Monday, 24 March 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mohsin Khalid Mohsin
  4. Kaise Keh Doon Ke Usne Chor Diya Hai Mujhe

Kaise Keh Doon Ke Usne Chor Diya Hai Mujhe

کیسے کہہ دوں کہ اُس نے چھوڑ دیا ہے مجھے

نکاح کے عین موقع پر اُس نے مجھے بھری محفل میں محبت کے تعلق سے عاق کیا اور دوستوں کے ساتھ ہال سے باہر نکل گیا۔ میرے گھر والے غصے میں کھول رہے تھے لیکن میں نے سب سے کہہ دیا تھا کہ کوئی زبان تک نہیں کھولے گا۔ اُس کے جانے کے بعد مجھ سے ضبط نہ ہو سکا، میں دھاڑیں مار کر اس قدر بلک بلک کر روئی کہ پورا ہال میری بے بسی اور بے قراری پر اشک بار ہوگیا۔

میں نے خود کو سنبھالا، آنسو صاف کیے، چہرے پر مسکراہٹ سجائی، کپڑے سیدھے کیے اور کیمرے والے کو بلایا اور کہا کہ میری سیلفی بناؤ۔ اس لمحے کو میں ہمیشہ کے لیے تصویر میں محفوظ کر لینا چاہتی ہوں۔ کیمرے والے نے سہمے ہوئے انداز میں بغیر پوز بنوائے میری تصویر بنائی جس میں میں بالکل بونگی نظر آئی۔

کیمرے والے کو پاس بلایا، سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا: بھائی جان! وہ بے وفا تھا، اُسے وفا کی اہمیت کا احساس ہی نہیں تھا، رب تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اُس نے ایسے وقت میں مجھے ذلیل کیا جب میرے اہل و عیال میرے ساتھ ہیں، ایک رات گزار کر وہ مجھے طلاق دے کر گھر سے نکالتا تو میں ہمیشہ کے لیے دُنیا کی نگاہوں کا کانٹا بن جاتی اور زمانے کے لیے عبرت کا تازیانہ ٹھہرتی۔ کیا یہ میرے لیے خوشی اور اطمینان کی بات نہیں کہ میری عزت کے ساتھ میرا وقار اور مان بھی محفوظ ہوگیا۔

اب تم اچھی سی تصویر بناؤ، کیمرے والے کی آنکھو ںمیں چمک آگئی، اُس نے مجھے بہن کہہ کر پکارا اور مختلف پوز میں ایسی کمال کی تصویریں بنائیں کہ میں داد دینے پر مجبور ہوگئی۔ گھر والوں سمیت پورا ہال سکتے کے عالم میں دیدے پھاڑے گنگ مجھے دیکھ رہا تھا کہ یہ لڑکی کیا کرنے جا رہی ہے۔ میں نے سٹیج پر جا کر ہال میں موجود زن و مرد کو مخاطب کیا۔

دوستوں، بہنوں، بھائیوں اور عزیزوں! حاطب سے میری پہلی ملاقات یونیورسٹی میں ہوئی تھی، پہلی نظر میں یہ مجھے پسند آگیا تھا، اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں نے کوئی لڑکا نہیں دیکھا، سینکڑوں لڑکوں نے مجھ پر لائن ماری اور بیسویوں نے ان تھک کوشش کی لیکن کسی کی شخصیت مجھے متوجہ نہ کرسکی۔ حاطب میں کوئی ایسی بات ضرور تھی جس نے مجھے اس کی طرف متوجہ ہونے پر مجبور کیا، دو چار ہفتوں میں ہماری دوستی ہوگئی۔

حاطب ایک متوسط خاندان سے تعلق رکھتا ہے، اس کی چار بہنیں ہیں، یہ اکلوتا بھائی ہے، والد ایک نجی کالج میں پڑھاتے ہیں اور والدہ ہاؤس وائف ہے، دو بہنوں کی شادی ہوچکی ہیں، دو بہنیں حاطب سے چھوٹی ہیں، گاؤں میں ان کی تھوڑی سی زمین ہے، یہاں لاہور میں ان کا تین مرلہ کا ذاتی مکان ہے۔

حاطب کے گھر والوں سے میں نے ملاقات کی تھی، اس کی والدہ نے حاطب کی غیر موجودگی میں بتایا کہ میرا بیٹا ذرا لالچی قسم کی طبیعت رکھتا ہے، تمہارے حلیے اور چہرے مہرے سے معلوم ہوتا ہے کہ تم ایک شریف خاندان سے تعلق رکھتی ہو اور صاحبِ ثروت ہو جبکہ ہمارے پاس ایسا کچھ نہیں ہے، مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ تمہارا ہمارے ساتھ نباہ نہیں ہوسکے گا۔

مجھے نہیں معلوم کہ حاطب نے تمہیں کون سے سبز باغ دکھا کر شادی کے لیے ورغلایا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم تھرڈ کلاس سے تعلق رکھتے ہیں، اس کے والد تیس ہزار ماہوار تنخواہ پر سارا دن بچوں کو پڑھاتے ہیں، بڑی مشکل سے گھر کا گزارہ ہوتا ہے جبکہ تمہارا مہینے کا اپنا جیب خرچ لاکھوں میں ہوگا۔ میں ماں ہونے کے ناطے آپ کو یہی مشورہ دوں گی کہ تم حاطب کو زیادہ سیریس مت لو، لڑکا دل کا اچھا ضرور ہے لیکن حالات کا مارا ہوا ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارا غلط استعمال اپنے فائدے کے لیے کر لے۔

میں حاطب کی والدہ کی حقیقت پر مبنی باتوں کو لے کر تھوڑی دیر کے لیے سنجیدہ ضرور ہوئی، میں نے حاطب کی والدہ سے کہا کہ خالہ! رب تعالیٰ بڑا مہربان ہے، ہو سکتا ہے میرے توسط سے رب تعالیٰ آپ کے لیے کوئی آسانی کر دے، رب کے معاملات کو ہم انسان نہیں سمجھ سکتے، آپ کے بیٹے میں ایسا کچھ نہیں ہے، یہ میں بھی جانتی ہوں، بس مجھے اچھا لگتا ہے اور میرا دل اسے دیکھ کر دھڑکتا ہے، دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے، آپ نے جو باتیں مجھے بتائی ہیں، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ایک اعلیٰ قسم کے نسلی خون سے تعلق رکھتی ہیں جہاں سچائی اور نیک نامی ہی شہرت و شناخت کا بنیادی حوالہ ہےجبکہ حاطب کی شخصیت میں یہ وصف موجود نہیں ہے۔ یہ حیرانی کی با ت ہے۔

دوسری ملاقات میں وقتِ رخصت حاطب کے والد نے مجھے پیار کیا اور کہا: بیٹا تم نے سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا ہے، ہمارے پاس جو کچھ ہے وہ آپ کے سامنے ہے۔ حاطب مجھے دو، چار دفعہ اپنے گھر لے کر گیا تھا۔ حاطب کی کوشش تھی کہ میں اُسے اکیلے میں ملوں جبکہ میری کوشش تھی کہ میں سب کے درمیان بیٹھ کر حاطب اور اس کی فیملی سے باتیں کروں۔

حاطب کے گھر والوں اور حاطب کے ذہن و خیالات میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ میں بس یہ چاہتی تھی کہ ہماری شادی ہوجائے اور میں اپنے حصے کی جائیداد سے حاطب کی فیملی کو سٹینڈ کرنے میں اس کی مدد کروں۔ میرے گھر والوں نے مجھے سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ لڑکا تمہارے لیے ٹھیک نہیں ہے، اس کے اندر لالچ اور حرص کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے، یہ تمہارا استعمال کرے گا اور تمہیں چھوڑ دے گا۔ اس بات کو لے کر جب تکرار نے طول پکڑا تو میں نے گھر والوں کو اس بات پر مطمئن کر لیا کہ میں نے اپنی زندگی کا فیصلہ خود لیا ہے، اس فیصلے کے مثبت اور منفی ردِعمل کا سارا الزام بھی مجھی پر عائد ہوگا، آپ کو اس معاملے میں کوئی قصوروار نہیں ٹھہرائے گا۔ ایک ماہ بعد ہماری شادی کی تقریب کی تاریخ متعین ہوگئی۔ آج کے دن ہمارا نکاح ہونا تھا جو کہ نہیں ہوسکا۔

حاطب کے ذہن میں میرے بارے میں جو بھی منفی خیالات ہیں، اُس کی کیا وجہ ہے، مجھے نہیں معلوم۔ حاطب نے مجھے ڈیٹ پر جانے، جسم شئیر کرنے اور سیکس کے عمل سے گزرنے کے لیے مجبور کیا لیکن میں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ اُسے یہی سمجھایا تھا کہ میں دل و جان اور روح و جسم سے تمہاری ہوں لیکن رب تعالیٰ کے قانون کے مطابق ہی میں اپنا آپ تمہارے حوالے کروں گی۔ میں نہیں چاہتی کہ میں کوئی ایسی حرکت کر گزروں جس پر مجھے رب تعالیٰ کے روبرو شرمندہ ہو نا پڑے۔

حاطب نے مجھ سے لاکھوں روپے شادی کے معاملات کو لے کر اینٹھے ہیں اور ہزاروں روپے میرے پرس سے چرائے ہیں۔ میں سب کچھ جاننے کے باوجود اس بندے کو مزید موقع اس لیے فراہم کرتی رہی کہ یہ بندہ کھل کر اپنی ذہنیت مجھ پر واضح کر دے۔ میں یہ بھی جانتی تھی کہ اس کے پاس کچھ بھی نہیں ہے، جس گاڑی پر یہ مجھے گھماتا رہا ہے وہ اس کے دوست کی ہے جسے فی یوم کرایہ کے حساب سے لے رکھا تھا، جو تھری پیس یہ پہن کر آتا رہا وہ اس کے دوست کی دُکان سے ڈرائی کلین ہونے آتے تھے، جوتے، گھڑی، پرس وغیرہ بھی دوستوں سے مانگے تانگے کے تھے۔

اس کا اپنا وجود بھی کسی سے مستعار معلوم ہوتا ہے۔ ان حقائق کے باوجود میں اس شخص کو اس لیے مزید موقع فراہم کرتی رہی کہ یہ ایک دن تو اپنی اصلیت مجھ پر ظاہر کرے گا۔ میں چاہتی تھی، اس کی زندگی کو اتنا آسان کر دوں کہ اس کے اندر کا حرص و لالچ کا مادہ ختم ہو جائے، اس کے اندر کی کمینگی، رزالت اور تنگ نظری ختم ہو جائے۔ میں اسے فائیو سٹار ہوٹلز میں لے کر گئی، میں نے برانڈڈ سوٹ اور جوتے اسے زیبِ تن کروائے، میں نے لاکھوں روپے اس کی ظاہری شخصیت کو آئیڈیل بنانے میں خرچ کیے۔

میری خواہش تھی، میں نے جس شخص کو چاہا ہے وہ کسی بھی اعتبار سے مجھ سے کم حیثیت معلوم نہ ہو۔ رب تعالیٰ نے والدین کے توسط سے مجھے بہت کچھ دیا ہے، اس کے پاس کسی بھی وجہ سے مجھ سے کم ہے تو کیا فرق پڑتا ہے، جو میرا ہے وہ اسی کا ہے اور جو اس کا ہے اُسی میں ہم گزارا کر لیں گے۔

آج نکاح کے دن اس کے عین موقع پر انکار کے پیچھے کئی وجوہات ہو سکتی ہیں جو آپ کے ذہن و قلب میں پنپ رہی ہیں۔ میں بھی آپ کی طرح حیران ہوں کہ جب سب کچھ حاطب کی دسترس میں ہے، اس نے نکاح کرنے سے انکار کیوں کیا۔ زندگی کی آسانیوں کو ٹھکرا کر رعونت سے جانے والا یہ شخص اپنے آپ کو سمجھتا کیا ہے۔ مجھے اس کی حرکت پر غصہ آنے کی بجائے پیار آرہا ہے۔ مجھے لگتا ہے اس نے جو فیصلہ کیا ہے وہ مبنی پر حقیقت ہے۔ اس نے اچھا کیا کہ مجھے ٹھیک صحیح وقت پر چھوڑ دیا اور اپنی الگ راہ لے لی۔

گلہ اس بات کا ہے، اس نے بھری محفل میں ہمارے خاندان کی عزت کو مٹی میں ملانے کی کوشش کی۔ جز وقتی اس بے عزتی اور بدنامی سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میں مطمئن اور خوش اس لیے ہوں کہ میں نے ہاتھوں کی میل کو کھویا ہے، عزت کی خوشبو کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ میں آپ سب سے اس واقعہ کی توقع کے برعکس sad ending پر معذرت خوا ہوں۔ آپ سب کو میرے لیے سینٹی ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ میری عمر کی لڑکیاں عمر کے اس جذباتی دور میں اس قسم کی نادانیاں کر جاتی ہیں لیکن جو سوا، اچھا ہوا۔ جب مجھے اور میرے والدین کو کوئی ملال نہیں ہے تو آپ سب بھی اس واقعے کو بھول جائیں۔ یوں سمجھ لیں کہ آپ شادی کے فنکشن کی بجائے پارٹی کے فنکشن میں آئے ہیں۔

مجھے بہت بھوک لگی ہے، آپ کے پیٹ میں بھی چوہے دوڑ رہے ہوں گے۔ آئیے، ہم سب مل کر کھانا کھاتے ہیں، اس کے بعد ڈانس کریں گے، آپ جو تحفے میرے لیے لائے ہیں وہ میں سب سے وصول کروں گی، چائے کے بعد سب کی اکھٹی تصویر بنے گی۔ اس کے بعد ہم اپنے گھروں کو روانہ ہو جائیں گے اور ٹھیک ایک مہینے بعد میرے والدین کی پسند کے لڑکے سے اسی ہا ل میں میری شادی ہوگی۔ آپ سب کو پیشگی اس ایونٹ کی دعوت دی جاتی ہے۔

ڈی جے بھائی! ذرا، بیس کے ساتھ پھڑکتا، سا، کوئی سونگ لگاؤ۔ ماحول کچھ سینٹی سینٹی ہوگیا ہے۔

Check Also

Jadeed Aur Purani Riwayat Ka Milap

By Adeel Ilyas