Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mohsin Khalid Mohsin
  4. Tasawuf Mein Wilayat Ka Safar

Tasawuf Mein Wilayat Ka Safar

تصوف میں ولایت کا سفر

اِسلام کی آمد سے قبل توحید کے ماننے والوں کا سلسلہ ملتا ہے۔ دین محمدی ﷺ سے قبل دینِ ابراہیمی کی تعلیمات کو یکسر بُھلا دینے کے باوجود دُنیا بھر میں توحید کے ماننے والے موجود تھے۔ حضور اکرم ﷺ کی ولادت با سعادت ہوئی۔ نبوت کا فریضہ ملا، کفر کا خاتمہ ہوا اور اسلام دُنیا بھر میں پھیل گیا۔ اسلام میں داخل ہونے ہونے کے لیے رب تعالیٰ کے ایک ہونے پر یقینِ کامل کے ساتھ حضور اکرم ﷺ کو آخری نبی ﷺ تسلیم کرنے کی شرط لازم ہے۔ علاوہ ازیں فرشتوں پر ایمان، الہامی کتابوں پر ایمان، روز آخرت پر ایمان بھی اسی حلف کا لازمی حصہ ہے۔

مسلمان ہونے کے بعد ارکانِ اسلام یعنی کلمہ، روزہ، نماز، زکوۃ اور صاحبِ استطاعت پر حج کی ادائیگی ہر حال میں ایک مسلمان پر فرض ہے۔ اسلام نے جہاں اخلاقِ حسنہ پر عمل داری کی تلقین کی ہے وہاں اخلاقِ رذائل سے اجتناب کا درس بھی دیا ہے۔ اس کے علاوہ سنت و نوافل اور رفاعہ عامہ کے کاموں کی ایک طویل فہرست بھی مجوذ کی ہے۔ اسلام میں داخل ہونے کا یہ ایک ضابطہ ہے جس کی صداقت اور اصالت میں کسی کو شک اور اختلاف نہیں ہے۔

اسلام کی آمد، حضور اکرم ﷺ کی وفات اور ختمِ نبوت کے بعد ایک طویل عرصہ تک مسلمان سنتِ نبوی ﷺ پر عمل پیرا رہے۔ رفتہ رفتہ ایمان پر ایقان کمزور ہونے لگا، دُنیاوی مال و منال اور دولت و شہرت نے دل میں جگہ لے لی۔ دین کی توضیح و تفہیم میں مسلمان فقہا کے درمیان اختلاف رونما ہوئے جس کے ردعملِ کے طور پر دسیوں مسلکی فرقے وجود میں آگئے جن کے ہاں اسلام کی جملہ تعلیمات پر عمل داری کا ایک اپنا نظام موجود ہے جس پر صدیوں سے ان مسالک کے پیروکار عمل پیرا ہیں اور اپنے تئیں خود کو مبنی بر حقیقت سمجھتے ہیں۔

دینِ اسلام کی تعلیمات پر عمل داری کا یہ فقہی اور مسلکی سلسلہ سیکڑوں برس سے جاری ہے۔ مرورِ وقت کے ساتھ اس نظام کے ساتھ ایک اور متوازی نظام وجود میں آیا جسے ولایت یعنی خانقاہی نظام کہا جاتا ہے۔ ولی، فقیر، درویش، قلندر، اللہ کا بندہ، مقبول بندہ وغیرہ اسی نظام کی وضع کردہ اصطلاحات ہیں۔ شریعتِ محمدی ﷺ پر عمل داری کے لیے اس نظام کو متعارف میں ابن عربی کا نام لیا جاتا ہے۔ ابنِ العربی اور ان کے جانشنیوں سے شروع ہونے والے متصوفانہ خانقاہی نظام نے دُنیا بھر میں اپنے مراکز قائم کیے۔ مرورِ وقت کے ساتھ اس متصوفانہ خانقاہی نظام نے ہندوستان کا رُخ کیا جہاں اس کے پاؤں اتنے مضبوط اور اثرات اتنے دیر پا ثابت ہوئے کہ ہندوستان میں اسلام کی آمد کا سہرا خانقاہی نظام کے سر پہنایا جاتا ہے۔

خانقاہی نظام کیا ہے اور اس میں وہ کون سے مراحل کارفرما ہیں جن کے ذریعے ایک مسلمان ولایت کا سفر طے کرتا ہے۔ کلمہء توحید پڑھ کر اسلام کے دائرے میں داخل ہونے سے لے کر ولایت کے درجے تک پہنچنے کے لیے اس خانقاہی نظام کا ایک طویل اور صبر آزما سلسلہ ہے جسے اختصار سے بیان کیا جاتا ہے۔ خانقاہی نظام سے مراد دینِ اسلام کے متوازی ایک ایسا نظام ہے جس میں ایک مسلمان کی روحانی تربیت کی جاتی ہے جو شریعتِ محمدی ﷺ کے عین اصول اور تقاضوں کے مطابق ہوتی ہے۔

خانقاہی نظا م میں ایک مسلمان کو روحانی تربیت کے لیے منتخب کرنے بعد سالک کا نام دیا جاتا ہے۔ سالک کو ایک مرشد یعنی راہنما کی ضرورت ہوتی ہے جس نے کامیابی سے یہ سفر طے کیا ہوتا ہے۔ ہندوستان میں چار مشہور سلاسل خانقاہی نظا م کے جانشین سالکین کی اپنے اپنے طُرق کی وضع کردہ نظامِ تربیت کے مطابق ولی اللہ بننے والے افراد کی تربیت کر رہے ہیں اور ہنوز سے سلسلہ جاری ہے۔ یہ سفر اِس طرح شروع ہوتا ہے کہ مجھے ولی اللہ بننے کا شوق ہے۔ مجھے بتایا جائے گاکہ قادری، چشتی، سہروردی اور نقشبندی سلاسل سے متصل کسی خانقاہ کے بزرگ کے پاس تشریف لے جاؤ، وہ مجھے اپنی نگرانی میں لے گا اور میری روحانی تربیت کا آغاز کر دے گا۔

مجھے اُس کے ہاتھ میں بعیت کرنی ہوگی۔ بعیت کرتے وقت مرشد صاحب کچھ ہدایات کریں گے جن پر سختی سے عمل کرنا ضروری ہوگا۔ مجھے یہ اختیار ہوگا کہ میں خانقاہ میں رہ کر ولی اللہ کے درجے کے حصول کی مشقت کروں یا آزاد، رہ کر اس عمل کو انجام دوں اور گاہے گاہے حسبِ ضرورت مرشد کی بارگاہ میں حاصل ہو کر تربیت کے عمل سے گزرتا رہوں۔ خانقاہی نظام میں ایک سالک کی تربیت یوں کی جاتی ہے کہ مرشد اس سے بعیت لیتے وقت مرید یعنی سالک کو بتلاتا کہ آپ اللہ تعالیٰ کو ایک مانتے ہیں، حضرت محمد ﷺ کو اللہ کا آخری نبیﷺ تسلیم کرتے ہیں، عقائدِ اسلام کے دیگر رُکن پر یقینِ کامل کے بعد ارکانِ اسلام پر سختی سے عمل کرنے کے پابند ہیں۔

مرشد مرید کو اس کے ایمانی درجے اور روحانی دلچسپی کے پیشِ نظر ورد عطا کرتا ہے جسے ہر وقت پڑھنا لازم ہوتا ہے۔ بعیت کے بعد سالک کی تربیت کا عمل غیر محسوس طریقے سے شروع ہو جاتا ہے۔ سب سے پہلے سالک کا سر مُونڈھ دیا جاتا ہے اور اسے پیوند لگے کپڑے پہنائے جاتے ہیں تاکہ اس کے اندر بننے سنورنے اور تراش خراش کی ظاہر داری اور دکھاوے کے جملہ داعیات کی حوصلہ شکنی ہو سکے جس کے نتیجے میں اس کی شخصیت میں موجود منفی داعیات آہستہ آہستہ ذہن و قلب سے محو ہو جائیں۔

سالک کا حُلیہ تبدیل ہونے کے بعد اس کی ڈیوٹی خانقاہ کے مرکزی دروازے پر آنے جانے والوں کی جوتیاں صاف کرنے پر لگائی جاتی ہے۔ جب تک سالک کے ذہن سے جوتیاں صاف کرنے کے حقیر کام کے منفی داعیات ختم نہیں ہو جاتے، سالک سے یہی کام لیا جاتا ہے۔ جس دن سالک کا ذہن اور قلب جوتیاں صاف کرتے ہوئے لطف محسوس کرنے لگتا ہے، اِس دن سے اس کی ڈیوٹی تبدیل کر دی جاتی ہے اور اسے واش روم صاف کرنے پر لگا دیا جاتا ہے، یہاں اس کی انَا کو مزید کچلا جاتا ہے تاکہ اس کے اندر اپنی شخصیت میں منفی داعیات کا قلع قمع ہو جائے اور اس کے ذہن اور دل میں موجود کدورت، نفرت، حسد، کینہ، بُغض، تنگ دلی، دُنیاداری، ظاہر داری، خود پرستی وغیرہ کا خاتمہ ہوجائے۔

واش رومز کی صفائی کی ڈیوٹی کے بعد اسے خانقاہ میں جھاڑو دینے پر لگایا جاتا ہے تاکہ اس کے ذہن و قلب اور روح میں موجود دُنیاوی خواہشات کے حصول کی جملہ کثافتوں کی گرد ہمیشہ کے لیے صاف ہو جائے۔ اس عمل سے گزرنے کے بعد اسے خانقاہ کے استعمال شدہ برتن صاف کرنے پر لگایا جاتا ہے جہاں اس کی انَا اور شخصیت کے دکھاوے کا رہا سہا احساس بھی کچل دیا جائے۔ اس کے بعد سالک کو خانقاہ میں آنے والے لوگوں کو کھانا کھلانے کی ڈیوٹی پر مامور کیا جاتا ہے۔ یہ مختلف کام انجام دیتے ہوئے اسے بیس سے پچیس سال لگ جاتے ہیں۔ اس دوران اسے شریعت کے تمام تقاضوں پر بھی عمل کرنا ہے۔

مرشد صاحب کی نظر میں گاہے گاہے اس کی ساری کارگزاری موجود وہتی ہے۔ مرشد صاحب غیر محسوس طریقے سے سالک کے اندر تسلیم و رضا کا عنصر دخیل کرتے جاتے ہیں۔ سالک خانقاہ میں رہتے ہوئے مذکورہ تمام امور کی انجام دہی کو ممکن بناتا ہے، ساتھ ساتھ فرض عبادات کے علاوہ نفلی عبادت بھی جاری رکھتا ہے۔ یہ عمل اتنا کٹھن، مشکل اور صبر آزما ہوتا ہے کہ ایک لاکھ سالک ولی اللہ بننے آتے ہیں تو آخر میں کوئی ایک ولایت کے مقام پر پہنچتا ہے، بقیہ سالکین رفتہ رفتہ حوصلہ ہار کر پتلی گلی بھاگ جاتے ہیں۔ سالک کو جس دن خانقاہ کی میزبانی کی ڈیوٹی مل جاتی ہے تو سمجھ لیجئے کہ اس دن سے اس کی روحانی تربیت کا باقاعدہ آغاز ہو جاتا ہے۔ اس سے پہلے کا سارا عرصہ صرف اس کی اَنا کو کچلنے میں صرف ہوتا ہے۔

اسے ارکانِ اسلام پر عمل کرنا سکھایا جاتا ہے، اس کے اندر منفی داعیات اور اخلاقِ رذائل کے جملہ عناصر کو نکال باہر کرنے پر محنت صرف ہوتی ہے، اس کے علاوہ سیکڑوں جہات پر مشقت کے اس عمل میں کام ہوتا ہے جن کا ذکر مضمون کی طوالت سے حذف کیا جارہا ہے۔

تصوف کے جملہ مسالک میں یہ تاثر سننے کو ملتا ہے کہ ولی اللہ بننے کا سفر تیس سے بتیس سال میں مکمل ہوتا ہے۔ تصوف میں راہِ سلوک کی تین منازل ہیں جن میں فنا فی الشیخ، فنا فی الرسول اور فنا فی اللہ ہیں۔ پہلی منزل فنا فی الشیخ ہے۔ جس کا اختصار سے ذکر ہوا ہے۔ بعد کی دو منازل طے کرنے والے ولی اللہ انگلیوں پر گِنے جا سکتے ہیں۔ ایک سالک ولی اللہ کے درجے تک پہنچتے پہنچتے عمر کادو تہائی حصہ گزار چکا ہوتا ہے۔ اس کے بعد مزید آگے بڑھنے کا سفر بھی اِتنا ہی مشکل، کٹھن اور آزمائشوں سے بھرا ہوتا ہےکہ لاکھوں اولیاء میں چند ایک یہاں سے آگے کا سفر طےکر پاتے ہیں۔

اس راہ میں جہاں عبادت و ریاضت اور نفس کُشی کے عمل میں سخت اور کڑی محنت کی ضرورت ہوتی ہے، وہیں شیطان کی طرف سے قدم قدم پر آزمائشیں سالک کا سامنا کرتی ہیں جو لمحہ لمحہ سالک کے ذہن و قلب کو بہکانے، ورغلانے اور راہ کھوٹی کرنے کے درپئے ہوتی ہیں۔ ولایت کے سفر پر قدم رکھتے ہی سب سے پہلے سالک کے مالی وسائل پر ضرب پڑتی ہے، یہاں سے کوئی سالک نکل گیا تو خانگی زندگی کے مسائل ناک میں دم کر دیتے ہیں، یہاں سے بھی سالک نکل گیا تو تہمتیں اور الزامات سے زندگی اجیرن ہو جاتی ہے، یہاں سے بھی آگے نکل گیا تو عجائباتِ عالم کی حیرانیاں سالک کی توجہ کو بھٹکا دیتی ہیں۔

قصہ مختصر ولایت کا سفر اتنا آسان نہیں ہے جتنا اولیا اللہ کی شخصیت سے منسوب کرامات کو سُن کر ولی بننے والے خواہش مندوں میں پیدا ہوتا ہے۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی صاحب اس سفر پر نکلنا چاہتا ہے تو وہ خواجہ فرید الدین عطار کی تذکرہ اولیا، داتا علی ہجویری کی کشف المحجوب پڑھ لے یا سید سرفراز اے شاہ صاحب کے لیکچر سن لے یا ان کی کتب کا مطالعہ کرے یا دیگر بزرگان کی تعلیمات پر مبنی کتب و ملفوظات کو نظر سے گزار لے۔

میں کندہ ناتراش جگر مراد آبادی کی زبان میں یہ یہی کہ سکتا ہے کہ:

یہ سفر نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجیے

اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے

Check Also

Kash Mamlat Yahan Tak Na Pohanchte

By Nusrat Javed