ وہ نئے الفاظ یا تراکیب کو جنم دیتے ہیں۔ شیکسپئیر نے 1700 نئے الفاظ اور تراکیب تخلیق کیں۔ ادبی ترجمے میں ہزار مشکلات کے باوجود ادب کے شاہکار دنیا بھر کی زبانوں میں منتقل کیے جاتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ شکایت ہوتی ہے کہ کچھ لطف کم ہوگیا۔ یہ شکایت پیدا نہیں ہوتی کہ مقصد اور مفہوم بدل گیا۔

میں کچھ عرصہ پہلے قطر، یعنی ایک عرب مسلمان ملک کی ویب سائٹ کا لنک اپنے کتابوں والے گروپ میں پیش کرچکا ہوں جس پر قرآن کے 22 ورژن موجود ہیں۔ ان میں سیکڑوں اختلافات ہیں۔ مسلمان علما انھیں قرات کا اختلاف کہہ کر نظرانداز کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن سچ یہ ہے کہ عربی میں الفاظ کی قرات بدلنے سے معنی بدل جاتے ہیں۔

قرآن جب نازل ہوا تو اس وقت عربی کے حروف کم تھے۔ نقطے نہیں تھے۔ زیر زبر پیش نہیں تھے۔ میرے پاس پہلی صدی ہجری کے ان تمام نسخوں کے عکس ہیں جو دنیا میں کسی بھی کتب خانے میں موجود ہیں۔ آپ کی مرضی ہے کہ ان نسخوں کو جیسے جی چاہے پڑھیں۔ اس جی چاہنے کی وجہ ہی سے قرآن کے کئی ورژن بنے۔ پاکستانی جو نسخہ پڑھتے ہیں، وہ حفص قرآن ہے۔ یہ 1924 میں جامعہ الازہر نے شائع اور پروموٹ کیا۔ لیکن جامعہ الازہر جس براعظم میں قائم ہے، اسی افریقا میں ورش قرآن زیادہ پڑھا جاتا ہے۔

جب کوئی پاکستانی دوست کہتا ہے کہ قرآن میں آج تک زیر زبر پیش کی تبدیلی نہیں ہوئی تو ہنسی آتی ہے۔ زیر زبر پیش تو قرآن میں تھے ہی نہیں۔ پاکستانیوں کو ویسے بھی دنیا کا زیادہ علم نہیں ہوتا۔ یہ بات کتنے پاکستانیوں کو پتا ہوگی کہ سعودی عرب کے سرکاری پبلشنگ ہاوس میں قرآن کے مختلف ورژن چھپتے ہیں۔ جائیں اور جاکر خود دیکھ لیں۔ افریقی حاجیوں کو ہمیشہ ورش قرآن کا تحفہ دیا جاتا ہے۔

آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ مسلمان جس کتاب میں تحریف کا دعوی کرتے ہیں، یعنی توریت، اس کے ہزاروں سال پرانے دریافت شدہ نسخوں اور موجودہ نسخے میں کوئی فرق نہیں۔ یہودیوں کے تمام فرقے جس کتاب کو پڑھتے ہیں، اس کا متن ہی نہیں، الفاظ تک یکساں ہیں۔ واضح رہے کہ میں پورے عہدنامہ قدیم کی بات نہیں کررہا، صرف اس کی اولین پانچ کتابوں کا ذکر کررہا ہوں، جنھیں توریت کہتے ہیں۔ اس کے اردو ترجمے انٹرنیٹ پر موجود ہیں۔ اس کتاب میں ربط اور ترتیب بھی ہے جو آپ خود ملاحظہ کرسکتے ہیں۔

Check Also

Ahthra, Jinnat Ki Jhapat Aur Pir Sahab

By Tahira Kazmi