Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mohsin Khalid Mohsin
  4. Kya Main Namard Hoon?

Kya Main Namard Hoon?

کیا میں نامرد ہوں؟

گذشتہ چار ماہ سے بیشتر افراد کو یہی سوال پوچھتے دیکھا۔ حکیم صاحب شائد برسوں سے یہ سوال سُن رہے تھے۔ وہ اس سوال سے نہیں اُکتائے۔ میں چار ماہ سے میں اس سوال کو تسلسل سے سُن سُن کر اُکتا گیا تھا۔ حکیم صاحب! کیا میں نامرد ہوں؟ یہ سوال ایسا ہے جس سے زندگی میں کبھی نہ کبھی آپ کا بھی سابقہ پڑا ہوگا۔ آپ نامرد یقیناً نہیں ہیں لیکن پوری طرح مرد ہونے کا تیقن بھی آپ کو میسر نہیں ہے۔

یہ بات 2006 کی ہے جب میں گورنمنٹ ڈگری کالج پتوکی میں بی اے کا طالب علم تھا۔ اِن دنوں میرے بچپن کے دوست حکیم رضوان اور میں ہم دونوں رینالہ خورد کے معروف حکیم سے حکمت سیکھنے جایا کرتے تھے۔ میرے دوست نے ابنِ سینا طیبہ کالج، ملتان سے حکمت کا چار سالہ کورس کیا تھا۔ اب انھیں ایک منجھے ہوئے معمر حکیم کی ضرورت تھی جو اپنے کُشتے قبر میں لے جانے کی بجائے میرے دوست کو دے جائے تاکہ اِسے محنت و مشقت سے نجات مل جائے اور ان کُشتوں کی بدولت اس کی دال روٹی کا بندوبست ہو جائے۔

میں کالج سے واپسی پر اس کی طرف چلا جاتا۔ وہ موٹی موٹی کتابیں پاس رکھتا اور ساتھ کریانہ دُکان کا انتظام بھی سنبھالتا۔ میں دُکان میں موجود پرانی کُرسی پر بیٹھ جاتا اور حکمت کی کتابوں کو ہاتھ میں لے کر پہلے تو انھیں گھورتا رہتا پھر یہاں وہاں سے تصاویر دیکھتا۔ اس میں عضوِ تناسل اور اندامِ نہانی یعنی شرمگاہ کی تصاویر بنی ہوئی تھیں۔ میری نظر ان تصاویر پر ٹھہر جاتی اور من ہی من میں لمبائی، چوڑائی اور موٹائی کو لے کر عجب عجب خیالات ذہن میں اُبھرنے لگتے۔ کچھ دن یونہی گزرے۔ پھر میں نے فیصلہ کیا کہ ان کتابوں کو پڑھ لینا چاہیے۔ دیکھتے ہیں! ان میں کیا لکھا ہے؟

ایک، ایک کرکے دو، چار ماہ میں سبھی کتابیں پڑھ ڈالیں اور بہ زُعمِ خود حکیم بن گئے۔ میرے دوست کو مجھ سے ایک گونہ اُنسیت تھی۔ وہ کُشتے بناتے ہوئے مجھے ہمراہ رکھتا تھا۔ موصلی سفید، زاعفران، جافل، اسطخدوس، عرق مناہل اور جانے کیسے کیسے مشکل نام ان جڑی بوٹیوں کے اُس وقت مجھے سیکڑوں یاد تھے۔ دوست گاؤں سے بھینسوں کو چارہ ڈال کر شہر آجاتا۔ میں دو، چار لیکچر لے کر سڑک پر آجاتا۔ ہم دونوں کالج گیٹ سے بدمعاشوں کی طرح بغیر کرایہ دئیے رُعب سے فرنٹ سیٹ پر بیٹھ جاتے اور رینالہ خورد پہنچ جاتے۔ کھانے پینے کی چیزوں میں منہ مانگتے، خوبصورت لڑکیوں کو تاکتے اور گھورتے پیادہ پا حکیم صاحب کی دُکان میں جلوہ افروز ہوتے۔

حکیم صاحب دیر سویر ہو جانے پر خاصا خفگی کا اظہار کرتے۔ ہم خاموشی سے برتن دُھونے اور اوکھلی میں جڑی بوٹیاں ڈال کر حمام دستے پر اپنا غصہ نکالتے رہتے۔ میرے دوست کو حکمت سیکھنا تھی اور کُشتے لینے تھے لیکن مجھے اس سے چنداں دلچسپی نہ تھی۔ میں حکیم صاحب کے پاس بیٹھ جاتا۔ ہر آنے والے مرد و زن مریض کو غور سے دیکھتا۔ ان کی عجیب و غریب بیماریوں کو سنتا۔ حکیم صاحب کے مریضوں کو دئیے ہوئے دلاسے، یقین اور مشوروں کو ذہن نشین کرنےکی جستجو میں رہتا۔ قریباً چھے ماہ، وقفے وقفے سے حکیم صاحب کے پاس میرا جانا رہا۔ اس کے بعد میرے امتحان شروع ہو گئے اور یہ سلسلہ موقوف ہوگیا۔

امتحان ختم ہوئے تو پتہ چلا کہ حکیم صاحب دُنیا سدھار گئے۔ میری حکمت یہی ختم ہوگئی البتہ دوست اب بھی حکمت کرتا ہے۔ رینالہ خورد کے حکیم صاحب مجھے ایک ہی نصیحت کیا کرتے تھے کہ کیلے کھایا کرو۔ میں ہر ہفتہ کے بعد اُنھیں اپنی نبض دکھایا کرتا تھا کہ اب کیا کہتے ہیں۔ حکیم صاحب نبض دیکھ کر کہتے: تمہیں کچھ نہیں ہوا۔ تم مرد ہو۔ بس کیلے کھایا کرو اور کھاتے رہا کرو۔ میں اس جواب سے اُکتا گیا تھا۔ ایک دن میں موقع پا کر حکیم صاحب سے پوچھا کہ آپ ہر آنے والے کو مختلف ادویات، نسخہ جات اور طویل احتیاط نامہ کا درس دیتے تھے جبکہ مجھے صرف کیلوں پر ٹرخا دیتے ہیں۔ آپ ایسا کیوں کرتے ہیں؟

انھوں نے جواب میں فرمایا۔ بچے! میں نے ستر برس حکمت کی ہے۔ میری ستر برس حکمت کا نچوڑ ہے کہ پاکستانی مرد کو یہ وہم ہوگیا ہے کہ وہ نامرد ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک لاکھ مَردوں میں تین چار نامرد ہوتے ہیں جو پیدائشی ہوتے ہیں۔ ان پیدائشی نامردوں کو دُنیا کا کوئی حکیم مرد نہیں بنا سکتا۔ میں نے پوچھا کہ حکیم صاحب! جو مرد ہوتے ہیں پھر وہ نامرد ہونے کی احساسِ کمتری میں مبتلا کیوں ہوتے ہیں؟ انھوں نے بتایا: یہ نکمے ننگی فلمیں دیکھتے ہیں، پھر مُشت زنی کرتے ہیں اور کر کرکے اپنا ستیا ناس کر لیتے ہیں۔

اس فعلِ بد سے یہ اپنا بیڑا غرق کر لیتے ہیں۔ کسی سے پوچھے بغیر اپنے تئیں مرد بننے کے چکر میں گرمی میں گرم خوراکیں اور سردی میں سرد خوراکیں کھاتے ہیں۔ جنسی ہوس کی ہرس کو ہر وقت دماغ پر سوار رکھتے ہیں۔ صنفِ مخالف کو دیکھ کر زنائی اور مجنونانہ حرکتیں کرتے ہیں۔ عضوِ تناسل میں سختی پیدا کرنے والے جنسی خیالات میں خود کو غرق رکھتے ہیں۔ جب اپنے آپ کو دیکھتے ہیں اور دوسروں سے اپنے بارے میں اظہارِ خیال کرتے ہیں تو احساسِ کمتری میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ صحبتِ بد کے شاہینوں میں بیٹھ کر موٹائی، لمبائی، چوڑائی اور سختی کے کُشتے اور ترکیبیں پوچھتے ہیں اور مِن و عَن ان پر عمل کرکے اپنے آپ کو تباہ کر لیتے ہیں۔ اس معاملے میں ہم نیم حکیموں کا بھی بہت بڑا کردار ہے۔

شادی کورس کے نام پر جب یہ ہمارے پاس آتے ہیں تو ہم نفسیاتی لحاظ سے انھیں قائل کر لیتے ہیں اور یہ ثابت کر دیتے ہیں کہ تم نامرد ہو چکے ہو۔ تم اُولاد پیدا کرنے کے قابل نہیں ہو۔ تم نے اپنے عضوِ تناسل کا حُلیہ بگاڑ دیا ہے۔ اب کچھ نہیں ہوسکتا۔ وہ بچار ہمارے داؤ پیچ میں آجاتا ہے اور ہم منہ مانگی رقم بٹور کر اُسے ہلکی پھلکی طاقت کی اور ہاضمے کی ادویات ایک خاص ترتیب سے دیتے رہتے ہیں۔ یوں اس کا یقین بحال ہو جاتا ہے۔ وہ ہمیں پیسوں کے ساتھ دُعائیں بھی دیتا ہے۔ ہم فرطِ مسرت سے آمین، آمین کہتے رہتے ہیں۔

میں نے حکیم صاحب سے کہا۔ یہ تو ظلم ہے نا! آپ لوگ چنگے بھلے مرد کو نامرد بنا دیتے ہیں۔ حکیم صاحب! یہ بتائیں: ایک مرد ہونے کی علامات کون سی ہیں۔ اگر میں خود کو اپنے تیں مرد ثابت ہوجانے کی علامات کو دیکھوں تو یہ کیسے ممکن ہوگا۔ حکیم صاحب نے بتایا: یہ تو بہت آسان ہے۔ جب تم رات سو کر صبح اُٹھتے ہو، اگر عضوِ تناسل میں سختی پیدا ہو چکی ہے تو سمجھ لیں کہ آپ پورے مرد ہیں۔ آپ عضوِ تناسل کے نیچے خصیوں پر ہاتھ رکھیں اور زور سے کھانسی کریں۔ کھانسی کے دوران اگر خصیے اُوپر کی طرف اُٹھیں تو سمجھ لیں کہ آپ مرد ہیں۔ اگر خواب میں آپ کو احتلام ہوتا ہے اور منی خارج ہوتی ہے تو سمجھ لیں کہ آپ مرد ہیں۔ ننگی فلم دیکھتے ہوئے آپ کے عضوِ تناسل میں سختی پیدا ہوتی ہے اور کپکپی محسوس ہوتی ہے تو آپ مرد ہیں۔ جنسی موضوع پر بات کرنے یا سُننے سے عضوِ تناسل میں سختی پیدا ہوتی ہے توسمجھ لیں آپ مرد ہیں۔ کسی نرم کپڑے یا چیز سے عضوِ تناسل مَس ہو جائے اور سختی پیدا ہو جائے تو سمجھ لیں، آپ مرد ہیں۔

میں نے کہا۔ حکیم صاحب! اِس طرح تو سبھی مرد ہیں۔ کوئی بھی نامرد نہیں ہوگا۔ حکیم صاحب نے کہا: یہی تو میں کہتا ہوں کہ پاکستانیوں کو نامرد ہونے کا وہم ہے اور وہم کا علاج تو حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں تھا۔ بہت اچھا! حکیم صاحب۔ لے ہاتھ ذرا، ٹائمنگ کے بارے میں بھی بتا دیں۔ مرد ہونے کے بعد سب سے بڑا مسئلہ یہی دیکھنے، سننے میں آتا ہے۔ حکیم صاحب نے بتایا: یہ ہمارا دوسرا جال ہے جس میں آسانی سے مچھلیاں پھنس جاتی ہیں۔ ٹائمنگ کا مسئلہ سرے سےموجود ہی نہیں۔ یہ محض نفسانی خواہش ہے جو ننگی فلموں کی دین ہے۔

پاکستانی مردوں کی ٹائمنگ ان کے ماحول، معاشرت، رہن سہن، خوراک، باہمی افہام و تفہیم اور ذہنی ہم آہنگی پر منحصر ہے۔ اگر میاں بیوی میں اچھی انڈر سٹنڈنگ ہے تو ایک منٹ سے تین منٹ تک بہت وقت ہوتا ہے۔ یہاں کون سا قلعہ فتح کرنا ہے۔ یہ اتنا ہی ہوتا ہے اور یہ بھی بہت ہے۔ البتہ مغربی ممالک میں شراب پینے اور سور کھانے اور دیگر ممنونہ جانوروں، پرندوں وغیرہ کا گوشت کھانے اور موسم کے تغیر کے پیشِ نظر ٹائمنگ بڑھ جاتی ہے۔ اُن کے ہاں ٹائمنگ کا دورانیہ پانچ منٹ سے دس، بارہ منٹ تک ہے۔ مباشرت کا مقصد اُولاد پیدا کرنا ہے جو چند سیکنڈ کے عمل سے بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ اس کے لیے تیر تلوار سے دنگل کرنا ضروری نہیں ہے۔

بات سُنو بچے! یہ سب ڈراما بازیاں ہیں۔ آج کل کے نوجوان اسی لت میں مبتلا ہیں۔ آپ بھوک رکھ کر سادہ خوراک کھائیں، دودھ، دہی، پنیر کا استعمال کریں۔ بُرے دوستوں سے کنارہ کشی اختیار کریں۔ نماز پڑھیں اور مثبت سوچ کو فروغ دیں۔ ننگی فلموں، جنس آمیز گفتگو اور جنسی تلذذ کے حامل قصوں اور افسانوں کو سُننے سے پرہیز کریں۔ آپ ان ساری لعنتوں سے بچ سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے۔ وہ بہتر جانتا ہے کہ کس سے کون سا کام لینا ہے۔ ہر انسان اپنی جگہ مکمل، صحت منت اور تن درست ہے۔ یہ وہم ہے۔ دین سے دوری ہے اور مقصدِ حیات سے لاتعلقی ہے۔ حکیم صاحب چلے گئے تاہم ان کے زرّیں اُصول آج بھی میرے لیے نہائت مفید ثابت ہوئے۔ شادی ہوئی اور اُولاد بھی ہوئی۔ زندگی رواں دواں ہے۔ گویا میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں پورا مرد ہوں۔

Check Also

Nange Paun Aur Shareeat Ka Nifaz

By Kiran Arzoo Nadeem