Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mohsin Khalid Mohsin
  4. Pakistani Siasat, Election Ke Tanazur Mein

Pakistani Siasat, Election Ke Tanazur Mein

پاکستانی سیاست، الیکشن کے تناظر میں

الیکشن کی آمد آمد ہے، ہر جگہ اِسی کا تذکرہ ہے۔ دوست احباب جہاں مل بیٹھتے ہیں، احوال کے تبادلہ کے بعد اسی موضوع کو مرکزی حیثیت سے گفتگو کا محور بناتےہیں۔ میں نے شعوری عمر میں دو الیکشن دیکھے ہیں۔ پہلے الیکشن میں گھر والوں کے کہنے سے ووٹ ڈالا تھا، دوسرے الیکشن میں پریذائڈنگ آفیسر کی حیثیت سے لوگوں کو ووٹ ڈالتے دیکھا۔ دونوں الیکشن میں ایک سا ماحول اور طور طریقہ تھا۔ اس الیکشن میں بھی وہی کچھ ہوگا، جو گذشتہ میں کارفرما تھا۔

قیامِ پاکستان سے آج تک ملک میں جب بھی الیکشن ہوئے، شفاف الیکشن کے انعقاد کے حوالے سے سیاست دانوں کے ایک دوسرے کو الزام و طعن اور بہتان تراشی کے بیانیات سننے، پڑھنے کو ملے۔ اس ملک کی 76 سالہ تاریخ میں آدھا حصہ سیاست دانوں نے حکومت کی اور بقیہ کا بیشتر حصہ نگہبانوں نے۔ دونوں کے پاس اختیارات کے جائز اور ناجائز استعمالات کے سبھی مواقع موجود تھے۔ ملک کی خوشحالی اور ترقی میں دونوں مکتبہ ہائے فکرنے کیا کردار ادا کیا؟ یہ تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہے جسے باآسانی پڑھا جاسکتا ہے اور اس کے بارے میں رائے قائم کی جا سکتی ہے۔

پاکستان میں الیکشن کے نتیجےمیں بننے والی حکومت رعایا کے ووٹ کی مرہونِ منت ہوتی ہے۔ رعایا ملک کی تمام سیاسی جماعتوں میں کسی ایک جماعت کو کثرتِ رائے سے منتخب کرکے حکومت کا قلمدان صاحبِ اقتدار کے ہاتھ میں تھما دیتی ہے۔ اس کے بعد رعایا، حکومتی عہدوں پر فائز شخصیات کے منہ دیکھتی رہتی ہے اور صاحبِ اقتدار اپنا منہ دیکھتےہیں۔ وقت گزرتا چلا جاتا ہے۔ حکومتی ایوانوں سے ببانگِ دُہل صدائیں گونجتی رہتی ہیں۔ "یہ کر دیں گے، وہ کر دیں گے، یہ ہو رہا ہے، وہ ہو رہا ہے۔ یہ چلا گیا، اُسے بھی جانا ہوا"۔ اس گا، گے، گی کی گردان اَلاپتے مدت ختم ہو جاتی ہے۔ الیکشن ہوتے ہیں حکومت بن جاتی ہے۔

تخت سے تختے کا یہ سلسلہ 76 برس سے یونہی چل رہا ہے۔ کہیں کوئی بڑی تبدیلی اس طریقہ کار میں نہیں آئی۔ ووٹ کے بغیر حکومت اور ووٹ کے ذریعے سے بننے والی حکومت میں کوئی خاص فرق نہیں ہوتا۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان میں سیاست دان خدمت کے لیے حکومت میں آتے ہیں یا کاروبار کے لیے؟ پاکستان میں سیاست خدمتِ عوام کا نام ہے یا کاروبار کے تحفظ اور فروغ کا؟ یہ سوال ووٹر کے ذہن میں ووٹ کاسٹ کرنے سے پہلے کُلبلاتا ہے۔ اس کا جواب بہت آسان الفاظ میں یوں دیا جاسکتا ہے کہ سیاست دان کی ایک قلیل تعداد خدمتِ عوام کے لیے آتی ہے جبکہ کثیر تعداد کاروبار کے فروغ اور تحفظ کے لیے۔

پاکستان میں سیاست میں آنے کا طریقہ کار کیا ہے اور اس طریقہ کی آئینی حدود کیا ہیں؟ اس کا بھی سادہ اور آسان جواب یہ ہے کہ اس کا کوئی طریقہ کار نہیں ہے اور نہ اس کی آئینی حیثیت کو کبھی آئین سمجھ کر استعمال میں لایا گیا ہے۔ پاکستان میں سیاست دُنیا کا مہنگا ترین کاروبار ہے جہاں کروڑوں سے بات شروع ہوتی ہے اور کھربوں تک جاتی ہے۔ الیکشن کے دنوں میں قیمے والے نان کا بہت شُہرہ رہتا ہے۔

چند دن قبل میرے ہاں کچھ مہمان آئے۔ میں گھر جاتے ہوئے ایک چکن بروسٹ شاپ پر رُک کرایک عدد لیگ پیس کا ریٹ پوچھا۔ دُکان دار نے 490 روپے بتایا، میں نے کہا اگر پانچ لوں تو، انھوں نے کہا 2400 دے دیجیے۔ میرے پاس دو ہزار رو پے تھے، میں نے سوچا، لیگ پیس تو ایک بندہ کھا جائے گا، بریانی لے لیتے ہیں۔ بریانی والے سے ریٹ پوچھا، اُس نے 400 کی پلیٹ بتائی۔ یہاں بھی حساب کرکے یہی فیصلہ کیا کہ گھر جاکر صورتحال دیکھ کر مینج کر لوں گا۔

میں ڈیڑھ لاکھ ماہانہ کمانے والا بندہ ہوں، میں تین چار مہمان کے لیے چکن خریدنے کی استطاعت رکھنے کے باوجود ہوش رُبا مہنگائی میں یہ حوصلہ نہیں کر سکا کہ مہمان کے لیے چکن خرید سکوں۔ ذرا سوچیے! الیکشن کی کمپین کے دوران اُمیدواران ہزاروں کی تعداد میں قیمے والا نان روزانہ کی بنیاد پر بنوائیں گے۔ ان کی قیمت کہاں تک جائے گی۔ پورے پاکستان میں بہت معمولی تعداد میں ووٹر کے لیے صرف قیمے والے نان بنوائے جائیں تو کروڑوں روپے اس پر صرف ہو ں گے۔ یہ تو قیمے کے نان کی بات ہوئی۔

ایک ایم پی اے اور ایم این اے کے ڈیرے پر ٹکٹ کے حصول کے بعد سے الیکشن کے دن تک چائے بسکٹ کی مد میں کتنا خرچہ آئے گا؟ آپ سمجھ دار ہیں، یقیناً لاکھوں روپے صرف ہوں گے۔ ٹکٹ لینے کے لیے پارٹی کو فنڈ کی مد میں کتنا ادا کرنا پڑے گا؟ آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔ الیکشن کی مہم کے لیے اشتہارات کی چھپائی میں کتنا خرچ آئے گا؟ ایک فلیکس قریباً پندرہ سوسے پچیس سو کے درمیان چھتا ہے۔ ہزاروں بینر اور اسٹیکر اور دسیوں قسم کے متفرق مزید کارڈز وغیرہ کی مد میں کتنا خرچہ آئے گا؟ اس کے بعد بیس سے پچیس گاڑیاں پورے حلقہ میں جلسے کرنے کے لیے ہر اُمیدوار کو ارینج کرنی ہیں۔ یہ گاڑیاں دو ماہ سارا دن دوڑیں گی، ان کا پٹرول اور ان کا کرایہ وغیرہ ڈال کر یہ آوارگی کتنے میں پڑے گی؟ یہ اور اس طرح کے سیکڑوں خرچے آپ میزان کرتے جائیے۔ بہت آسانی سے بات کروڑوں تک جا پہنچتی ہے۔

یہ سب کچھ کرنے کے بعد اُمیدواروں کی طرف سے ستم رسیدہ ووٹر پر یہ الزام دُہرایا جاتاہے کہ آپ ہمیں رضاکارانہ ووٹ نہیں دیتے۔ آپ سے ووٹ لینے کے لیے ہمیں آپ کے جائز اور ناجائز کام الیکشن سے پیشتر اپنی جیب سے کروانے پڑتے ہیں تاکہ آپ کے ووٹ کے صحیح حقدار قرار پائیں۔ الیکشن کے عروج پر ووٹر کے بارے میں اُمیدواران کی انتظامیہ کی طرف سے یہ رائے بھی گردش کرتی ہے کہ امیدوار سے پیسے وصول کیے جاتے ہیں۔ ایک محدود پیمانے پر فرضی تخمینہ لگایا جائےکہ ایک امیداوار نے مجبور ہو کر اپنے حلقہ سے اگر پانچ ہزارووٹ فی کس پانچ ہزار لیے ہیں تو بات کہاں تک جاتی ہے۔

ایک امیدوار کو اوسطاً تیس ہزار سے اسی ہزار تک ووٹ پڑتے ہیں۔ اس میں براہ راست خریدے ہوئے ووٹ اور بلواسطہ پارٹی اور خدمت کی بنیاد پر ملے ہوئے ووٹ کی پرسنٹیج کیا ہوگی؟ یہ آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔ الیکشن کے انعقاد کی تاریخ سے لے کر پولنگ کے دن تک قریباً ہر اُمیدوار کا فی سیکنڈ ہزاروں روپیہ الیکشن کمپین کی سرگرمیوں میں خرچ ہو رہا ہوتا ہے۔ کوئی ایک امیدوار یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ اُس نے الیکشن کی مد میں مجموعی طور پر ایک لاکھ سے زیادہ پیسہ صرف نہیں کیا۔

آپ مجھے یہ بتائیے کہ پاکستان میں سیاست دان خدمتِ عوام کی غرض سے یہ کروڑوں روپے لگا کر حکومت میں آتے ہیں یا اپنے ذاتی مفادات کے حصول اور اس کے تحفظ کے لیے۔ پاکستان میں ہر الیکشن سے چند ماہ قبل مضبوط پارٹی کو کمزور اور کمزور کو مزید منقسم کیا جاتا ہے۔ نیز اتحادی حکومت کی راہ ہموار کرنے کے لیے امیدواروں کو پارٹی تبدیل کرنے پر اُکسایا، ڈرایا، دھمکایا اور ورغلایا جاتا ہے۔ الیکشن سے پہلے پری الیکشن کی باقاعدہ ریہرسل ہوتی ہے جس کے نتائج کو مدِ نظر رکھتےہوئے فیصلہ ساز اراکین پیش آمدہ الیکشن کے طریقہ کار اور اس کے انعقاد کے مجموعی نظام کو حتمی شکل دیتے ہیں۔

پاکستان میں سیاست کا موجودہ نظام اپنے اندر کئی نقائص لیے ہوئے ہے جن کی از سرِ نو اصلاح کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں ایک پڑھا لکھا، باشعور، تعلیم یافتہ مڈل کلاس شخص ایم پی اے کے الیکشن میں شرکت کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ یہ ملک یونہی 76 برس سے چل رہا ہے۔ جو ایک دفعہ اس نگری میں آجاتا ہے پھر موت ہی اسے یہاں سے مستعفی کرتی ہے۔ ووٹر کا کام ووٹ کاسٹ کرنا ہے، اس کے ذاتی مفادات کی اُڑان فقط اپنےمحلے کی نالی بنوانے سے لے کر اپنے نکمے بیٹے کو سرکاری نوکری دلوانے تک ہوتی ہے۔

سوشل میڈیا کا دور ہے۔ لاعلمی اور اندھیر نگری کا دور ختم ہوچکا۔ ووٹر یہ اچھی طرح جانتا ہے کہ سیاست کیا ہے اور اس اکھاڑے میں کس کا کتنا زور اور رُعب و دبدبہ ہے؟ سیاست کے پروردہ بھی جانتے ہیں کہ اس شغل اصل غائیت کیا ہے اور اصل کے حصول کی ماہیئت کیا ہے۔ بات یہ ہے کہ پاکستان، ایک پا ک ستان ہے جہاں بہت سا کوڑا کرکٹ جمع ہوگیا ہے جسے اُٹھا کر ایک کنویں میں دفن کرنے کی کسی میں ہمت نہیں ہے۔ خدا تعالیٰ چاہے تو یہ ممکن ہو سکتا ہےملک کے نظم و نسق کو سنبھالنے والے مقتدر احباب غوروخوض کے بعد یہ تسلیم کیے بیٹھے ہیں کہ جو چیز جہاں پڑی ہے، اُسے وہیں پڑی رہنے دیں، کچھ بھی تبدیل کرنے اور از سرِ نو کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

رعایا کو بنیادی انسانی ضرورتوں کی عدم دستیابی میں مبتلا رکھیں، انھیں سہولتوں کے نا ملنے کی دائمی تکلیف اور ازلی محرومی کا خوگر بنائیں، خوابوں کی من چاہی تعبیر میں ورغلاتے رہیں۔ جو سر اُٹھائے، اُسے سمجھا دیں، جو اکٹر دکھائے، اُسے خاموش کروا دیں اور جو سامنے آئے، اُسے منظر سے اوجھل کر دیں۔ سب نے اپنے اپنے حساب سے باہم ایک مشترکہ لائحہ عمل طے کر رکھا ہے۔ جملہ سیاسی پارٹیوں کا مشترکہ ایجنڈا ہے کہ اے ساکنانِ پاکستان!بہ حیثیت پاکستانی آپ کا فرض ہے کہ ووٹ کاسٹ کریں۔ جس پارٹی کو ووٹ دینا ہے، ضرور دیں۔ پولنگ کے دن گھر میں نہ بیٹھیں۔ یہ سوچنا اور پوچھنا آپ کا کام نہیں ہے کہ امیدوار نے آپ کے ووٹ سے ملی ہوئی طاقت کو کس مقصد کے لیے استعمال کرنا ہے۔

قصہ مختصر یہ کہ آپ کسی پارٹی کو اور پارٹی کے امیدوار کو غلط مت کہیں، سب کی رائے کا احترام کریں۔ خدا تعالیٰ پر یقین رکھیں اور اپنے حلقہ کے اُمیدوار کو مزید ایک موقع دیں، ہوسکتا ہے آپ کا ایک ووٹ اُس امیدوار کو حکومت کے ایوان میں پہنچا دے جو آپ کے لیے کچھ ایسا کر جائے جس کی آپ 76 برسوں سے اُمید لگائے بیٹھے ہیں۔

یاد رکھیئے! پاکستان نے ہمیشہ یونہی نہیں رہنا، اس کی قسمت کے دھکے اب ختم ہونے کو ہیں۔ آپ کے ووٹ کا دُرست استعمال پاکستان کی سمت کو درست پراہ پر ڈال سکتا ہے۔ پاکستان ہے تو ہم ہیں، یہ ملک نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ پاکستان، زندہ باد، پاکستان پائندہ باد

Check Also

Bushra Bibi Hum Tumhare Sath Hain

By Gul Bakhshalvi