Pakistani Siasat Ka Almiya
پاکستانی سیاست کا المیہ
آپ سچ کہتے ہیں لیکن آپ کا یہ سچ اب ہمیں ہضم نہیں ہوتا۔ پاکستانی سیاست دانوں کا یہ المیہ رہا ہے۔ جب ان پر مشکل وقت آتا ہے۔ ان کی زبان سچ اُگلنے لگتی ہے۔ جب ان کے ساتھ جھوٹوں کا ٹولہ مفاہمت کر لیتا ہے۔ تب ان کی زبان سےکِذب کا پر چار سُنائی دیتا ہے۔ ہم یہ کر دیں گے، ہم وہ کر دیں گے، ہم نے یہ کیا ہے۔ ہم نے وہ کیا ہے۔ یہ سطحی، روایتی، کثافتی اور غلاظتی جملے گذشتہ پچھتر برس سے رعایا سُن رہی ہے۔ ان جملوں کو عملی شکل کبھی نصیب ہوئی اور نہ مستقبل قریب میں ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔
جب آپ حکومت میں ہوتے ہیں۔ آپ کامزاج عرش پر ہوتا ہے۔ آپ بھول جاتے ہیں کہ آپ انسان ہیں۔ آپ کس کے ووٹ سے یہاں تک پہنچے ہیں۔ آپ نے حکومت کے ایوانوں تک رسائی رعایا کے ووٹ سے لی ہوتی ہے۔ اس رسائی کے پس منظر میں گلہ پھاڑ، پھاڑکر آپ نے رعایا سے وعدے بھی کیے ہوتے ہیں۔ جب آپ حکومتی نشستوں پر بیٹھ کر عوام مخالف بِل پاس کرتے ہیں اور باہر آکر میڈیا کے ذریعے عوام کو یہ بتلاتے ہیں کہ پاکستان کے بہترین مفاد کے لیے یہ ہمیں کرنا پڑے گا۔ وہ ہمیں کرنا پڑے گا۔ یوں کرنا پڑے گا۔ اس گا، گے، گی کے چکر میں پاکستانی رعایا کا کچومر نکل گیا ہے۔
پاکستانی سیاست کا یہ المیہ ہے کہ یہاں جسے اقتدار مل جاتا ہے وہ فرعون بن جاتا ہے۔ جسے نظر انداز کر دیا جائے وہ مسیحا بن جاتا ہے۔ رعایا، ایک ایسے گدھے کی مانند ہے جس پر صاحبِ اقتدار اپنا لوہا لادھ کر ڈھوتا رہتا ہے اور اختیار سے محروم اپنی بوسیدہ اُون ڈال کر سرِ بازار لیے، لیے پھرتا ہے۔ پاکستانی سیاست دان گذشتہ پچھتر برس سے بنیادی انسانی ضرورتوں کی عدم دستیابی اور حصول کے یقین کا چورن بیچ رہے ہیں۔
قیامِ پاکستان کے بعد سے اب تک کتنی حکومتیں تبدیل ہوئے۔ کتنے وزیر اعظم آئے اور گئے۔ آج کا وزیر اعظم کل کا، چور، ڈاکو، لُٹیرا اور غدارِ وطن آپ ہی ثابت کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کو چلانے والا صرف ایک ہی ادارہ ہے جس کے پاس بھینس کی نوکیل ہے؟ باقی ادارے کیا مر کھپ گئے ہیں؟ ایک ادارہ کے پاس اگر اتنی طاقت ہے تو سوال یہ ہے۔ اس ادارہ کو اتنا مضبوط کس نے کیا ہے؟ کیا رعایا نے اس ادارہ کو اتنا مضبوط، توانا اور ناقابلِ شکست بنا دیا ہے؟ اگر یہ حقیقت ہے تو رعایا کو چوراہے پر سولی دے ڈالیں۔ اگر یہ گناہ آپ نے کیا ہے تو اس کا اعتراف کر یں اور رعایا کے سامنے اپنا گریبان کر دیں۔ رعایا یقیناً آپ کو معاف کر دے گی۔ مزید موقع فراہم کر ے گی۔
دست بستہ عرض کرے گی، حضور! آپ آئیے اور ہمارا خون نچوڑ لیجیے۔ ہماری سانسیں اُدھار دے دیجیے۔ ہماری چمڑی کے جوتے بنا لیجیے۔ ہمارے بچوں کی زندگی رہن رکھ دیجیے۔ ہمارے اثاثے اونے پونے بیچ ڈالیے۔ یہ سب کچھ کر لیجئے لیکن یہ مت کہیے کہ فلاں نے یہ کر دیا ہے، فلاں نے وہ کر دیا ہے۔ یہ سب کرتوت آپ کے ہیں۔ یہ سب گناہ آپ نے ہی کیے ہیں۔ پاکستان اس وقت جس تنزل کی حالت ہے۔ یہ سب آپ کی نالائقی، کم علمی، ناتجربہ کاری، مفاد پرستی، لوٹ بازاری، کھسوٹ گری اور حد درجہ بے حسی کی وجہ سے ہے۔ غلام قوم کو آزادی نصیب ہو جائے تو پچاس سال میں ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہو جاتی ہے۔ ہمیں تو چھیتر برس ہونے کو ہے۔ ہمیں کیا موت پڑ گئی ہے۔ کس نے ہم پر جادو، ٹونہ کر دیا؟ کس نے ہمیں بد نظر لگا رکھی ہے؟ کون سی کالی بِلی ہمارا راستہ کاٹ رہی ہے؟ کس نے ہم پر جنوں اور بھوتوں کا آسیب مسلط کر رکھا ہے؟ کس طاقت نے ہمیں اسیر کر لیا ہے۔ کس ان دیکھی مخلوق نے ہمارے اعضا مضمحل کر دئیے ہیں؟ کس جبر کے آگے ہم سر تسلیم خم کیے بیٹھے ہیں؟
آخر کوئی وجہ بھی تو ہو جس کو تعقل کی بنیاد پر پرکھا جائے اور اس کا کوئی ٹھوس اور پائدار حل نکالا جائے۔ جس طرح یہ ملک چل رہا ہے۔ اس طرح ملک نہیں چلا کرتے۔ یہ ملک چل نہیں رہا۔ یہ ملک رینگ رہا ہے۔ یہ ملک سِسک رہا ہے۔ یہ ملک اپنی موت آپ مر رہا ہے۔ یہ ملک خود کو کھائے جاتا ہے۔ یہ مٹتا جاتا ہے۔ خدا کے لیے اس ملک پر رحم کیجیے۔ آپ رعایا کے نمائندے ہیں۔ آپ نے ہی سیاست کرنی ہے۔ آپ نے ہی رعایا کے لیے اچھا سوچنا ہے۔ آپ ہی نے اس رعایا کی بنیادی ضرورتوں کو ضرورت سے زیادہ بہم پہنچانا ہے۔ آپ رعایا کے والی، مولا اور آقا ہیں۔ آپ ہی کی عزت ہے۔ آپ ہی کی توقیر ہے۔
وقت بدل چکا ہے۔ حالات یکسر تبدیل ہو چکے ہیں۔ سیاست کا عالمی منظر نامہ کسی اور طرف لیے جاتا ہے۔ فقط تنہا اور بے یارومدگار اگر کوئی ملک ہے تو وہ ہمارا ہے۔ آخر کب تک ہم دوسروں کے سہارے آگے بڑھنے کا دعوا کریں گے۔ بھکاری ملک کی کوئی عزت، غیرت اور شناخت نہیں ہوتی۔ بھکاری بھکاری ہی رہتا ہے۔ پچاس برس سے ہم جن سے چندہ لیتے ہیں، اُنھیں کو بُرا کہتے ہیں اور اکٹرتے ہیں۔ جن کے سہارے آپ یہاں تک آتے ہیں، اُنھیں کو دُشنام بھی کرتے ہیں۔ محافظ ادارے سے جھگڑا آپ کا ہے۔ آپ دونوں مل بیٹھ کر معاملات اور حد بندیوں کو طے کر لیں۔ آپ کو اسی دریا میں رہنا ہے اور اسی دریا کے مگر مچھ سے سمجھوتہ بھی کرنا ہے۔
اعتراف کر لیجیے کہ آپ سے غلطیاں ہوئی ہیں۔ آپ کی اِنھیں غلطیوں کی وجہ سے آپ بھی سزا بھگت رہے ہیں۔ یہ ملک اور اس کی جملہ رعایا بھی اس سزا میں ہاتھ پاؤں سے محروم ہوگئی ہے۔ آپ اپنے آپ کو پاک کریں۔ یہ عہد کریں کہ بھیا! ماضی میں جو کچھ ہوا، سو ہوا۔ اب ہمیں باہم اتحاد و اتفاق سے آگے بڑھنا ہے۔ بات ملک کے مفاد اور اس کے بقا کی ہے۔ اب جنگ ذاتی مفادات کی نہیں ہوگی۔ کرسی، کرسی بہت کھیل لیا ہم نے۔ اب ہمیں سنجیدگی، وفا دارای اور دیانتداری سے اس ملک کی خوشحالی اور بقائےِ دائمی کے لیے سوچنا ہوگا۔ کوئی بھی منصوبہ بنا لیجیے اور اس پر عمل درآمد کیجیے۔ کیچڑ اُچھالنا، الزام تراشی کرنا، بُرا، بُرا کہنا، ڈاکو، چور، لُٹیرا اور ایجنٹ کہان، اب بند کر دیجیے۔ پاکستانی رعایا مزید آپ کی اس مذموم سیاست گری کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ یہ اجتماعی آزمائش ہے جو اِس ملک پر مسلط کر دی گئی ہے۔
خدا تعالیٰ کسی قوم کو نافرمانی اور ناشکر گزاری کی سزا ضرور دیتا ہے۔ اس ملک کو رب تعالیٰ کا نام لے کر آپ کے بزرگوں آزادی کا منصوبہ بنایا تھا۔ ہمارے بزرگوں نے آپ کے حکم پر بخوشی جان و مال اور عزت و نفوس کی قربانی دے کر آزادی کی راہ ہموار کی تھی۔ لاکھوں لوگ جو اس وطن کی تعمیر میں جان سے گزر گئے۔ ان کو آخرت میں کیا جواب دیں گے؟ ہمیں نہیں پتہ کہ کون سچا ہے اور کون جھوٹا ہے؟ ہم تو اتنا جانتے ہیں کہ آپ سچے ہیں۔ آپ بہت اچھے ہیں۔ آپ صادق ہیں اور امین بھی ہیں۔ آپ کو سب پتہ ہے کہ نقص کہاں ہے اور اس کا علاج کیا ہے؟ آپ کو رب تعالیٰ نے ہر اُس صلاحیت اور جوہرِکامل سے آگاہی دی ہے جو اِس ملک کی ترقی اور خوشحالی ک لیے کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے۔
دیر کس بات کی ہے! میرے پیارے، ہر دل عزیز پاکستانی سیاست دانوں! خدمتِ خلق کا موقع بار، بار نہیں آتا۔ زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں ہے۔ اگلا سانس آئے نہ آئے۔ رعایا آپ کے لیے کیا کر سکتی ہے؟ رعایا آپ کو ووٹ کے ذریعے اپنا پیشوا اور رہبر بنا سکتی ہے۔ رعایا آپ کو ووٹ دے گی اور طاقت و اختیار کے حصول کی یقینی راہ بھی ہموار کرے گی۔ رعایا اپنے وعدے کا پاس کرے گی۔ اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ نے اپنے گھونسلہ کی فکر کرنی ہے۔ اپنے بچوں کا مستقبل دیکھنا ہے۔ اپنے محلات کو مزین کرنا ہے۔ اپنی نسلوں کے لیے مالِ مفت دل بے رحم کی مَثل سچ ثابت کرنی ہے یا، ان سب ذاتی مفادات و معاملات سے بالاتر ہو کر ملک کے وسیع تر مفاد کے لیے نیشنل ایکشن پلان پر عمل کر نا ہے۔
آپ کو ہم پر یقین نہیں ہے لیکن ہمیں آپ پر کامل یقین ہے۔ آپ کے ہاتھ میں ہمارا مستقبل ہے۔ ہمیں مایوس مت کریں۔ خدا کے لیے ہوش کے ناخن لیں۔ یاد رکھیئے۔ آپ نے جو کچھ جمع کر رکھا ہے۔ طوفان کی زَد میں تنکو ں کی طرح بہہ جائیں گے۔ آپ کیا کریں گے؟ کیا آپ کا مال، اختیار، اقتدار، آپ کو طوفان سے بچا سکے گا؟ ہرگز نہیں۔