Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mohsin Khalid Mohsin
  4. Insan Khud Ko Samajhta Kya Hai

Insan Khud Ko Samajhta Kya Hai

اِنسان خود کو سمجھتا کیا ہے

اِنسان عجب چیز ہے، اس کی سمجھ، اِس کی دانائی سے زیادہ دقیق ہے۔ یہ خود کو پتہ نہیں کیا سمجھتا ہے۔ اپنے تئیں جو بھی سمجھتا ہے، یہ اِس کی سمجھ میں نہیں آتا۔ عجیب و غریب احساسات رکھتا ہے، جذبات اور خیالات کی ایک دُنیا من میں بسائے ہے۔ اِس کا ذہن، روح اور قلب ہر لمحہ ایک دوسرے سے گھتم گُتھا رہتے ہیں۔ ذہن کا روح اور قلب سے ایک طرح کا مسلسل تصادم ہے۔ ذہن اپنے تئیں اِنسان کو ڈیل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور قلب کی اپنی ایک سمجھ ہے اور روح تو دونوں سے مختلف کسی اور ہی مقام و کیفیت میں مبتلا ہے۔

انسان کی بے بسی، لاچاری، مجبوری، مقہوری، بے نیازی اور خود غرضی انھیں مثلثی احساسِ نظام کے آواگونی چکر میں اُلجھی ہے۔ انسان چاہتا ہے دُنیا کو حاصل کرے، جب دُنیا حاصل ہو جاتی ہے تو چاہتا ہے کہ سب کچھ چھن جائے، وہیں پر اِسے لا کر کھڑا کرے جہاں سے تکمیل کا سفر شروع ہو ا تھا۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے، وقت کو شکست دی جاسکتی ہے، رفتار کو کم زیادہ کیا جاسکتا ہے، سورج کو واپس لُوٹایا جاسکتا ہے لیکن تکمیل کو ابتدا کی طرف کیسے دھکیلا جا سکتا ہے۔

ذہن ہزاروں لاکھوں واہمات کا گنج ہائے گِراں مایہ تو رکھتا ہے لیکن یہ خزینہ کسی ایک نظر کے مول کا متبادل نہیں، روح لطیف ترین احساسات رکھتی ہے لیکن یہ احساسات کسی ایک بے نیازی سے معمور جذبے کی تسکین کے لیے ناکافی ہیں۔ قلب ہزاروں خواہشوں کی طلسم وادیوں کے نیرنگیوں سے درخشندہ جہان آباد کیے ہے لیکن خس و خاشاک کی حسرتوں سے اٹے ڈھیر کو چاہ کر بھی نظروں سے اوجھل نہیں کر سکتا۔ یہ کیسی بے بسی ہے جسے انسان لمحہ لمحہ محسوس تو کرتا ہے لیکن اس کا عادی ہونے سے ڈرتا ہے۔ بے بسی جب ذہن پر غالب آتی ہے تو لاکھوں کروڑوں واہماتی آندھیاں ساتھ لیے زیست کی شکستہ کُٹیا کو بے رحم تمانچوں سے تنکا تنکا کر ڈالتی ہے۔

قلب کی توانائی اِس کے آگے لجاجت سے پشیماں ہاتھ باندھے پاؤں پسارے امان، امان کی التجا کرتی ہے لیکن کوئی فریاد سننے والا کان نہیں دھرتا۔ روح بے چاری اِس کی سفاک دُرشتی کے آگے گرج دار دھاڑ کی طرح کمزور ہرن کے ارد گرد موت کا رقص رچاتی اپنی جوانی کی الھڑ اداؤں میں مست فنائیت کے مقامِ اعلیٰ پر متمکن و بے نیاز دکھائی دیتی ہے۔ جوانی تو خیر مستانی ہے، یہ موت بھی کیسی موت کہ جسے خود پتہ نہیں کہ اِسے کس لیے رقصایا جا رہا ہے۔ بے بسی، لاچاری، مقہوری، مجبوری اور سرنگونی کی اس کیفیت کو پہاڑوں پر لاد دیا جائے تو خوف و وحشت سے بھسم ہو کر پارہ پارہ ہو جائیں۔

انسان کتنا عالی ظرف اور عالی حوصلہ ہے کہ اپنے اندر کے دُشمن سے اُس وقت تک لڑتا رہتا ہے جب تک دُشمن خود اپنی شکست کو تسلیم نہ کر لیں۔ موت بھی ایک ایسا ہی عارضی سہارا ہے، بے بسی کے جذبات میں گھائل اُس احساسِ ندامت کے لیے، جسے مزید ایک پل جینا دوبھر ہے اور عمر حساب سے ماورا رکھتا ہے۔ انسان اپنے من میں جانے کیا کچھ لیے بیٹھا ہے، اسے خود کو پڑھتے ہوئے اپنی قرات پر شک ہونے لگتا ہے، آئینہ دیکھتا ہے تو کوئی اور دکھائی دیتا ہے، جسم کے خدوخال میں کسی بُت کی پرستش کے آثار دکھائی دیتے ہیں۔

کیا عجب معمہ ہے کہ سرِ راہ چلتے تیکھی نظر کی اوٹ میں خفیف حُسن کی پرچھائیں روبرو ہو جائے تو چال ڈھال میں مستعار بانکپن کا سوانگ جعلی مہندی کی طرح رنگ چھوڑنے لگتا ہے اور انسان اپنے اندر کی خمیدگی سے ڈر کر آنکھیں بند کر لیتا ہے اور پہروں جھوٹ موٹ مدہوشی کی وادی میں گُم سُم پڑا رہتا ہے، جب آنکھ کھلتی ہے تو کوہلوں کے بیل کی طرح خود کو وہی کھڑا پاتا ہے جہاں سے سفر شروع ہوا تھا۔

اس کا جی چاہتا ہے کہ مر جائے، مرنے کے بعد بھی مرنے کا شوق پورا ادھورا رہتا ہے تو اپنی خجالت مٹانے کے لیے موت کو مارنے کی خواہش کرتا ہے، آگے بڑھتا ہےتو شرما جاتا ہے اور تاب نہ لاتے ہوئے مثل پروانہ وہیں ڈھیر ہو جاتا ہے۔ بے بسی بھی عجب طرح کی اختیاری ہے کہ انسان کے پاس دُنیا جہان کی آسائشیں ہونے کے باوجود انگاروں میں لپٹے ہوئے بستر میں دُبک کر خود کو چھپالینے کی خواہش کرتا ہے، ہا ہا، یہ کیا مذاق ہے، نہیں یہ مذاق نہیں یہ اِس کے بچپنے کی آرزو ہے کیونکہ حقیقت کو جھٹلانے کے لیے بطلان کے پھاوڑے سے تراشا ہوا جواز اس کی دسترس میں نہیں۔

انسان خواہ کچھ بھی کر لے، اسے مطمئن نہیں کیا جاسکتا، اس کے اندر کی خمیدگی اور کج روی، نِک سِک سے درُست نہیں ہو سکتی، اس کی شخصیت میں توڑ پھوڑ کے ہزاروں عناصر مسلسل کارفرما ہیں۔ گویا یہ ایک آسیب ہے جسے اپنے آسیب کا سایہ لپٹا ہے، یہ عجیب وغریب چیز اپنے تئیں عجائباتِ عالم کو تسخیر توکر لیتی ہے لیکن اپنے اندر کی کجی کے نقصِ فراواں کو سمجھوتے کی آنچ سے ڈھال کر ثقیل کرنے کی لیاقت سے ہنوز محروم ہے۔

کیا چاہیے اِسے؟ سب کچھ چاہیے یا شائد کچھ بھی نہیں چاہیے، چاہنے اور نہ چاہنے، پالینے اور کھو دینے، حاصلات اور محرومیات کے درمیان وہ کون سی متصل اکائی ہے جس کی وحدت میں اجتماعیت کے اسَرار پوشیدہ ہیں۔ اس کا ہونا اور نہ ہونا کیا برابر ہے، اس کی ہستی اور نیستی سے کیا عدم اور وجود کو کوئی فرق پڑتا ہے۔ اس کے ہونے کا جواز کیا ہے، اس کے نہ ہونے سے ہونے کا تصور ہی کیوں ہے۔

کیا، کیوں، کیسے، کب، کس طرح کے الفاظ میں ملفوف بے بسی سے لبریز اس متنفس پتلے کی تفہیم ہزاروں برس سے انفاسِ عالم کرتا آیا ہے اس کے باوجود سادہ، سُبک، سلیس اور متین عبارت سے مقیش اس سلجھے، ترشے، سنورےاور سجیلے پیکر کو من و عن قبول کرنے کی بجائے منہدم کر دینے کی حماقت کے جملہ داعیات عدم سے وجودِ ہنوز تک بر سرِ پیکار ہیں۔

بے بسی بھی کیا عجب چیز ہے، جس کی تفہیم ناممکن ہو، وہ اپنے اندر ممکنات کا جہانِ رنگ و بو لیے ہے، اسیری رہائی کا جواز ڈھونڈ رہتی ہے، میں کسی کو ڈھونڈ رہا ہے، کوئی میری تلاش میں ہے، ڈھونڈنے والا اور تلاش کرنے والا دونوں ایک دوسرے کے سفر کی تکمیل میں اپنے سفر کو کھوٹا کر رہے ہیں۔

سفر ہے کہ پورا نہیں ہوتا، تکمیل کو ترسیل کی حاجت درپیش ہے، جواز کو حاصلات کی تلاش ہے، تعبیر اپنے خواب کے سفر میں ہے، زیست موت کی منتظر ہے، بود کو ہست کی فکر ہے، ممات کو حیات کا واہمہ لاحق ہے۔ آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے۔ عجب تماشا ہے، کون سمجھائے، کس کو سمجھائے، انسان خود کو آخر سمجھتا کیا ہے، ہا ہا ہا ہا ہا ہا۔

Check Also

Rawaiya Badlen

By Hameed Ullah Bhatti