Majnu Bhai Ki Eid
مجنوں بھائی کی عید
عید مبارک، خیر مبارک، آپ گاؤں نہیں گئے، نہیں، کیوں، بس ایسے ہی، چلے جانا تھا، کیا ہوا جوبیگم نہیں ہے، گاؤں میں بہن بھائی اور والدین تو ہیں، اُن کے ساتھ خوشی کا وقت گزارنا چاہیے۔ میں بھی یہی سوچ رہا ہوں کہ چلے جانا چاہیے تھا، پھر گئے کیوں نہیں۔ یار! ہمت نہیں ہوئی۔ یہ گھر چھوڑ کر جانے کا حوصلہ نہیں تھا۔ اس گھر میں جانے والے کی خوشبو اور آہٹ بسی ہوئی ہے، مدت گزری رسم و راہ جُدا کیے پھر بھی یاد سے متصل جذبات ماند نہیں ہوئے۔ تم پھر شروع ہو گئے، اچھا یہ بتاؤ کہ تم نہ تو رنڈوے، بوڑھے، کنوارے اور ناکام عاشق ہو، پھر یہ سب ڈراما بازی کیا ہے، تم واحد عاشق ہو جس کی عاشقانہ ذات کا پتہ نہیں چلتا۔
تمہارے ساتھ کا واقعہ پیش آیا ہے جو تم نے دُنیا کے دُکھی انسانوں کی اذتیوں کو اپنے سر پر سوار کر رکھا ہے۔ اس لیے کہ ان سب نے کچھ نہ کچھ کھویا ہے جس کی تلافی اور متبادل انھیں دوبارہ میسر نہیں آسکتا، اس لیے یہ ایک جیسے سوچتے، دکھائی دیتے اور محسوس ہوتے ہیں۔ کنوار ابھی خواب کی تعبیر کی جستجو میں انتظار کی تکلیف سے گزر رہا ہے، اس کی عید محبوب کو پالینا ہے۔ رنڈوا کیا کر سکتا ہے وہ بیگم کی یاد میں آنسو بہاتا ہے، کسی اور کو زندگی میں شامل کرنے کا حوصلہ ہونے کے باوجود دل اور گھر میں دوسری عورت کو جگہ نہیں دے پاتا، فیصلہ لینے اور نہ لینے کی کشمکش میں اس کی حالت سرِ راہ پڑے کنکر پتھر کی ہوتی ہے جسے ہر کوئی پاؤں مار کر گزرتا ہے۔ ناکام عاشق کا قصہ سب کے سامنے ہے، اُس کی عید تو اُس دن حرام ہوگئی تھی جس دن اِس کی محبوبہ اِسے چھوڑ کر گئی تھی۔
اب یہ اپنے آپ سے بدلہ لے رہا ہے، کمرے میں خود کو بند کرکے اپنا تماشا بنا رکھا ہے اور گھر والوں کو بھی سولی پر ٹانک رکھا ہے، کچھ کھاتا ہے، نہ پیتا ہے، بات کرتا ہے اور نہ کسی کی سُنتا ہے، پہروں سویا رہتا ہے اور مسلسل جاگتا رہتا ہے، کئی کئی دن بھوکا رہتا ہے اور سیگریٹ سے سینہ جلائے جاتا ہے، ایک ہی خیال ذہن پر سوار ہے کہ جی کیا کرنا ہے، مر جانا چاہیے مر جانا چاہیے۔ بوڑھے کی کہانی تو اِتنی ہے کہ اس نے زندگی کی سبھی بہاریں دیکھ لی ہیں اور اب یہ چاہتا ہے کہ مر جائے اور اس جاں کنی سے جان چھوٹ جائے لیکن رب تعالیٰ کی منشا کے آگے بے بس ہے، خود کو کوستا ہے، خاموش سسکتا رہتا ہے کہ رونے سے بچے ہنسیں گے کہ بڈھا روتا ہے کہ ڈراما کرتا ہے، مرتا بھی نہیں اور جیتا بھی نہیں ہمارے لیے عجیب مصیبت بن گیا ہے۔
آپ کی کہانی کیا ہے مجنوں بھائی! آپ کس مخلوق سے تعلق رکھتے ہیں۔ میری کوئی کہانی نہیں ہے، تم یوں سمجھ لو کہ ان سب کے دُکھ اور آلام کو جمع کیا جائے تو میری اذیت کو سمجھنے کا در وَا ہو سکتا ہے۔ یعنی تم سب سے زیادہ دُکھی، پریشان، رنجیدہ، ملول اور قسمت کے مارے ہوئے ہو۔ جی بالکل، میں اِس دُنیا کا سب سے زیادہ مظلوم، بے قصور، حالات کا مارا ہوا ایک بے چارہ انسان ہوں جس پر ہر شخص نے ظلم و زیادتی کے پہاڑ توڑے ہیں۔ لگتا ہے آج بغیر پیے نشے میں ہو، مجنوں بھائی، کیا خودکُشی کا ارادہ ہے، آج کا دن تو گزرنے دو، سبھی عید کی خوشیاں منا رہے ہیں اور تم یہاں بیٹھ کر دقیا نوسی پلاؤ پکا رہے ہو نہیں، میں کسی کا گلہ نہیں کر رہا، میں تو بس اپنے نصیب پر افسوس کر رہا ہوں کہ میں کیسا بد نصیب اور بے مراد انسان ہوں جس نے خوشی مانگی تو اذیت ملی، سکھ مانگا تو دُکھ ملا، محبت مانگی تو نفرت ملی، عزت مانگی تو رُسوائی ہاتھ آئی اور۔
بس، بس، چلو یار، یہ تو پاگل ہوگیا ہے اور کیسی بہکی بہکی باتیں کرتا ہے، ارے نہیں یار، بیٹھو، میں چائے بنواتا ہوں، نا بھیا! تم پیو چائے، چائے چائے، ہر وقت سینہ جلاتے رہتے ہو، آج عید ہے میاں، تمہیں پتہ ہے مجھ سمیت اِن سب نے ڈیٹس فکس کر رکھی ہیں، کالز آرہی ہیں، سوچا، مجنوں میاں کو بھی ساتھ لیتے جائیں، ہو سکتا ہے، خوبصورت چہرے دیکھ کر تمہارا دل بہل جائے، مگر تم تو نا اُمید، سڑی، پاگل اور پتہ نہیں کیا کچھ ہو، ویسے ایک بات بتاؤ، تم نے اپنا یہ حال کیوں بنا رکھا ہے، کتنی دفعہ کہا ہے، ہمیں بتاؤ، ہم تمہاری مدد کرتے ہیں، بھابھی کو ڈھونڈ لاتے ہیں، وہ دُنیا کے کسی بھی کونے میں ہو، ہم ڈھونڈ لائیں، بس تم اُس کا ٹھکانہ بتا دو، نہیں، وہ اِس دُنیا میں نہیں رہتی، اچھا، تو وہ اللہ میاں کو پیاری ہوگئی ہے، نہیں ہے تو زندہ لیکن پتہ نہیں زندہ ہے کہ نہیں۔۔ چلو بھائی۔ یہ ہماری بھی عید خراب کرے گا۔
اچھا مجنوں میاں! تم چائے بناؤ اور پیو، ہم تو چلتے ہیں۔ بڑی مشکل سے ڈیٹس فکس ہوئی ہے، سال بعد ملنے کا موقع ملا ہے، ہم تو ہاتھ سے نہ جانے دیں گے، تمہارا کیا ہے، تم تو زندہ لاش ہو، زندگی سے روٹھے ہوئے موت کی وادی میں پاؤں لڑکھائے عجیب و غریب شخص۔ اچھا، بھائی، غصہ نہ کرو، میں بھی تمہارے ساتھ چلتا۔۔ نہیں مجنوں میاں، آپ یہیں اِسی کمرے میں خون تھوکیں اور مرحوم بھابھی کی تصویر سامنے رکھ کر بین کریں، ہمارے ساتھ آنے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے، تمہارا کیا پتہ، بنا بنایا کھیل بگاڑ دو، حالت دیکھو ذرا اپنی، تمہیں دیکھ کر بچے تو کیا جِن بھی ڈر جائیں۔
زمانہ بدل چکا ہے، محبت کے انداز بدل چکے۔ اب لوگ بریک آپ پر روتے نہیں ہیں پارٹی کرتے ہیں اور ہنستے مسکراتے آگے بڑھ جاتے ہیں، سوشل میڈیا کا دور ہے مجنوں بھائی، تم میر، غالب کے دور کی بڈھی روح گلوبل ولیج میں خوار ہو رہی ہو۔ خیر، تمہارا کچھ نہیں ہوسکتا۔ ہم تو چلتے ہیں۔ خدا حافظ