Nojawan Nasal Meeras Mein Kya Chahti Hai?
نوجوان نسل میراث میں کیا چاہتی ہے؟
ایک صاحب کہنے لگے: یار! تم ہمیں سرِ بازار رُسوا کر رہے ہو جبکہ قصور ہمارا اِس قدر نہیں ہے جتنا آپ ہمیں پچھاڑ رہے ہیں۔ میں نے عرض کیا: آپ اور آپ جیسے اصحاب نے ہی اس ملک کے نوجوانوں کا بیڑہ غرق کیا ہے اور آج انھیں اِس حالت کو پہنچا دیا ہے کہ ان کے اندر شرافت، حمیت، حسیت، اور ادبیت نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی۔
وہ صاحب کہنے لگے: آپ ہم پر الزام دیتے ہیں، ہم بطور والدین، اساتذہ اور بزرگ کے خاندان اِس الزام کو مِن و عن تسلیم کرنے سے بظاہر انکار کرتے ہیں لیکن حقیقت بہرحال اس بیانیے میں بہت حد تک موجود ہے کہ ہماری نااہلی، غفلت، لاپروائی اور مسلسل نظر اندازی کی عادت اور روئیے سے ہمارے بچے نہ صرف ہم سے دور ہوئے ہیں بلکہ اپنے آپ سے بھی غافل ہو گئے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ہماری نوجوان نسل میراث میں کیا چاہتی ہے؟ اس سوال کا جواب بظاہر سبھی کے پاس کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے مگر اس جواب میں اجتماعی تنزل کا محاکمہ نہیں ہورہا۔ نوجوان نسل کو میراث میں جو چاہیے وہ ہم انھیں پہلے ہی دے چکے ہیں۔ نوجوان نسل کے لیے والدین، اساتذہ اور خاندان کے بزرگوں نے روپیہ پیسہ، گھربار، گاڑی، بینک بیلنس اور مستقبل میں کام آنے کے لیے زمین، پلاٹ اور چلتا ہوا کاروبار بطور میراث رکھ چھوڑا ہے۔ یہ نسل جب اپنی تعلیم اور آوارگی سے فارغ ہوگی، پرکھوں کی اس دنیاوی میراث پر کمال شوق سے براجمان ہو جائے گی۔
ایک غریب کا بیٹا غربت کو میراث میں قبول کرے گا اور ایک رئیس کا بیٹا جاگیر کو میراث میں اپنے باپ سے وصول کرے گا۔ ایک کسان کا بیٹا زمین کے سینے کو پھاوڑے سے کھود کر اپنے حصے کا رزق نکالے گا، ایک کمہار، نائی، ترکھان، موچی اور مزدور کا بیٹا ذات پات، رنگ، نسل، اونچ نیچ کے رزالت آمیز تصورات کی خود کُش میراث کو نہ چاہتے ہوئے قبول کرے گا۔ ایک استاد کا بیٹا تعلیم کے میدان میں اپنی ناکامیوں اور کوتاہیوں کے جھنڈے گاڑے گا۔ ایک کاروباری کا بیٹا لوگوں کی کھال اُتارنے کا کارنامہ انجام دے گا۔
جنرل کا بیٹا سرحدوں کو ہاؤسنگ سوساٹی میں تبدیل کرے گا۔ ایک پولیس والے کا بیٹا مظلوموں کے جسم کو کوڑوں سے داغ دار کرے گا۔ ایک مولوی کا بیٹا باشعور افراد کو ہجومِ ناہنجار میں تبدیل کرے گا۔ ایک ڈھونگی ولی اللہ ان پڑھ، جاہل اور حقیقت سے نا آشنا گروہ کو مکرو فریب کے جال میں پھانسے گا اور من چاہی خواہشوں کی تکمیل میں غرق رہے گا۔ ایک بیوروکریٹ، وکیل، صحافی، سیاست دان کا بیٹا اپنے باپ دادا کی حرکات و عادات کو مِن و عن عمر بھر دُہرائے گا کہ ظلم کو شرم آجائے گی لیکن اسے غیرت چھو کر بھی نہیں گزرے گی۔
ایک پھل فروش کا بیٹا اپنے باپ سے گاہک کی کھال اُتار کر گھٹیا مال اونچے دام فروخت کرنے کا گُر میراث میں لے گا۔ ایک ایجنٹ کا بیٹا سبز باغ دکھا کر لوگوں کے مستقبل اور خون پیسنے کی کمائی کو بٹورنے کا فن سیکھے گا۔ ایک کلرک کا بیٹا ملازمین کے حقوق کا استحصال کرنے اور ان کی عزتِ نفس سے کھیلنے کا فن میراث میں وصول کرے گا۔ ایک چور کا بیٹا چوری نہیں کرے گا بلکہ بڑا ڈاکا ڈالنے کا فن مستعار لے گا۔ ایک زانی کا بیٹا زنا کے گناہ سے محظوظ ہونے کا مزہ میراث میں لے گا۔ ایک بے ایمان، بے غیرت اور بے حِس کا بیٹا بے ایمانی، بے غیرتی اور بے حِسی کو کمال شوق سے میراث میں لے گا۔ یہ تصویر کا ایک رُخ ہے جس سے ہم سبھی واقف ہیں۔
ہم اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں اور خود اپنا احتساب کریں تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ ہماری اُولاد ہم سے وہی کچھ میراث میں لے گی جو ہم بطور وارث اپنی اولاد کے سامنے خود کو پیش کر رہے ہیں۔ اگر آپ چور، ڈاکو، لیٹرے، زانی، لوٹ کھسوٹ کے رسیا اور ظالم و بے حِس ہیں تو آپ کی اُولاد اس میراث کو بڑھاوا دے گی اور نسل در نسل اسی اختصاص کے عَلم کو اپنے ہاتھوں میں تھام کر رکھے گی۔ اگر آپ نے ملک کے وسائل کو دو، دو ہاتھوں سے لوٹا ہے اور اس کھسوٹ کو اپنا ذاتی حق سمجھتے ہوئے اس ظلم کی بطور مہمیز تائید بھی کی ہے تو یہ مت بھولیے کہ آپ کی اولاد میراث میں اسی ظلم و زیادتی کےبیانیے کو اپنائے گی اور آپ کے نام کو عزت بخشے گی۔
آپ بہت جلد بھول جاتے ہیں اور خودساختہ ذہنی طور پر بھلا بھی دیتے ہیں کہ میں نے تو کچھ کیا ہی نہیں، میں تو مجبور تھا، میں تو مظلوم تھا، میرے پاس اور کوئی آپشن موجود نہ تھی۔ سب یہی کر رہے تھے اور اگر میں نے اپنی اولاد کے لیے تھوڑا بہت کر لیا تو اس میں قباحت کیا ہے، ساری دُنیا یہی کچھ کر رہی ہے۔ آپ بھول جاتے ہیں اور اپنے تئیں خود کو مطمئن کر لیتے ہیں کہ میں نے جو بھی کیا ہے وہ درست اور ٹھیک کیا ہے۔ آپ جو کر رہے ہیں، آپ کی اولاد دیکھ رہی ہے اور بخوبی سمجھ بھی رہی ہے۔ آپ اپنے گھر میں جس طرح بیوی کو مارتے ہیں اور اس کے جسم کو لہو لہان کرتے ہیں، بڑا ہو کر آپ کا بیٹا بھی یہی کچھ کرے گا۔
آپ رشتہ داروں کو دنیا کی حقیر مخلوق سمجھتے ہیں اور انھیں منہ نہیں لگاتے تو یاد رکھیے، آپ کی اُولاد انشااللہ آپ کے مرنے پر کسی کو آپ کے جنازے کا کندھا نہیں بدلنے دے گی۔ آپ نے اپنے بہن بھائیوں اور عزیزوں کے مال، جائیداد، پلاٹ، زمین اور ذرائع آمدن پر ڈاکا ڈالا ہے اور فراڈ کیا ہے تو آپ کی اولاد آپ کی بنائی ہوئی امارت کی کُٹیا کی تقسیم کو اسی آپسی بہن بھائیوں میں ظلم و زیادتی کا اکھاڑا بنائے گی۔ آپ نے جو کیا ہے وہ آپ نے بھرنا ہے۔ یہ فطرت کا اصول ہے۔ انسان جو بوتا ہے وہی کاٹتا ہے۔ اچھا کرو گے، اچھا ملےگا۔ نیکی کرو گے تو نیکی ملے گی اور برائی کرو گے تو برائی ملے گی۔
عمر بھر ظلم، زیادتی، لوٹ کھسوٹ، مارا ماری کرنے کے بعد داڑھی رکھ کر تہجد پڑھنے اور تسبیح لے کر اللہ اللہ کرنے اور راستی، سچائی، دیانت داری کا الاپ راگنے سے آپ کے کرتوت چُھپ نہیں سکتے۔ آپ نے جس انداز اور اطوار میں زندگی بسر کی ہے، بالکل اسی طرح آپ کی اولاد آپ کے ساتھ سلوک روا رکھے گی۔ آپ نے لوگوں پر زمین تنگ کی ہے تو آپ کی موت آپ پر تنگ ضرور ہوگی۔ آپ نے ناجائز کسی کا حق مارا ہے تو آپ کے سر پر انصاف کا ڈنڈا ضرور پڑے گا۔ آپ نے کسی کی عزت کو پامال کیا ہے تو ستر پردوں میں چُھپی آپ کی عزت سرِ بازار رُسوا ضرور۔ یہ ادلے کا بدلہ ہے، رب تعالیٰ نے حقوق اللہ کےمعاملے میں معافی اور نجات کا اختیار اپنے پاس رکھا ہے۔ حقوق العباد کے معاملے میں بندہ ہی بندے کا دارو ہے اور بندہ ہی بندے کے لیے منصف ہے اور مدعی و گواہ بھی۔
دُنیاوی معاملات میں انصاف اور بے انصافی کا کُلی اختیار انسان کے پاس ہے۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اپنا گھر دنیاوی آسائشوں سے بھر کر، اپنے بچوں کے مستقبل کو ہر طرح کے امکانات سے معمور کرکے میں پانچ وقت کی نماز اور دس بارہ حج کرکے حاجی کہلوا کر داڑھی رکھ کر مثالی مسلمان بن کر رب تعالیٰ کو متاثر کرلوں گا اور بخشا جاؤں گا تو یہ آپ کی بھول ہے۔ رب تعالیٰ ہر لمحہ تمہیں اور تمہاری کرتوت کو دیکھ رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ نوجوان نسل میراث میں کچھ بھی چاہیے، آپ انھیں ہرگز وہ نہ دیں جو آپ کرکے پچھتا رہے ہیں۔ آپ انھیں ایک باشعور شہری بنائیں، انھیں دین سے رغبت اور وطن سے محبت کرنا سکھائیں، انھیں علم کی دولت سےمالا مال کریں، انھیں ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے اہم کردار ادا کرنے کے اہل بنائیں۔ انھیں ذات پات، رنگ نسل، اونچ نیچ، امارت و عُسرت کے تصوراتِ جہل سے نکالیں۔
انھیں انصاف، مساوات، باہمی اتحاد، محبت و اخلاص اور میانہ وری کا درس دیں۔ انھیں صبر، عجز، حِلم اور بُردباری کا عملی نمونہ بننے کے مواقع فراہم کریں۔ انھیں وہ کچھ سکھائیں جو ان کے روشن مستقبل کے لیے نہایت ضروری ہے۔ انھیں یہ آگاہی دیں کہ ہم نے جو کچھ کیا وہ مجبوری مقہوری کا جبر تھا لیکن آپ نے اس جبر کے آگے صبر کی سِپر نہیں ڈالنی۔ مایوس ہونا، نا اُمید ہونا، صلاحیتوں سے فائدہ نہ اُٹھا نا، غفلت میں پڑے رہنا، ہاتھ پاؤں توڑ کر بیٹھ رہنا، دوسروں کی جیب پر نظر رکھنا، حریص و ہرس و حوس کا دلدادہ ہونا وغیرہ ایسی ناسور ابتلائیں ہیں جو انسان کو تباہ کر ڈالتی ہیں۔ آپ نے عمر بھر جوکچھ کیا ہے، اُسے اپنی اُولاد میں دُہراتے ہوئے دیکھنے کی خواہش نہ کریں۔ نوجوان نسل کو میراث میں وطن کی محبت، دین سے رغبت، رشتہ داروں سے صلہ رحمی، قرب و جوار کے ماحول سے آشنائی، فطرت کے تقاضوں کی انجام دہی اور مثالی کردار سے متصف ہونے کی میراث دیں۔
آج پاکستان جن حالات سے دو چار ہے، اس تنزل کے ذمہ دار کسی ایک جماعت، فرد، گروہ، ادارہ یا شخص کو قرار نہیں دیا جاسکتا۔ پاکستانی ثقافت، تہذیب، معاشرت، سماجیات اور اقتصادیات کا جنازہ نکل چکا ہے۔ یہ گاڑی ایک سو بیس کی رفتار سے سامنے والی کھائی میں گرتی دکھائی دے رہی ہے۔ اس کی رفتار کوکم کرنا پڑے گا۔ آپ کے ہاتھ میں سٹرینگ ہے۔ خدا کے لیے اپنی ذاتی مفاد اور لالچ کے لیے اس ملک کو کھائی میں مت گرنے دیں۔ ہوش کےناخن لیں۔ پہلے اپنی اصلاح کریں پھر دوسروں کو تلقین کریں۔ قطار میں کھڑا ایک شخص اپنی جگہ سے ہٹ جائے تو قطار ٹوٹ جاتی ہے، یہ ایک شخص جو آپ بھی ہوسکتے ہیں، آپ قطار سے ہٹ جانے کی کوشش کریں۔
میں جانتا ہوں اور آپ بھی جانتے ہیں کہ یہ مشکل کام ہے لیکن ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ مشکل کے بعد آسانی ہے۔ بہ حیثیت مجموعی ہم اس بربادی کو روک سکتے ہیں، اگر ہم نے ہوش کے ناخن نہ لیے اور اسی طرح اپنی اپنی اور مارا مارا میں غرق رہے تو ان قریب یہ ملک تباہ ہو جائے گا اور اس تباہی میں آپ کی بنائی ہوئی امارت ڈھ کر زمین بوس ہو جائے گی۔ تباہی جب آتی ہے تو وہ امیر، غریب، ادنیٰ اعلی، اونچ نیچ اور چھوٹے بڑے میں فرق نہیں کرتی، یہ بارش کی طرح یکساں برستی ہے اور اس طرح برستی ہے کہ پھر خشک وتر میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا۔