Imtihani Marakaz Mein Corruption Ka Bazaar Garam Hai
امتحانی مراکز میں کرپشن کا بازار گرم ہے
سر، آپ یقین نہیں کریں گے، نگران نے وقفے وقفے سے پورا پیپر اُس بچے کو خود کروایا ہے، میں نے نگران سے کہا کہ مجھے ایک معروضی سوال کے جواب میں ذرا سا شک ہے، مجھے بتا دیں لیکن اُس نے کہا کہ خود کرو بلکہ مجھے ڈانٹ دیا کہ امتحانی مرکز میں بات نہیں کرتے UMC بنادوں گا۔ میں خاموش ہوگیا، میرے جی میں آیا کہ اِسے کہہ دوں کہ اِس بچے کو تم سارا پیپر خود کروا رہے ہو، یہ تمہارا کیا لگتا ہے۔
یہ ایک قصہ ہے، بیسویوں ایسے قصے امتحانی مراکز میں پیپر دینے والے بچوں سے سُننے کو مل رہے ہیں۔ پنجاب کے تعلیمی بورڈز میں میٹرک کے امتحانات جاری ہیں۔ ان بورڈ میں سر فہرست لاہور بورڈ ہے۔ جس پر پورے پنجاب کی نظر ہوتی ہے اور اس کے امتحانی نظام اور امتحانی طریقہ کار پر سوالات بھی سب سے زیادہ اُٹھائے جاتے ہیں۔
اس دفعہ کنٹرولر امتحانات لاہور بورڈ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ 2023 میں ڈیوٹی کرنے والے ناظمِ امتحان یعنی سپرٹنڈٹ صاحبان کو 2024 کے پہلے سالانہ امتحان میں ڈیوٹی پر نہیں لیا جائے گا۔ یہ فیصلہ بہت اچھا رہا، اس بار مجھ سمیت کئی خواہش مندوں کو اس ڈیوٹی پر نہیں لیا گیا۔ امتحان سے ایک دن پہلے کیا ہوا کہ 40 فیصد پھر پرانے بندوں کو ڈیوٹی پر رکھ لیا اور یہ کہا گیا کہ نئے لوگ ڈیوٹی پر آمادہ نہیں ہیں، اس لیے متبادل کے طور پر مجبوراً انھیں ڈیوٹی پر مامور کیا گیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ ایک شخص نیا آیا ہے اور باقی عملہ پرانا ہے، امتحانی سنٹر بھی پرانا، علاقہ بھی پرانا ہے اور امتحانی نظام کا جملہ طریقہ کار بھی پرانا ہی ہے۔ سب کچھ پرانا ہے تو نیا آنے والا سپرٹنڈٹ کیا بدلاؤ لاسکتا ہے۔ پنجاب کے تعلیمی بورڈ کے امتحانی مراکز میں کرپشن کیوں ہوتی ہے، اس کی وجہ کیا ہے اور اس کی روک تھام کے لیے ذمہ داران افراد کیا کوشش انجام دے رہے ہیں، اس پر بات کرنے کی ضرورت ہے۔
لاہور بورڈ میں نگران عملہ کی سنگل ڈے ڈیوٹی 800 روپے اور ڈبل ڈے ڈیوٹی کا معاوضہ 1000 روپے ہے۔ اس ہزار روپے میں 22فیصد انکم ٹیکس کی مد میں کاٹ لیا جاتا ہے باقی 780 روپے بچ جاتے ہیں۔ ان 780 روپوں میں ایک لیٹر پٹرول کے ساتھ دوپہر کا کھانے کا خرچ نکال لیں تو باقی 300 روپے بچ جاتے ہیں۔ یہ 300 روپے سال بعد چیک کے ذریعے ملیں گے۔ سال بعد 300 روپوں کی مارکیٹ ویلیو 100 روپے رہ جاتی ہے۔
اس طرح چھے گھنٹے امتحانی مرکز میں چوکس رہ کر دی ہوئی ڈیوٹی سے ایک نگران کیا کمالیتا ہے کہ اسے کرپشن کی سوچ نہ آئے۔ چلے مان لیتے ہیں کہ سبھی نگران رشوت نہیں لیتے بلکہ ایمانداری کا راگ الاپتے ہیں اور جیب میں روپے ڈھونسے جانے کے باوجود نہیں لیتے اور ایمانداری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ آپ بتائیے! ایسے نگرانوں کی تعداد کتنی ہوگی، یقیناً آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے۔ نگران اگر پیسے نہیں لیتا تو بوٹی مافیہ اسے مجبور کرتا ہے کہ وہ پیسے لے یا پھر ڈیوٹی چھوڑ دے یا ہمارے کسمٹر کو ڈیل کرے اور ایماندار بھی رہے۔ بطور سپرٹنڈٹ مجھے ان واقعات کا ذاتی تجربہ ہے۔
2023 میں بورڈ کی طرف سے جو نگران مقرر کیے گئے تھے، ان میں ستر فیصد نے ڈیوٹی پر آنے سے انکار کر دیا، تیس فیصد نگران علاقہ بھر میں پیسے لے کر پیپر کروانے میں مشہور تھے، سو، ان کو مجبوراً ڈیوٹی پر نہیں رکھا، اب کیا کروں کہ تین سو بچوں کا اکیلا امتحان تو لے نہیں سکتا۔ میٹرک اور ایف اے پاس بے روزگار نوجوانوں کو ڈیوٹی پر رکھا گیا، پہلے ہی دن بھوکے جانور کی طرح یہ بچوں پر ٹوٹ پڑے اور پچاس، سو، پانچ سو جتنے بھی ان کے ہاتھ لگے، ہتھیا لیے، ان کو نکال دیا گیا، اب کیا کِیا جائے، عجیب تماشا ہے، پھر اپنے پڑھائے ہوئے ایف پاس طالب علموں کو بطور نگران لیا گیا اور انھیں منت سماجت سے سمجھایا کہ بچوں سے پیسے نہیں لینا، انھوں نے کہا کہ سر، ہم پیسے نہیں لیتے، لوگ زبردستی ہماری جیب میں ڈالتے ہیں اور گھر آجاتے ہیں۔ مجبور کرتے ہیں، گلی محلے کے چودھری سے لے کر ایم پی اے، ایم این اے تک کی سفارش کرواتے ہیں کہ میں یہ ہوں اور میں وہ ہوں اور تم پیپر کرواؤ ورنہ میں یہ کر دوں گا اور میں وہ کردوں گا، تمہیں میرا پتہ نہیں ہے وغیرہ وغیرہ۔
مجبوری و مقہوری کی یہ داستان نہ صرف پنجاب کے تعلیمی بورڈز میں دیکھنے کو ملتی ہے بلکہ یونیورسٹی انتظامیہ کو بھی یہ شکایت ہے کہ نگران باز نہیں آتے اور پیسے لے لیتے ہیں۔ پاکستان میں ہر سال تقریباً ہر دن کوئی نہ کوئی امتحان ضرور ہو رہا ہوتا ہے، ان امتحانات میں شعبہ تعلیم سے وابستہ افراد یعنی اساتذہ ہی یہ ڈیوٹی انجام دیتے ہیں۔
ان اساتذہ کی کثیر تعداد بظاہر اس مکروہ فعل یعنی کرپشن اور رشوت میں ملوث نہیں ہے، لیکن اعداد و شمار سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امتحانات میں پیسے لے کر پیپر کروانے کی روایت بہت پرانی، فعال اور باقاعدہ ہے۔ اس کی روک تھام کے لیے ہر ادارہ اپنی جگہ کچھ نہ کچھ عملی اقدامات ضرور کرتا ہے۔ لیکن ملک کی مجموعی صورتحال ایسی ہے کہ کوئی بھی ادارہ کرپشن اور رشوت سے محفوظ نہیں ہے۔ حکومتی سطح سے لے کر گلی محلے تک سبھی اسی گنگا میں ہاتھ دُھو رہے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اسلام کا لیبل لگا کر خود غرض افراد اسلام کے تشخص کو ذاتی مفادات کے لیے فروخت کر رہے اور اس بات کا انھیں قطعی شعور نہیں کہ ہم اپنے بچوں کے لیے جو آگ کما کر انھیں کھلا رہے ہیں، یہ ان کے لیے نارِجہنم ہی ہے۔ جس سے کسی صورت فرار ممکن نہیں۔
پاکستان کے حالات اس کے قیام سے ناگزیر رہے ہیں اور یہ ملک گذشتہ پچھتر برس سے نازک دور سے گزر رہا ہے۔ پتہ نہیں اس کا یہ نازک دور کب ختم ہوگا۔ مہنگائی نے ہر شخص کی کمر توڑ دی ہے، امتحانی مراکز میں ڈیوٹی کرنے والوں کی کثیر تعداد بے روزگار اور ریٹائرڈ افراد پر مشتمل ہے۔ ان بوڑھے افراد میں ساٹھ برس سے لے کر اسّی برس تک کے افراد کثرت سے دیکھے جاتے ہیں۔ یہ نگران 100 روپے پر فی یوم کے حساب سے بھی ڈیوٹی کرنے کو تیار ہیں۔ ان سے پوچھا جاتا ہے تو بتلاتے ہیں کہ گھر بیٹھ کر کیا کریں، یہاں آجاتے ہیں، اچھا وقت گزر جاتا ہے اور کچھ نہ کچھ مل بھی جاتا ہے، خواہ سال بعد ملے، کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے۔
پنجاب کے تعلیمی بورڈ میں رشوت کے گرم بازار کو کم کرنے میں ادارے اپنی جگہ کوشاں ہیں تاہم میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ سب سے زیادہ رشوت خوری نگران عملہ کی طرف سے دیکھنے کو ملتی ہے۔ ان نگران کی تعلیمی لیاقت، ذہنی حالت اور معاشی کیفیت انتہائی دِگرگوں ہوتی ہے تاہم کچھ افراد کروڑ پتی ہوتے ہیں اور سیاسی اثر ورسوخ سے اچھا پیسہ بناتے ہیں اور اُوپر تک بانٹتے ہیں، اس لیے یہ چند افراد ہر جگہ باقاعدہ ڈیوٹی کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں اور کوئی ان کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا کہ ان کے ہاتھ بہت لمبے ہیں۔ انھیں پتہ ہوتا ہے کہ پکڑے گئے تو نکال دئیے جائیں گے، اسے سے زیادہ اور کیا ہوسکتا ہے، اس لیے یہ بے خوف ہو کر پیسہ بناتے ہیں۔
بعض دفعہ تو پورا سنٹر بوٹی مافیہ سے مل کر خرید لیتے ہیں اور پھر لاکھوں کے حساب سے پیسہ یہاں وہاں گردش کرتا ہے۔ تعلیمی بورڈ اگر اپنی بچت سے پیسہ نکال کر نگرانوں پر خرچ کرے تو رشوت کی یہ شرح کافی حد تک کم ہوسکتی ہے۔ ایک نگران کو ڈیلی ویجز کی مد میں کم از کم 2000 روپے دئیے جائیں اور اس میں انکم ٹیکس نہ کاٹا جائے کہ انکم ٹیکس کاٹنے کی کوئی تُک ہی نہیں بنتی۔ اسی طرح ڈپٹی اور سپرٹنڈٹ کا معاوضہ بڑھا کر 2500 ڈپٹی اور 3000 سپرٹنڈٹ کا کیا جائے۔ ڈیوٹی کا یہ معاوضہ ایماندار، فرض شناس اور اللہ سے ڈرنے اور عدل کا پرچار کرنے والے افراد کو یہ حوصلہ دے گاکہ وہ ڈیوٹی پر آئیں اور پیشہ ور رشوت خور افراد کو مزید کرپشن کو موقع نہ دیں۔
مجھے کئی ایک نجی اور سرکاری اداروں میں مختلف نوعیت کے امتحانات میں ڈیوٹی کرنے کا اتفاق ہوا ہے۔ ان اداروں میں زیادہ تر اداروں کی کیفیت ایک سی ہے، یعنی پیسہ دیتے ہوئے انھیں موت پڑتی ہے اور ڈیوٹی کی شرائط اس قدر سخت اور بناتے ہیں گویا قارون کا خزانہ ودیعت کر رہے ہوں۔ ایک مثال اس کی یہ ہے کہ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز لاہور میں ڈیوٹی دینے والے عملہ کو معقول معاوضہ دیا جاتا ہے۔ ایک پیپر پر ڈیوٹی دینے والے نگران کو 1600 روپے دئیے جاتے ہیں اور نگران کمال شوق سے ڈیوٹی کرتا ہے، سپرٹنڈٹ کو ایک ڈیوٹی کا 3000 ملتا ہے۔ کسی کی مجال نہیں کہ کوئی بچہ گردن ہلائے اور اِدھر اُدھر دیکھے سکے، امتحان ختم ہونے کے ایک ماہ بعد معاوضہ بینک اکاونٹ میں ٹراسفر ہو جاتا ہے۔
اگر یہی معیار پنجاب کے تعلیمی بورڈ اپنا لے تو رشوت خوری کا بازار ٹھنڈا پڑجائے گا اور بہت حد تک کرپشن کا راستہ روکا جاسکتا ہے۔ صبح کے اوقات اور سہ پہر میں گھر کا آرام اور سکون چھوڑ کر سخت گرمی اور سخت سردی میں امتحانی مرکز پہنچ کر ڈیوٹی کو کمال خوش اُسلوبی سے انجام دینا اتنا آسان کام نہیں ہے جتنا اداروں میں اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے افراد تصور کرتے ہیں۔ اداروں کی پالیسیاں ہی اداروں کے افراد کو کرپشن کرنے پر اُکساتی ہیں۔ اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ کرپشن کرنے والے کا احتساب کی بے خوفی سے حوصلہ بڑھتا ہے اور ایمانداری دکھانے والا مزید شکوک و بے یقینی کا شکار ہو کر اداروں کے بارے میں تشکیک پسندانہ رویہ اختیار کرتا ہے۔
جو بچے غریب ہیں اور ان کے پاس کسی بڑے سرکاری افسر کی سفارش بھی نہیں ہیں اور یہ زیادہ ذہین بھی نہیں ہیں، جب وہ امتحانی مرکز میں کُھلے عام پیسے لے کر اپنے سامنے پیپر حل ہوتا دیکھتے ہیں تو ان کے کلیجے پر تلواریں چلتی ہیں، انھیں اپنے آپ پر اور گھر والوں پر غصہ بھی آتا ہے اور اس وقت یہ کیا کچھ سوچتے ہیں، یہ جانتے ہیں یا رب جانتا ہے۔ ان کے ذہن میں تعلیم کا تصور، اُستاد کی اُستادی کا معیار اور امتحانی نظام کی فرسودگی پر جو غصہ آتا ہے اور رنج ہوتا ہے، اس کا اندازہ اے سی میں بیٹھے آرام دہ کرسی پر حکم جاری کرنے والا نہیں محسوس کر سکتا۔
دودھ کا دُھلا کوئی بھی نہیں، ہر ادارے میں کالی بھیڑیں موجود ہیں جن کا کام ہی ادارے کے تشخص کو مجروح کرنا اور اپنے مفادات کے حصول کے لیے کارِ منصبی کی حساسیت کا گلہ گھونٹنا ہوتا ہے۔ ایسے افراد کا احتساب بہت ضروری ہے۔ ستم یہ ہے کہ جرائم کی نشاندہی کرنے والے کا حوصلہ بڑھانے کی بجائے اُلٹا اُسی سے محکمانہ کارروائی کرنے کے لیے ثبوت بھی مانگے جاتے ہیں۔ ایماندار افراد ثبوت کہاں سے فراہم کریں، یہی وجہ ہے کہ وہ جرم ہوتا دیکھتے ضرور ہیں، لیکن خاموش رہتے ہیں کہ سامنے آنے سے ہمیشہ کے لیے پسِ پُشت ڈال دئیے جائیں گے۔ زبانِ خلق کو نقارہ خدا سمجھنے والے ذی شعور انسان کو اس بات کا ادراک ہوتا ہے کہ بات اور تیر کمان اور زبان سے نکل جائیں تو واپس نہیں آتے۔ موجودہ حکومت سے گزارش ہے کہ تعلیمی اداروں میں بیٹھی ہوئی کالی بھیڑوں کا قلع قمع کیا جائے اور ان کا ساتھ دینے والے افراد کا گھیرا بھی تنگ کیا جائے۔
پاکستان میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق شرح خواندگی 60 فیصد سے زائد ہے۔ لیکن حقیقت میں یہ 15 فیصد زیادہ نہیں ہے۔ تعلیم کا معیار بڑھانا ہے تو امتحانی طریقہ کار کو یکسر تبدیل کرنا ہوگا۔ مضمون کی طوالت کے پیشِ نظر مزید حقائق سے فی الحال اغماض برتا جا رہا ہے۔ اشارہ کر دینا اور صورتحال کو سامنے لا کر واضح کر دینا ایک صحافی کا کام ہے، ایکشن لینا، حقائق تک پہنچنا اور عملی اقدامات کرنا اداروں کی ذمہ داری ہے۔ جس کا کام، اُسے کو ساجھے کے مصداق باشعور افراد اندھیرے کے سامنے شمع جلاتے ہیں، اب اس شمع کے سامنے دیوار ہے یا اندھیرا، اہتمام کرنے والے کو اس سے فرق نہیں پڑتا۔