Talaq, Khula, Bache, Adalat Aur Bechari Dania
طلاق، خلع، بچے، عدالت اور بے چاری دانیہ
میں اپنے بچے کو اُس حرامی کے حوالے نہیں کر سکتی۔ میں ہادی کے سہارے جی لوں گی لیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ میں اس ننھی جان کو ایک بے حِس اور لاپروا انسان کے حوالے کر دوں جو اِسے معاشرے کا ناسور بنا ڈالے۔ اگر آپ اس بچے کے ساتھ چپکی رہی پھر کوئی تمہیں اپنانے کے لیے آمادہ نہ ہوگا۔
اس سے کیا فرق پڑتا ہے، میرے بچے کے ساتھ مجھے کوئی قبول کرے گا تو میں دل و جان سے اُس کی نوکرانی بن کر رہوں گی لیکن ہادی کے بغیر میں دوسری شادی نہیں کر سکتی۔ دل و جان سے نوکرانی بن کر ہادی کے باپ کے ساتھ چار دن مزید گزارہ کر لیا ہوتا تو یہ نوبت نہ آتی۔
وہ ایک بے حِس اور غیر ذمہ دار انسان تھا، میں اُس کے ساتھ کیسے گزارہ کر سکتی تھی، وہ نشہ کرتا ہے اور نشے کی عادت میں یہ بھول گیا ہے کہ میں ایک عورت ہوں اور ماں ہوں۔ چلیں وہ نشہ کرتا ہے اور مجبور ہے کہ نشے کی خوراک کے لیے اُس نے تمہیں فروخت کر ڈالنے کا طعنہ دیا ہوگا۔ اتنا بڑا فیصلہ لینے سے پہلے آپ نے یہ کیوں نہیں سوچا کہ عمر بھر ہادی کی ذمہ داری تمہارے سر رہے گی اور تمہیں خواہی نہ خواہی ذمہ داری کے اس بوجھ کو اپنے کمزور کاندھوں پر اُٹھانا پڑے گا۔
جناب! فیصلہ کرتے وقت یہ سب نہیں دیکھا سوچا جاتا، جذباتی کیفیت کے ہاتھوں مغلوب ہو کر انسان بعض دفعہ زمینی حقائق کو نظر انداز کر دیتا ہے۔ انسان یہ سوچتا ہی نہیں کہ آنے والا وقت کیسا ہوگا، میں جانتی ہوں مجھے تنہا معاشرے کے چبھتے ہوئے اذیت ناک سوالات کے جوابات دینا ہوں گے اور خاموش رہ کر اندر ہی اندر گھٹ گھٹ کر مرنا ہوگا۔
آپ کو چاہیے تھا کہ ہادی کی پرورش کا ذمہ لینے کی بجائے اسے باپ کے حوالے کرتیں اور آگے بڑھ جاتیں۔
آپ مرد ہیں، آپ ایسا سوچ سکتے ہیں لیکن میں ایک ماں ہوں، ماں مردوں کی طرح نہیں سوچتی وہ اپنی ممتا کے ہاتھوں مجبور ہوتی ہے، اُس نے اپنی کوکھ سے ایک نطفہ کو نو مہینے خون پلا کر جنم دیا ہوتا ہے۔ پیدائش کے وقت بچے کو جنم دینے والی لڑکی مر جاتی ہے اس کی جگہ بچے کے ساتھ ماں کا بھی جنم ہوتا ہے جس کا وجود بچے کے بدن سے نمو پاتا ہے۔
میں اب ماں ہوں، عورت نہیں ہوں۔ دانیہ کی باتیں اپنی جگہ بجا اور مبنی بر حقیقت ہیں تاہم پاکستانی معاشرت کے منافقانہ معیارات کے طرز ہائے تفکر کا کیا کِیا جائے کہ یہاں بچوں کے معاملے میں میاں بیوی کو برابر قصور وار ٹھہرایا جاتا ہے۔ شادی کے فوراً بعد میاں بیوی کے ذہن پر معاشرتی جبر کا دباؤ ہوتا ہے کہ جتنی جلدی ممکن ہو، حمل ٹھہر جائے اور ٹھیک نو ماہ بعد یعنی شادی کے نو ماہ تین دن بعد بچے کی پیدائش ہو جائے تاکہ ہم بطو ر میاں بیوی معاشرے کو منہ دکھانے کے لائق ہو جائیں اور شریکوں کو ٹھنڈ پڑ جائے۔
پاکستانی معاشرے میں جسمانی بلوغت کو ہی شادی کا پہلا اور آخری معیار سمجھا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا کے اس ہنگام پرور دور میں آٹھ سال کا بچہ اڈلٹ ہو چکا، اسے احتلام ہوتا ہے، یہ ماسٹر بیشن یعنی مُشت زنی کرتا ہے اور پورن دیکھتا ہے جبکہ دس برس کی لڑکی کو حیض تسلسل سے آرہا ہے اور اس کی صحبت بھی کوئی اچھی نہیں رہی۔ پاکستانی معاشرت میں سوشل میڈیا نے ایسی یلغار مچا رکھی ہے کہ 85 فیصد بچے بچیاں اس کی نحوست زدہ حرکات میں براہ راست ملوث ہیں۔
پانچویں کلاس کا بچہ ٹک ٹاک، انسٹا گرام اور یوٹیوب پر اکاونٹ بنا کر سبسکرائب بڑھنے کی خواہش رکھتا ہے، اسے یہ پتہ ہے یوٹیوب پرچینل بنا کر مونیٹائیز کروانا ہے اور پیسہ بنانا ہے۔
اب وہ دور گیا جب شادی کی عمر پچیس سے تیس سال کے درمیان تھی۔ بر سبیلِ تذکرہ ان حقائق کا ذکر اس لیے کِیا جا رہا ہے کہ شادی کی عمر خطرناک حد تک کم ہوگئی ہے یعنی اب آٹھ برس سے تیرہ برس کے درمیان بچے شادی کے لائق ہو چکے ہیں اور شادی کے تمام جنسی معاملات کی انجام دہی کے لیے خود کو تیار پاتے ہیں جس کا برملا اظہار راقم نے بارہا سُنا ہے۔
اس پر طُرہ یہ کہ والدین نے ذہنی طور پر بچوں کی شادی کی عمر اٹھارہ بیس برس سے بڑھا کر پنتیس چالیس برس پر لے گئے ہیں، استفسار کرنے پر بہانہ یہ تراشتے ہیں کہ بچے ابھی چھوٹے ہیں، پڑھ رہے ہیں، کچھ بن جائیں گے تو شادی کر دیں گے، کون سی آگ لگی ہوئی ہے کہ ابھی سے شادی کر دو، ابھی تو انھیں اُٹھنا بیٹھنا اور بات کرنا بھی ڈھنگ سے نہیں آتا۔ بھیا! یہ چونچلے اب بند کرو اور آنکھیں کھول کر معاشرے میں سوشل میڈیا کی بڑھتی ہوئی یلغار کی دھاڑ کو سُنو جو تمہارے معصوم بچوں کی معصومیت کو دن رات چاٹ رہی ہے اور تمہیں اس تباہی کا مطلق احساس نہیں۔
ہم دانیہ کی بات کر رہے تھے، دانیہ بیس برس کی تھی جب اس کی شادی ہوگئی، ٹھیک دس ماہ بعد اس کے ہاں لڑکے کی پیدائش ہوئی، ٹھیک دو سال بعد اس نے خاوند سے اس بنیاد پر خلع لے لیا کہ نشہ کرتا ہے اور مارتا پیٹتا ہے۔ دانیہ کا کیس ہر پانچویں گھر کی کہانی ہے، شہر کی نسبت دیہات میں نشہ کرنے والے نوجوان کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔
دیہات میں عورتوں کے ساتھ دہرا ظلم کیا جاتا ہے، شادی کے بعد خاوند صاحب کی پہلی اور آخری مصروفیت پے در پے بچے پیدا کرنا ہے۔ دیہات میں پانچ چھے بچوں سے کم فیملی کومکمل خاندان تصور نہیں کیا جاتا اور یہ طعنہ دیا جاتا ہے کہ اگر آپ سے پیدا نہیں ہورہے تو ہم مدد کر دیتے ہیں۔
عورت کا جسم پانچ برس میں پانچ بچے لے کر معذور کر دیا جاتا ہے، بغیر وقفے کے بچے لینے کا مقصد اس اندیشہ کا قلع قمع کرنا ہے کہ میری غیر موجودگی میں میری بیوی کسی اور بیج نہ ڈلوا لے۔ خاوند صاحبان یہ حرکت اس لیے بھی کرتے ہیں کہ تاکہ بیوی کہیں بھاگ نہ سکے اور مجھ سے خلع کا تقاضا نہ کرے۔ کچی عمر کی شادی اور بے سمجھی کے بے جوڑ رشتوں میں لگاتار پیدا ہونے والے بچے عورت کے لیے عذاب بن جاتے ہیں۔ ان بچوں کی دیکھ بھال اور پرورش میں اس کی جوانی، خواب، جذبات اور زندگی کی جملہ خواہشیں دم توڑ دیتی ہیں۔
پاکستان میں گذشتہ پندرہ برس سے طلاق کی نسبت خلع کا رجحان زیادہ بڑھا ہے۔ میں ذاتی طور پر عدالتوں میں خلع کے ہونے والے کیسز کا عینی شاہد ہوں کہ ہماری بیگم نے ہمیں طلاق دینے پر مجبور کیا اور ہم بیگم کی طرف سے کیے گئے مقدمات میں فیملی کورٹ میں ہفتے میں چار دن پیش ہوتے تھے۔ کچن سے چھوٹے عدالت کے کمرے میں جہاں چار آدمی مشکل سے کھڑے ہو سکتے ہیں وہاں 200 سے زائد کیسز کی روزانہ کی بنیاد پر پیشی ہوتی ہے۔
جج صاحب فقط ڈیٹ دیتے ہیں، نہ بحث نہ کارروائی اور نہ کوئی پیش رفت، مہینوں اسی طرح کیس چلتا رہتا ہے۔ وکیل سے کہا جائے کہ کیس نمٹا نے میں جلدی کرو تو کہتے ہیں میاں! یہاں ایسے ہی ہوتا ہے، دو چار برس تو کیس کے کاغذات جمع کرنے میں گزر جاتے ہیں، نباہ کرنا مشکل تھا تو جان چھڑانا کون سے آسان کام ہے، جو بویا ہے وہ کاٹنا پڑتا ہے، اپنے بوئے کو کاٹتے ہوئے تکلیف کیوں ہورہی ہے۔
پاکستانی عدالتوں میں انصاف نام کی کوئی چیز نہیں ہے، یہاں عورت اور مرد دونوں ایک طرح کی بے حسی اور لاپروائی کا شکار ہیں، پیشی پر جاتے ہوئے دو چار ہزار جیب میں ڈال کر جائیے اور یہاں وہاں دو، دو، سو روپے بانٹتے جائیے، کیس کے کبھی نہ ختم ہونے والے غیر متعلقہ کاغذات جمع کرکے فائل کا حجم کے ٹو پہاڑ جتنا کر لیجئے، کچھ نہیں ہونے والا۔ ان تلخ حقائق کے باوجود پاکستانی گھرانوں میں 77 فیصد طلاق و خلع کے کیس عدالتوں میں کیے جاتے ہیں۔
اس معاملے میں پیسہ اور سفارش کا بازار خوب گرم ہے، اگر آپ مالی طور پر آسودہ حال ہیں اور آپ کی انتظامی محکموں میں واقفیت ہے تو برسوں کا کام مہینوں میں ہونا ممکن ہے۔ وکیل کو پیسہ کھلائیے، مخالف پارٹی کو جتنا ذلیل کرنا چاہتے ہیں آرام سے کیجئے کوئی آپ کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔
مجھے ذاتی طور پر فیملی عدالتوں میں ذلیل ہونے کا دو برس تجربہ رہا، کہیں نہ کہیں یہ حقیقت مصلحتاً انصاف کی مسند پر براجمان جج صاحبان کے ہاں موجود ہے کہ سائل کو اتنا ذلیل کرو کہ خود ہی باہر کہیں بیٹھ کر آپس میں صلح کر لیں تاکہ ہم کیس کا فیصلہ کرنے سے آزاد ہو جائیں، ہماری ترقی ہوتی رہے، کسی انکواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
مجھے جج صاحب نے بارہا کہا کہ آپ دونوں آپس میں ڈیل کر لیں اور کیس نمٹا لیں یہاں تو برسوں گزر جاتے ہیں، پاکستانی عدالتوں پر قانونی رٹ کی سرنگونی کے پیشِ نظر جج صاحبان کسی حد تک ٹھیک بھی دکھائی دیتے ہیں کہ دو تین ماہ میں ان کا ٹرانسفر کر دیا جاتا ہے، نئے جج صاحب نئے سرے سے کیس سنتے ہیں، اس طرح برس ہا برس کیسز بغیر پیش رفت کے چلتے رہتے ہیں۔ آئے روز طویل انتظار میں بیٹھنے رہنے کی تذلیل سے زچ ہو کر دونوں پارٹیاں کچھ لے دے کر صلح کرکے خودساختہ اذیت سے جا ن چھڑا لیتے ہیں۔
کہا جاتا ہے تھانے اور عدالت کی دیواریں پیسے مانگتی ہیں، اس ضرب المثل میں دو سو فیصد سچائی ہے، جسے یقین نہیں آتا وہ آزما کر دیکھ لے۔ ہم دانیہ کی بات کر رہے تھے، دانیہ کی طرح ہزاروں لڑکیاں خلع لے کر بچوں کی تنہا پرورش کر رہی ہیں، عدالتوں میں دھکے کھا رہی ہیں اور معاشرے کی بے رحم نگاہوں میں بے قصور مجرم بن کر عذاب نما زندگی کے دن کاٹ رہی ہیں۔ داد رسی کے پیشِ نظر انھیں سمجھایا جائے تو ہر بات کا یہی جواب دیتی ہیں کہ میں اپنےبچے نہیں چھوڑ سکتی۔
پاکستانی مرد کی خصلت میں یہ عنصر شامل ہے کہ شادی کے بعد پیدا ہونے والے بچوں کی پرورش و نگہداشت کی ساری ذمہ داری ماں پر ہے، میں اس معاملے میں آزاد ہوں۔ بیگم بہت میز ہے، زبان چلاتی ہے، ماں کے آگے بولتی ہے، فساد ڈالتی ہے تو اِس کو طلاق دے کر دفعہ کرو، ایک اور لے آو۔
سابقہ خاوند سے پیدا ہونے والے بچے کو بظاہر مظلوم حقیقتاً بے وقوف یہ ماں اپنے ساتھ لے جاتی ہے اور اپنی زندگی کو تباہ کر لیتی ہے۔ میں ذاتی طور پر اس نوعیت کے سیکڑوں کیسز کو سٹڈی کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ نکاح نامہ میں دیگر شرائد کے ساتھ یہ شرط بھی درج کی جائے کہ خلع یا طلاق کی صورت میں پیدا ہونے والے بچوں کی حوالگی اور پرورش کا ذمہ دار باپ ہوگا، ماں اس معاملے میں آزاد تصور کی جائے گی خواہ وہ بچے کی حوالگی کا مطالبہ عدالت و پنچائت میں کرے۔
اس شرط کے اضافہ کے بعد طلاق کی شرح خود بہ خود کم ہو جائے گی، جب فرعون زدہ سوچ کا حامل لڑکا باپ بن کر پیدا کیے ہوئے بچوں کے پیمر بدلے گا، ان کے بھوکے پیٹ میں دانہ ڈالتے ہوئے فاقے کی حالت سے گزرے گا تو اسے احساس ہوگا کہ بچے پیدا کرنے اور پالنے میں کتنا مزہ آتا ہے۔
لڑکے کے گھر والے یعنی اس کی ماں اور بڑی بہن کو بڑا شوق ہوتا ہے نئی دلہن لانے کا اور پہلی والی کو دھکے دے کر گھر سے نکالنے، انھیں جب یہ علم ہوگا کہ ہمارے نمک حرام کے پیدا کیے ہوئے بچے ہمیں کو سنبھالنے ہیں اور چِتڑ دھونے ہیں اور گند صاف کرنا ہے تو ان کی عقل ٹھکانے آجائے گی، اس طرح کے اوٹ پٹانگ مشورے دینے اور دنگل بپا کرنے سے یہ ناہنجار خواتین حتی الاامکان گریز کریں گی نیز پرائے گھر سے لائی ہوئی لڑکی پر ظلم کی بجائے رحم کا ہاتھ رکھیں گی۔
خلع کا معاملہ واضح ہے، (بعض اصحابِ فہم کا یہ کہنا ہے کہ اسلام میں خلع کے بارے میں ٹھوس معلومات نہیں ملتی، اس لیے یہ فعل مطلقاً حرام ہے)، لڑکی جب خلع کا تقاضا کرتی ہے تو اس کا مطلب بہت صاف ہے کہ وہ خود رشتے کو مزید جاری رکھنا نہیں چاہتی، خلع کے بعد بطور سزا پیدا کی ہوئی اُولاد لڑکی کے حوالے کی جائے تا کہ اسے اپنے کیے ہوئے فیصلے کی سزا بچوں کی پرورش کی صورت بھگتنا پڑے (بعض معاملات میں یہ نوعیت یکسر بدل جاتی ہے)، عدالت اس بات کو یقینی بنائے کہ باپ خلع کی صورت میں خرچہ ضرور دے گا خواہ وہ اپنی اُولاد سے تعلق رکھے یا رابطہ منقطع کر دے۔
طلاق کی صورت میں پاکستان کا عدالتی نظام عجیب ہے، خلع ہو یا طلاق، دونوں صورتوں میں بچوں کی ذمہ داری عورت پر ہی کیوں آتی ہے، موجودہ صورت حال میں یہ غلط ہے، اس قانون پر نظرِ ثانی کی ضرورت ہے۔ طلاق کی صورت میں بچوں کی حوالگی اور پرورش کی ذمہ داری باپ پر عائد ہونی چاہیے خواہ ماں اس ذمہ داری کو خوشی سے قبول کرنے کی طلب و ضد کرے۔
پاکستانی معاشرے میں طلاق کی صورت میں عورت کو وہ مقام اور عزت نہیں ملتی جو اسے پہلے میسر تھی۔ معاشرے کی ہمدردی لینے کی غرض سے عورت یہ فیصلہ کرتی ہے کہ میں بچوں کو سنبھال لوں گی، خرچہ بھی نہیں لوں گی اور میں سب کچھ مینج کر لوں گی۔ میں سمجھتا ہوں، اس معاملے میں عورت ٹھیک نہیں ہے، اسے یہ فیصلہ نہیں لینا چاہیے، اس فیصلے کا مطلب ایک عورت اپنے اُوپر ہونے والے ظلم کو درست تصور کرتی ہے اور ظالم مردوں کو مزید یہ موقع فراہم کرتی ہے کہ ایک اور عور کو بیاہ کر لاؤ اور اسے اپنی جنسی ہوس کا نشانہ بنا کر بطور ثبوت بچہ پیدا کرو اور اسے بھی چلتا کرو۔
یہ ایسا موضوع ہے جسے ایک کالم میں سمیٹنا مشکل ہے، مختصر یہ کہ پاکستانی معاشرت میں عملی اسلام کی صورت حال انتہائی مایوس کُن ہے، مارا ماری کے اس دور میں 85 فیصد عورتوں پر جنسی زیادتی سے لے کر جبری طلاق کا ظلم ہوتا تو سب کو دکھائی دیتا ہے لیکن ان مظلوم عورتوں کے آنسو پونچھنے والا اور اس کی داد رسی کرنے والا سامنے نہیں آتا۔ عورت مارچ ٹائپ حقِ نسواں کی علمبردار این جی اُوز فقط فنڈ لینے اور پراپوگنڈہ کرنے میں سوشل میڈیا پر پیش پیش ہیں لیکن عدالتوں میں پھنسی مظلوم عورتوں کی راہ ہموار کرنے میں عملاً کہیں دکھائی نہیں دیتیں۔
ظلم و جبر اور زیادتی و بے حسی کے اس دور میں چکی کے دونوں پاٹ میں پِس کر سُرمہ بننے والی عورتوں پر خدا تو رحم کرتا ہے لیکن معاشرہ اسے ترس کی نگاہوں سے نہیں دیکھتا۔ طلاق و خلع لینے والی آج میری بہن، بیٹی اور بیوی ہوسکتی ہے، کل کو آپ کی بھی۔ خدا کے لیے طلاق و خلع کافیصلہ لیتے ہوئے یہ ضرور سوچیے کہ یہ پاکستان ہے، یہاں بدنامی و رُسوائی کا دھبا ایک بار لگ گیا تو پھر دُنیا کی کوئی طاقت سے دُھو نہیں سکتی۔