Research Article Kyun Likha Jaye?
ریسرچ آرٹیکل کیوں لکھا جائے؟
ریسرچ آرٹیکل کیوں لکھا جائے؟ یہ سوال درست نہیں ہے۔ سوال یہ ہونا چاہیے کہ ریسرچ آرٹیکل کیسے لکھا جائے۔ جی بالکل۔ ریسرچ آرٹیکل کس طرح لکھا جاتا ہے، اس سوال کے جواب کے لیے پچاس سے زائد کُتب اُردو زبان میں اور سیکڑوں مضمون دیگر زبانوں میں انٹرنیٹ پر آسانی سے دستیاب ہیں۔ اس حوصلہ افزا صورتحال کے باوجود ریسرچ آرٹیکل لکھنا جوئے شِیر لانے کے مترادف ہے۔ ریسرچ آرٹیکل کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے اور اس کے کیا علمی اور مالی فوائد ہیں۔ اس کے بارے میں بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔
اس مضمون میں جامعات کے تحت شائع ہونے والے ریسرچ جنرل میں ریسرچ آرٹیکل لکھنے سے لے کر شائع کروانے کے مراحل کا تجزیہ کرنا مقصود ہے۔ پاکستان بھر کی سرکاری اور نجی جامعات میں ہر شعبہ میں ریسرچ جنرل شائع ہوتے ہیں جن کی تین اقسام ہیں۔ سہ ماہی، شش ماہی اور سالانہ، ان تین قسم کے ریسرچ جنرل میں مختلف مکتبہ فکر سے متصل موضوعات کے بارے میں تحقیقی و تنقیدی ریسرچ آرٹیکل لکھے جاتے ہیں۔ ان آرٹیکل کی ضرورت بی ایس، ایم اے اور ایم فل(بعض شعبہ جات میں) کے طلبا کو نہیں ہوتی بلکہ یہ آرٹیکل ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کی شرائط کے مطابق پی ایچ ڈی پروگرومز میں ہونے والی تحقیق کے سلسلے میں لکھوائے جاتے ہیں جنھیں تھیسز کے اوپن ڈیفنس کے بعد نوٹیفیکیشن کے حصول کے لیے ریسرچ اسکالر کی فائل کے ساتھ ہائر ایجوکیشن کمیشن کو بھجوانا ضرور ی ہوتا ہے وگرنہ ہائر ایجوکیشن کمیشن اسکالر کی پی ایچ ڈی کا نوٹیفیکیشن جاری نہیں کرتا۔
ایم فل کی سطح پر آرٹیکل کی شرط اُردو زبان و ادب کی حد تک لاگو نہیں ہوتی۔ پی ایچ ڈی کے سبھی پروگرامز میں دو عدد آرٹیکل شائع کروانا ضروری ہوتے ہیں تاہم بعض استثنائی صورتوں میں ایک عدد آرٹیکل سے بھی کام چلایا جا سکتا ہے۔ ریسرچ آرٹیکل کا تعلق ہائر ایجوکیشن کمیشن کے وائی کیٹگری کے جنرلز میں ہونا ضروری ہے۔ اُردو زبان و ادب سے متصل وائی کیٹگری کے بیالیس کے قریب جنرلز لسٹڈ یعنی مصدقہ ہیں۔
ریسرچ اسکالر کے علاوہ ریسرچ آرٹیکل کی ضرورت جامعات میں پڑھانے والے اساتذہ کو درپیش ہوتی ہے جن کی پرموشن کا انحصار انھیں ریسرچ آرٹیکل کی وائی کیٹگری میں زیادہ سے زیادہ تعداد میں اشاعت پر ہوتا ہے۔ جامعات میں اساتذہ کی بھرتی اور پرموشن کا طریقہ کار ہائر ایجوکیشن کمیشن نے طے کر رکھا ہے جسے زیادہ تر جامعات فالو کرتی ہیں جبکہ نجی جامعات میں ان اُصول و ضوابط سے بعض صورتوں میں انحراف دکھائی دیتا ہے۔ جامعات میں لیکچررBPS 18 کی تقرری کے لیے کم از کم تعلیم ایم فل مقرر کی گئی ہے، لیکچرر کی سیٹ کے لیے آرٹیکل اور تدریسی تجربہ کی شرط لاگو نہیں ہے۔
اسسٹنٹ پروفیسر کے لیے کم از کم تعلیم پی ایچ ڈی ہے اور آرٹیکل اور تدریسی تجربے کی شرط اس سیٹس کے لیے بھی لاگو نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جامعات میں BPS 18، BPS 19 کی سیٹس کے لیے کسی قسم کے ریسرچ آرٹیکل کی (اُردو زبان و ادب کی حد تک) کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ان سیٹس پر تقرری کا انحصار اُمیدوار کی تعلیمی قابلیت، شعبہ کے چیرمین کی خوشنودی اور وی سی کی ذاتی پسند اور دلچسپی پر منحصر ہوتی ہے۔ ایسوسی ایٹ پروفیسرBPS 20 کے لیے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے مطابق اُمیدوار کی کم از کم تعلیم پی ایچ ڈی ہونا ضروری ہے۔
اس کے علاوہ دس سالہ پوسٹ گریجوایٹ سطح کا تدریسی تجربہ لازمی ہے نیز ہائر ایجوکیشن کمیشن کے وائی کیٹگری کے ریسرچ جنرلز میں دس ریسرچ آرٹیکل پرنسپل آرتھر کے ساتھ شائع ہونا ضروری ہیں جن میں چار ریسرچ آرٹیکل گذشتہ پانچ سال سے زیادہ پرانے نہیں ہونا چاہیے۔ جامعات میں پروفیسرBPS 21 کی تقرری کے لیے کم از کم تعلیم پی ایچ ڈی ہونا لازمی ہے، علاوہ ازیں پندرہ سال کا پوسٹ گریجوایٹ سطح کا تدریسی تجربہ لازمی ہے نیز ہائر ایجوکیشن کمیشن کے وائی کیٹگری کے ریسرچ جنرلز میں پندرہ ریسرچ آرٹیکل کا شائع ہونا ضروری ہیں جن میں پانچ آرٹیکل کی اشاعت گذشتہ پانچ برس سے زیادہ پرانی نہیں ہونی چاہیے۔
یہ ہے وہ قباحت جس کی وجہ سے جامعات کے شعبہ جات میں نکلنے والے ریسرچ جنرلز میں ریسرچ آرٹیکل شائع کروانے پر ہر طرح کی سیاست، منافقت، مفاد پرستی اور مالی تعاون و دیگر ذرایع کی جملہ سرگرمیاں عروج پر دکھائی دیتی ہیں۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن اگر گذشتہ پانچ برس سے زیادہ پرانا چھپا ہوا آرٹیکل بھی تسلیم کر لے تو یہ ستائش باہمی اور منافقت و مفاد پرستی اور رسم و راہ اُلفت و عداوت کا سلسلہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے۔
پاکستان میں جہاں ہر پالیسی میں رفو کا کام نکلتا رہتا ہے وہیں تعلیمی پالیسوں میں بھی گرد کی موٹی تہ ہمیشہ جمی رہتی ہے جسے ہٹانے کی کوشش میں کُرسی سے اُٹھوا دیا جاتا ہے۔ جمود کاری کا یہ سلسلہ یونہی چھیتر برس سے چل رہا ہے۔ جامعات میں اساتذہ کی پرموشن کا طریقہ بھی عجیب و غریب ہے۔ میرے ناقص علم کے مطابق جو صورتحال ہے وہ یہ کہ لیکچرر کو اسسٹنٹ پروفیسر اور اسسٹنٹ کو ایسوسی ایٹ پروفیسر بننے کے لیے ہر بار نئے سرے سے درخواست دینا پڑتی ہے اور ہر بار ایک نئی آزمائش سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہ قباحت ختم ہونی چاہیے۔
جامعات کے درمیان اساتذہ کے ٹرانسفر کا کوئی انتظام اور پالیسی سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ جامعات کے اساتذہ عمر بھر ایک ہی جامعہ میں مقید رہتے ہیں، یہ بے چارے چاہ کر بھی کسی دوسرے جامعہ میں میچوئل یا انڈویجوئل ٹرانسفر نہیں کرواسکتے۔ حکومتِ وقت کو چاہیے کہ جامعات کے درمیان ہر تین سال بعد میچوئل ٹرانسفر اوپن کیے جائیں تاکہ جو اساتذہ ایک جامعہ سے دوسری جامعہ میں جانا چاہتے ہیں وہ با آسانی جاسکیں اور تدریسی عمل میں بھی تعطل نہ آئے۔
اسی طرح انفراد ی حیثیت میں بھی اساتذہ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ ٹرانسفر ہونے کی اجازت ہونی چاہیے جس طرح سکول، کالجز میں ہوتا ہے۔ یہ تو ایک طرح کی سزا ہوئی کہ ایک جگہ ملازمت مل گئی ہے تو ریٹائر منٹ وہیں سے ہوگی۔ جامعات میں پروموشن کے سلسلے میں واضح پالیسی بنائی جانی چاہیے کہ جامعات میں سیٹس خالی ہونے کی صورت میں انٹرنل پرموشن سسٹم کے تحت مستحق اُمیدوار کو اگلے گریڈ میں ترقی دی جائے تا کہ اُمیدوار کا یہ استحقاق نئے سرے سے بھرتی کے عمل میں باہر سے آنے والے شاطر اُمیدواران کے ہاتھوں مارا نہ جائے۔
اس پالیسی کے نافذ العمل ہونے سے جامعات کے اساتذہ میں باہمی قُربت بڑھے گی اور تعصب و منافرت کے داعیات میں کمی واقع ہوگی۔ ریسرچ آرٹیکل کے حوالے سے ہر جامعہ کا ایک اپنا طریقہ کار ہے جو دوسری جامعہ سے اس قدر مختلف ہے کہ ریسرچ سکالر ایک آرٹیکل چھپوانے کے بعد توبہ کر لیتا ہے کہ آئندہ اس وادیِ پُر خار میں قدم نہیں رکھنا۔ ہائر ایجوکشن کمیشن نے وائی کیٹگری کے ریسرچ جنرلز میں ریسرچ آرٹیکل چھپوانے کی معقول فیس لینے کی اجازت دے رکھی ہے جس کا مدیران نے ناجائز فائدہ اُٹھایا ہے۔ مدیران ایک آرٹیکل کی فیس ساٹھ ہزار سے لے کر پانچ ہزار روپے تک لے رہے ہیں اور کوئی انھیں پوچھنے والا نہیں ہے کہ فیس میں اتنا تضاد کیوں ہے۔ ساٹھ ہزار روپے وصول کرنے والا ریسرچ جنرل کیا وائی کیٹگری میں معیار کے اعتبار سے کس نوعیت کا ہے جو اس قدر بھاری فیس وصول کر رہا ہے۔
جامعات میں پرموشن کے لیے ریسرچ جنرل میں وائی کیٹگری ہونا اگر یونہی لازمی رہے گا تو فیس کی مد میں یہ ظلم کیوں روا رکھا ہوا ہے کہ جامعات میں اساتذہ پرموشن کے لیے اپنی تنخواہ ایک تہائی حصہ ریسرچ آرٹیکل کی اشاعت میں صرف کر دیتے ہیں اور پرموشن پھر بھی نہیں ہوتی۔ حکومتِ وقت کو چاہیے کہ وائی کیٹگری کے سبھی جنرلز کی فیس میں یکسانیت کی پالیسی کے سخت گیر اُصول نافذ کیے جائیں تاکہ نو آموز سکالر اور کہنہ مشق محققین کی تحقیقی صلاحیتوں کو جلا مل سکے اور کوئی ڈھنگ کا نام سامنے آسکے۔
مدیران عموماً آرٹیکل صرف آن لائن کرتے ہیں، اسے ہارڈ صورت میں پرنٹ نہیں کرتے جس کی مد میں لاکھوں روپے لکھنے والوں کی جیب سے نکل کر ان کے بٹوؤں میں جاتے ہیں یا پتہ نہیں کہاں صرف ہو تے ہیں۔ اس پر مزید ستم یہ کہ ہائر یجوکیشن کمیشن کے نمائندگان بھی ریسرچ جنرل کو وائی کیٹگری میں منظور کرنے کے لیے مدیران سے بھاری مالی معاونت کا تقاضا کرتے ہیں، اس شکایت کا تذکرہ بیشتر مدیران کی طرف سے سُننے کو ملتا ہے۔ چند ریسرچ آرٹیکل ایسے ہیں جن کے ہاں معیار کو دیکھا جاتا ہے اور انجمن ستائشِ باہمی کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے، ان جنرلز میں بنیاد، زبان و ادب، اُرد اور امتزاج(اردو زبان کی حد تک)وغیرہ کو رکھا جاسکتا ہے، ان جنرلز کے مدیران کی غیر جانبداری کا مجھے ذاتی تجربہ ہوا ہے۔
آرٹیکل لکھنا ہر شعبہ میں تحقیق کو آگے بڑھانے کے لیے نہایت ضروری ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ ریسرچ کی راہ کو ہموار کیا جائے۔ پاکستان میں یہ بات اُصولاً طے کر لی گئی ہے کہ پاکستانیوں کو تعلیم سے روشنا س نہیں ہونے دینا۔ اگر یہ ہجوم تعلیم کے ذریعے باشعور ہوگیا تو ہمیں ووٹ کون دے گا اور ہماری ناک کے نیچے بنیادی ضرورتوں کے حصول کی بھیک کون مانگے گا۔ تعلیمی میدان میں جہاں بے شمار نقائص موجود ہیں وہاں اس بات کا یقینی طور پر تفاخر بھی حاصل ہے کہ تعلیم کی ترسیل کسی نہ کسی صورت جاری ہے۔ سرکاری اور نجی جامعات میں ریسرچ جاری ہے اور مرورِ وقت کے ساتھ اس میں جدت آرہی ہے۔
پاکستان میں پیدا ہونے والے ہر بچے کا یہ بنیادی حق ہے کہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرے اور اپنی تخلیقی و تحقیقی اور موجدی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر ملک کی خوشحالی اور ترقی میں اہم کردار ادا کرے۔ ملک کے محافظوں اور منتظموں کی اگر ہم پر شفقت اور نظرِ کرم ہو جائے تو چند برس میں ہم بہ حیثیت ہجوم نہ صرف ایک قوم بن سکتے ہیں بلکہ تحقیق و تخلیق اور ایجادات و دریافت کے میدان میں ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہو سکتے ہیں۔