Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mohsin Khalid Mohsin
  4. Maut Kya Hai?

Maut Kya Hai?

موت کیا ہے؟

جس طرف نگاہ اُٹھتی تھی، واقف و ناواقف افراد کا جمِ غفیر دکھائی دیتا تھا۔ ہر کوئی مغموم اور ملول تھا۔ کسی کی آنکھ میں نمی تھی اور کسی کی آنکھ میں اشک رواں تھے۔ سب کچھ کر گزرنے کے بعد بھی بہت کچھ کر لینے کی چاہ حسرت بن کر دل کی کُومل اور نرمل زمین کو کُدالِ بے بسی سے پھاڑ رہی تھی۔ ہر کوئی مُتوفیِٰ کی جگہ مر جانے کو چاہتا ہےمگر رضائے الہیٰ کے سامنے کس کی مجال ہے کہ کسی کی موت کے آگے کوئی پُل باندھ سکے۔

موت جب آتی ہے پھر آکر رہتی ہے۔ موت کو آج تک کوئی نہ ٹال سکا، موت ایک ایسا المناک حادثہ ہے جس کی انسانی عقل ہنوز احاطہ نہیں کر سکی۔ جب سے دُنیا بنی ہے، موت کا رقص جاری ہے، یہ اپنے اندر بے رحمی اور غضبناکی کی شدت لیے ہوئے ہے۔ اسے کسی ذی نفس پر رحم نہیں آتا، جس کے جانے کا متعین وقت آجاتا ہے، اُسے جانا پڑتا ہے۔ وہ خواہ روئے، چلائے، کُرلائے اور بِلکتا رہے، مُتوفّیِ خواہ دُنیا جہان کی آسایشیں، نعمتیں موت کے پاؤں میں ڈال دے، اسے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ایک متعین سانس سے زیادہ کسی نے لیا اور نہ امر ربی کی منشا کے بغیر نہ کوئی لے سکتا ہے۔

موت کیا ہے، کیوں ہے، کس لیے ہے، اس کا تصرف انسانی شخصیت پر اس قدر جابر انہ انداز میں مسلط کیوں ہے، کیا اِس سے رہائی ممکن ہے، کیا موت کو موت دی جاسکتی ہے، کیا موت کو تسخیر کیا جاسکتا ہے، کیا موت کو قابو میں لایا جاسکتا ہے، کیا موت کو شکست دی جاسکتی ہے۔ یہ وہ سوالا ت ہیں جو آدمؑ و حوا (دینِ اسلام کے مطابق) سے آباد ہونے والی اس خطہ ارض کی مخلوق پوچھتی چلی آئی ہے۔ ان سوالات کے جوابات فلسفیوں، حاکموں، حازقوں، داناؤں، سائنس دانوں، راہبوں، منعجموں، اولیاؤں، فرزانوں اور رہبروں نے اپنے علم و فہم اور تجربے کی بنیادپر دینے کی بھرپور کوشش کی ہے لیکن یہ جوابات انسان کو مطمئن نہیں کر سکے۔

موت کے تصور اور اس کی حقیقت سے منسلک سیکڑوں سوالات آج بھی ایک بالغ شعور سے متصف ذہن کے لیے چیلنج کی حیثیت رکھتے ہیں۔ موت کی ماہیت، اصلیت، حقیقت سے مابعد موت حیاتی موت کی صداقت کا عِلم، شعور اور جانکاری کا دعویٰ کرنے والے خود ا سی کے طلسمی واہمے کے اسَرار کی تفہیم میں مختل الاذہن دکھائی دیتے ہیں۔ ہزاروں مقالات اور سیکڑوں کُتب موت کی ماہیت کیفیت، اصلیت اور صداقت کی جملہ جزئیاتی کیفیات کی تفہیم پر لکھی گئیں ہیں لیکن ان میں موت سے متصل تصورات و اہمات کے بارےمیں حقیقتاً کوئی ایسا نکتہ، بات یا امرِ واقع کی تصدیق نہیں ہوئی کہ ایک چنگا بھلا انسان پل بھر میں مادی جسم کو چھوڑ کر کہیں چلا جاتا ہے اور لوٹ کر دوبارہ نہیں آتا۔

یہ کہاں جاتا ہے، کیوں جاتا ہے، کیسے جاتا ہے، کس لیے جاتا ہے اور جاتا ہی کیوں ہے۔ اس کا کہیں اور چلے جانا اور مادی جسم میں مستقل نہ رہنے میں کیا راز اور امر پوشیدہ ہے۔ وہ کیا چیز ہے جو اسے یہاں سے کہیں اور منتقل کر دیتی ہے یا کرنے پر مجبور کرتی ہے اور خوشی خوشی ساتھ لے جاتی ہے یا کھینچ کر باہر نکال دیتی ہے یا کچھ اور ایسا کرتی ہے جو انسانی تعقل کے فہم میں ہنوز نہیں آسکا۔

گویا موت ایک معمہ، راز، اسَرار اور واہمہ ہے جس کی تفہیم ہنوز پوری طرح ممکن نہ ہوسکی۔ تقابل ادیان میں موت کا ایک سا تصور ملتا ہے۔ موت کے اس امر واقعہ کے لیے جو الفاظ بطور اصطلاح رائج ہیں وہ بھی ایک سے معنی رکھتے ہیں۔ موت سے مراد کسی عہد کا پورا ہوجانا، انتقال سے مراد کسی امر کا کہیں اور منتقل ہو جانا اور دُنیا بھر کی زبانوں میں موت کی لغوی معنی میں کسی امر کا ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونا ہی مراد لیا جاتا ہے۔

تقابل ادیان میں اصل شخصیت کے عالمِ ناسوت (دُنیا) سے عالم برزخ (بعد از موت کا جہان) میں منتقل ہونے کے بعد مختلف طریق کار رائج ہیں جن سے مذہبی تصورات متصل ہیں۔ ہندو دھرم میں انسانی شخصیت اپنے شریر کو تیاگ کر رخصت ہو جاتی ہے، چھوڑے ہوئے جسم کو آگ دے کر گنگا جمنا میں راکھ کو بہا دینا سوگواران کی تشفی کے لیے کافی ہے۔ اسلام میں انسانی شخصیت کے عالمِ برزخ میں منتقل ہونے کے بعد جسم کو غسل دے کر اَن سِلے کپڑے میں لپیٹ کر ایک متعین طریقے مٹی میں دبا دینا کافی ہے۔

اسی طرح دیگر مذاہب میں باقیاتِ انسان یعنی مُردہ جسم کوکوئی جلا دیتا ہے، کوئی پہاڑوں پر رکھ دیتا ہے، کوئی پرندوں کی خوراک بنا دیتا ہے، کوئی حنوط کر لیتا ہے اور کوئی اسے کسی اور موزوں استعمال کے لیے ٹکڑوں میں منقسم کرکے رکھ چھوڑتا ہے۔ انسانی شخصیت یعنی روح ہی اصل حیاتیاتی عمل کا ماخذ ہے جو انسانی بدن کو تیاگ دیتی ہے، اس کے بعد یہ بس مٹی کا تودہ ہے جو گل سڑ کر ختم ہونے کے لیے رہ جاتا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اصل چیز روح یعنی انسانی شخصیت ہے جس کی اہمیت باقی رہے گی جبکہ یہ روح اپنے عطا کردہ جسم کو چھوڑ دینے کے بعد مستقل اس سے جُدا ہو جاتی ہے۔ تقابل ادیان میں انسانی شخصیت یعنی روح کے حوالے سے بھی کوئی اطمینان بخش جوابات موجود نہیں ہیں۔ سائن دانوں سے لے کر حاکموں، حاذقوں، فلسفیوں، اولیاؤں اور شاعروں تک اس کے بارے میں مختلف اور متضاد آرا سامنے آتی ہیں۔ شعرا نے موت کے تصور کو لے کر مزے مزے کے نکات تراشے ہیں: ؎

موت کا بھی علاج ہو شائد

زندگی کا کوئی علاج نہیں

(فراقؔ)

؎

کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا

میں تو دریا ہوں سمندر میں اُتر جاؤں گا

(احمد ندیم قاسمی)

؎

مرت ہیں آرزو میں مرنے میں

موت آتی ہے پر نہیں آتی

(غالبؔ)

؎

زندگی اک حادثہ ہے اور کیسا حادثہ

موت سے بھی ختم جس کا سلسلہ ہوتا نہیں

(جگر مراد آبادی)

؎

زندگی ہے اپنے قبضے میں نہ اپنے بس میں موت

آدمی مجبور ہے اور کس قدر مجبور ہے

(احمد امیٹھوی)

؎

زندگی اک سوال ہے جس کا جواب موت ہے

موت بھی اک سوال ہے جس کا جواب کچھ نہیں

(امن لکھنوی)

انسانی شخصیت کے جزو کل یعنی روح کی بعد از موت کیا حیثیت اور وَقعت ہے، اس کے بارے میں بھی تقابل ادیان میں مختلف آرا ملتی ہے۔ کسی کے ہاں اس کے مستقل زندہ اور موجود رہنے کا تصور ملتا ہے، کسی کے ہاں اس کی ازلی فنائیت کا تصور ملتا ہے، کسی کے ہاں اس کا ہونا نہ ہونا ایک جیسا عمل ہے، کسی کے ہاں اس کی باقاعدہ شکل صورت اور حیات کا ایک وضع کردہ نظام ہے اور کسی کے ہاں اس کی کوئی حیثیت اور جواز نہیں ہے۔

دُنیا بھر میں سات ارب لوگ زندہ ہیں اور سانس لے رہے ہیں۔ ان سات ارب لوگوں میں ہر سکینڈ میں سیکڑوں افراد اپنے جسم کو چھوڑ کر کہیں جارہے ہیں اور سیکڑوں نئے انسان اِسی جسم کے قلبوت میں حلول کرکے اس دُنیا میں زندگی کا آغاز کر رہے ہیں۔ انسان کی اصل زندگی کون سی ہے، یہ والی زندگی یا کہیں اور کی زندگی، جہاں انسانی شخصیت ہمیشہ کے لیے چلی جاتی ہے۔ دُنیاوی زندگی اور دُنیا کے بعد یعنی بعد از موت والی زندگی میں کس چیز کا فرق ہے۔ کیا دونوں کی کیفیت ایک سی ہے یا دونوں کے طریق کار میں فرق ہے۔

موت ایک وسیع اور لاینحل تصور ہے جس کے بارے میں معلوم ہزاروں برس سے بحث جاری ہے۔ موت کے بعد کی زندگی اور موت سے پہلے کی زندگی اور یہ دونوں زندگیاں اور ان کے بعد کی زندگیاں اور اس سے بھی آگے کی کہانی اور اس سے متصل کیفیات و اردات کا جملہ احوال ہر مذہب میں مختلف صورتیں لیے ہوئے ہے۔ ایک عام انسان موت کے بارے میں کیا تصور رکھتا ہے اور اس کی حقیقت اور اصلیت پر کس حد تک مطمئن ہے۔

یہ وہ سوال ہے جو ہر ذی شعور کو درپیش ہے اور وہ اس سوال کے جواب کے تعاقب میں تقابل ادیان کا جملہ لٹریچر پڑھ ڈالتا ہے، اس کے باجود بھی تشکیک کا پہلو ذہن میں کُلبلاتا رہتا ہے۔ بعد از موت سب کے ساتھ یکساں معاملہ ہوگا یا مختلف، یہاں کی زندگی کا کہیں اور احتساب ہونا ہے یا نہی، یہاں کا زندگی کا کہیں اور کی زندگی سے کوئی تعلق ہے یا نہیں، یہاں اور وہاں اور وہاں سے آگے جانے کہاں کہاں تک انسانی شخصیت کے جز وقتی اسفار کا سلسلہ پھیلا ہوا ہے۔ اس کے بارے میں قطعیت سے ہنوز کوئی نہ بتا سکا ہے۔

تقابل ادیان اور تقابل مذہبی آرا میں بیشتر یہی تاثر ملتا ہے کہ اس کو رضائے الہی سمجھ کر سر نگوں ہو کر چُپکے رہیے اور جہان سے گُزر جائیے لیکن ایسا کرنے سے شعور کے تعقل میں تشکیک کے کُلبلاتے عنصر کا سر کیسے کُچلا جائے؟ فرض کریں یہ مان لیا کہ رب تعالیٰ نے موت کے تصور کو انسانوں سے اوجھل ہے۔ اس راز کے مخفی رہنے اور ظاہر نہ کرنے میں کوئی نہ کوئی حکمت ہے۔ آپ بتائیے جو انسان رب کو مانتا ہی نہیں تو وہ موت کے بارے میں اور موت کے بعد کی زندگی کے بارے میں کیا رائے قائم کرے؟

سوالات ہی سوالات ہیں اور تشفی بخش جوابات موجود ہونے کے باوجود مطمئن کر دینے والا جواب کسی کے پاس نہیں ہے کہ داعیانِ مذاہب نے بھی ان سوالا ت کے جوابات دینے میں خاموشی اختیار کی ہے۔ اس خاموشی کو جبر کا نام دیا جائے یا بررضائے الہیٰ۔ علامہ اقبال نے فلسفے میں ایک مدت سر مارنے اور تقابل ادیان کا سارا سرمایہ چاٹ کے بعد عاجز ی اختیار کرتے ہوئے یہی کہا تھا:

؎

وہ ایک سجدہ جسے تو گِراں سمجھتا ہے

ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات

یہ نجات موت کے تصور سے متصل سوالات کے جوابات پھر بھی نہیں دیتی۔ قصہ مختصر یہ کہ موت اور موت سے متصل تصورات اطمینان بخش جوابات کسی مذہب، مسلک، رجحان، فلسفی، حاکم، دانا، مفسر اور عاقل کے پاس نہیں ہیں۔ جواب دراصل انسان کے اندر اُٹھنے والے سوال کے داعیات میں پوشیدہ ہیں۔ جہاں سے سوال پنپ رہا ہے وہیں سے جواب کا سُراغ بھی ملے گا۔

سوال کا تعلق اگر خارج سے نہیں ہے تو پھر جواب کا تعلق بھی داخل میں ہی ڈھونڈنا ہوگا۔ اپنے خارج پر توجہ دینے کی بجائے اپنے داخلی نظام پر نظر کرنا ہوگی۔ سوال کا حوصلہ اور جواب کی آرزو ایک ایسا کا عمل ہے جو انسان کو خود اپنی تلاش کے عملِ نایافت کی بازیافتی سے منسلک کرتا ہےجس نے خود کو جس قدر تلاش کیا، اُس نے اِسی قدر واہمات و توہمات اور ہیجانات و میلانات کو وضاحت و افہام سے متشکل کیا ہے۔

موت ایک ایسا سوال ہے، جس کا جواب از خود موت ہے۔ موت اپنے اندر کے حیاتیاتی نظام سے ہم آشنا ہونے کا نام ہے۔ موت سے پہلے اور موت کے بعد کچھ بھی نہیں ہے۔ موت ہی موت ہے اور موت ہی در اصل حیات اور ممات کے درمیان امواتِ حیات کا قفلِ ابجد ہے۔

Check Also

Aag Lage Basti Mein, Hum Apni Masti Mein

By Rauf Klasra