Begangi Ka Aalam e Tahayur
بیگانگی کا عالمِ تحیر
ہیلو، یہ محسن خالد محسنؔ کا نمبر ہے، جی، محترمہ، فرمائیے، آپ کون بات کر رہی ہیں؟ میں فائقہ بات کر رہی ہوں، فائقہ کون؟ آپ مجھے جانتے نہیں، میں دس برس پہلے آپ سے پڑھا کرتی تھی، آپ تو میرا نام اور آواز بھی بھول گئے۔ میری طبیعت ناساز ہے، اس لیے میں آپ کی آواز پر دھیان نہیں دے سکا، خیریت ہے آپ نے اِتنے برسوں بعد یاد کیا۔ جی، سب خیریت ہے، آپ کی یاد آرہی تھی، اس لیے آپ کو فون کیا۔ اتنے برسوں بعد آپ کو میری یاد آئی؟ نہیں، میرے پاس آپ کا نمبر نہیں تھا۔
اب نمبر کہاں سے ملا؟ آپ کی پہلی کتاب "کچھ کہنا ہے" میرے پاس محفوظ تھی، ہوا یوں کہ آپ تو بے وفا ہوگئے اور بھول بھال گئے لیکن مجھے تم ہمیشہ یاد رہے، آج سہ پہر میر ی بیٹی مجھ سے باتیں کرتے ہوئے پوچھنے لگی: ماما! آپ بھی پڑھتی تھیں، میں نے کہا: جی میری جان! میں بھی تمہاری طرح پڑھتی تھی، بیٹی نے کہا: اچھا! اپنی کتابیں مجھے دکھاؤ، میں نے سوچا، اسے کون سی کتاب دکھاؤں، میں اُٹھ کر الماری میں کتابیں تلاش کرنے لگیں جنھیں عرصہ دراز سے میں نے چُھو ا نہیں تھا۔
آٹھ دس کتابوں میں کلیاتِ اقبال، فیض احمد فیض کی "بادِ صبا"، ایم اے اُردو سالِ دوم کی گائیڈ اور "کچھ کہنا ہے" پر نظر پڑی تو جیسے وقت دس برس پیچھے لوٹ گیا۔ "کچھ کہنا ہے" کو دیکھتے ہی میں ایک لمحے 2014 میں واپس چلی گئی جب یہ کتاب آپ نے مجھے بطور تحفہ دی تھی اور کہا تھا کہ اس مجموعہ میں آپ کی محبت اور میرے کومل جذبات کا ہر لمحہ محفوظ ہے۔
اُو! اچھا: تو یہ بات ہے اور سناؤ، کیا حال احوال ہے آپ کا، شادی ہوگئی، بچے کتنے ہیں، میاں کیا کام کرتے ہیں، کہاں رہتی ہو؟ جی، شادی ہو چکی ہے، میاں بیرونِ ملک ملازمت کی غرض سے مقیم ہیں، دو بچے ہیں اور باقی سب ٹھیک ہے۔ میرے لائق کچھ حکم ہو تو عرض کیجیے۔ نہیں کوئی حکم نہیں بس اِلتجا ہے کہ کچھ دیر مجھے سُن لو، مجھے لگتا ہے میں گذشتہ دس برس سے گُنگ ہوگئی ہوں، کوئی مجھے سُنتا ہی نہیں اور نہ میرے جذبات و احساسات کی قدر کرتا ہے۔ گھر والوں نے اچھا رشتہ دیکھ کر مجھے ایک جانور کے ساتھ بیاہ دیا جس میں تمیز، احساس، مروت اور اپنائیت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔
گذشتہ دس برسوں میں کوئی چھے ماہ میرے ساتھ وہ رہا، اس عرصہ میں وحشی کُتوں کی طرح میرے جسم کو بھنبھوڑنے اور ذلت کی انتہائی گِراں حد تک مجھے خوار کرنے کے سِوا کچھ نہیں کیا۔ جنسی تشدد کے دنگل میں دو بچوں نے جنم لیا جو اپنے پیدا ہونے پر میری طرح شرمندہ ہیں جن کے تنفس سے بے توقیری کی بدبو آتی ہے۔ میں سوچتی ہوں یہ بچے جس ریپ زدہ جبری مباشرت کے نتیجے میں پیدا ہوئے ہیں ان میں انسانی تقویم کے روحانی داعیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ میری چھاتی میں ان کے لیے دُودھ نہیں اُترا، میری ممتا ان کے لیے ترستی نہیں ہے، میرا قلب ان کے لیے تڑپتا نہیں ہے، میری روح ان سے وحشت کھاتی ہے، ان سے دور بھاگنے کی چاہ میں اپنے آپ میں قید ہو کر رہ گئی ہوں۔
ایک رئیس زادے نے منہ مانگی قیمت دے کر مجھے خرید کر اپنا غلام بنا لیا ہے، بند کمرے میں اکیلا وجود تنہائی کی وحشت سے خُود کُشی کا کیسے سوچے کہ اس کے پاس اپنی جان لینے کا کوئی جواز بھی موجود نہیں۔ آپ اس قدر زندگی سے بیزار کیوں ہیں؟ میں زندگی سے بیزار کیوں نہ ہوں۔ میں ایک شوخ، چنچل اَلھڑ لڑکی تھی جس کی خواہشوں، اُمنگوں اور ترنگوں میں تمہارا سراپا بسا ہوا تھ۔ میں تمہارے خیال کے ساتھ جاگتی، سوتی، اُٹھتی، گاتی اور گنگناتی تھی۔
میں نے آپ سے اس طرح کا کوئی وعدہ نہیں کیا تھا؟ میں جانتی ہوں کہ تم نے اس طرح کا کوئی وعدہ نہیں کیا تھا لیکن تم نے ہنس کر دیکھا تو تھا، پیار سے مجھے پکارا تو تھا، میرے جذبات و احساسات کو مہمیز تو کیا تھا، میرے ارمانوں کو جگایا تو تھا، میرے خوابوں کو ازنِ پرواز تو دیا تھا۔ تم نہیں جانتے، تمہارا مسکرانا میرے لیے اُس وقت زندگی کا حاصلِ کُل بن گیا تھا اور اب عذابِ جاں بن چکا ہے۔
میں ایک معصوم، شوخ اور شرارتی لڑکی تھی جس نے زندگی میں کوئی غم دیکھا نہ کوئی الم اُٹھایا، تمہارے بے مروت روئیے سے میں اکثر خود کو کوستی تھی اور دل ہی دل میں تم سے جُدا ہونے کی قسمیں کھاتی تھیں لیکن مجھے لگتا تھا کہ تم لوٹ آؤ گے اور مجھے اپنی زندگی میں شامل کر لوگے۔ تم لوٹ کر نہیں آئے اور میں انتظار کر تی رہی، دس دن، چھے مہینے، دو سال اور پھر انتظار کی خواہش نے حسرت کے پھندے سے خود کُشی کر لی۔
یک طرفہ محبت کا جنازہ عشاق کو اکیلے پڑھنا پڑتا ہے سو میں نے بھی محبت کے جنازے کو کفنائے بغیر پچھتاوے کے مزار میں دفن کر ڈالا۔ محبت کی ماری پر معاشرے کا جبر بلائے نا گہانی کی طرح ٹوٹا اور آن کی آن میں مجھے ایک وحشی کے ساتھ باندھ دیا گیا جس نے دُنیا بھر کی آسائشیوں کا بہلاوا دے کر مجھے اپنا زر خرید غلام بنا لیا۔ یہ کیسی غلامی ہے کہ رہائی کی فریاد بھی نہیں کر سکتی اور غلامی سے سمجھوتہ کرنے کو ذہن و قلب آمادہ نہیں۔
طبیعت کی ناسازی کے باوجود میں اُس لڑکی کی باتیں سُنتا رہا، گھنٹہ بھر کی مفصل گفتگو جس میں ہر وہ بات، وعدہ، قسم اور عہد دُہرایا گیا جو میری ذات سے منسوب نہ ہونے کے باوجود میرے ساتھ متصل کیا گیا۔ فون کمپنی کا اللہ بھلا کرے، ایک گھنٹے کے بعد کال خود بخود کٹ جاتی ہے۔ گھنٹہ گزرنے پر کال کٹ گئی۔
سراسیمگی کے عالم میں دیر تک اُس لڑکی سے ہونی والی گفتگو پر میں غور کرتا رہا کہ اُس لڑکی کی زندگی کو اجیرن کرنے میں میرا کتنا دخل ہے؟ غور کرنے پرمعلوم ہوا کہ عمر کے ایک خاص حصے میں جب انسان عنفوانِ شباب میں قدم دھرتا ہے تو قبول صورت لڑکے کی آواز، چہرے، قامت، شخصیت اور روئیے کا صنفِ مخالف پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔ نوجوانی کے عالم میں انسان کو اپنے جذبات پر قابو نہیں رہتا۔ اسے ہر چیز میں رومانس اور محبت کا احساس چھلکتا محسوس ہوتا ہے، ہر چیز میں حُسن کی تابناک جلوہ گری دکھائی دیتی ہے۔ یہ عمر کا وہ خاص حصہ ہے جہاں سامنے والا نظر اُٹھائے تو سیدھا دل میں اُتر جائے۔
مجھے یہ احساس ہوا کہ میری مسکراہٹ، توجہ اور رومانوی لب و لہجے نے جانے کتنی لڑکیوں کے دل کو مُوہ لیا ہوگا جو دل ہی دل میں اپنے جذبات و احساسات کو میری ذات سے وابستہ کیے وصالِ باہم کے خواب بُنتی رہیں ہیں۔ میری ہو کر رہ جانے کی خواہش میں اسیر کب تلک میرا انتظار کرتی رہیں ہیں۔ میں نے شعوری طور پر کسی کو اپنے قریب کرنے کی نیت سے ایسا رویہ اختیار نہیں کیا، نہ ہی فلرٹ کرنے کی غرض سے دلگی کا سامان فراہم کیا۔
جو کچھ ہوا ہے لاشعوری اور لاعلمی میں ہوا ہے، مجھے اس عمل کے ردِعمل کا سزاوار کیوں ٹھہرایا گیا؟ کیا میں نے اس لڑکی کی زندگی واقعی اجیرن کی ہے جو دس برس بیت جانے کے باجود مجھے بھلا سکی نہ آگے بڑھ سکی۔ ایسا نہیں ہے، واقعہ یہ ہے کہ انسان سوچتا ہے اپنے حُسن کی جلوہ گری اور اداؤں کی ناز پروری سے دُنیا کو تسخیر کر لے گا۔ مطلوب چیز کو اپنی شخصیت کی چکا چوند طلسمی حِسیت سے مسخر کر لے گا، ایسا نہیں ہے۔ انسان بہت معصوم، بھولا اور لاعلم ہے، اسے پتہ ہی نہیں چلتا کہ وہ وقت کی چال میں کب آجاتا ہے اور خود کو کسی اور کا ہونے سے روکنے کی ممکنہ کوشش کے باوجود کسی کا ہو کر رہ جاتا ہے۔
یہ ہونے اور نہ ہونے اور ہو جانے کا عمل کیا خود اختیاری ہے؟ نہیں جناب! یہ جذبات و احساسات کی رام لیلا کا رہس ہے جہاں سوانگ رچائے اپنے فن سے دُنیائے عالم کو مبہوت کرنے کا جنون سوار ہوتا ہے۔ محبت، اپنائیت، عقیدت، چاہت ایسے رومانوی جذبات جبھی چٹکتے ہیں جب کوئی دل کو بھاہ جائے۔ انسان اپنے اندر عجیب و غریب اور محیر العقول صفات لیے ہے کہ اسے خود بھی نہیں معلوم کہ وہ کب تلک کسی کے لیے آہیں بھرتا رہے، کچھ نہ کر سکنے کے باوجود کچھ نہ کچھ کرنے کی آرزو میں غرق رہے۔
انسان عمر کے ہر حصے میں حیات و ممات کے مراحل سے گزرتا رہتا ہے، موت و حیات کے اس آواگونی واہمے میں کبھی محبت کی مات ہوتی ہے تو کبھی نفرت کی جیت، کبھی لاچاری سبقت لے جاتی ہے تو کبھی خود اختیاری اپنا جادو چلا جاتی ہے۔ انسان کہیں بے بس اور کبھی صاحبِ اختیار، کہیں معشوق اور کہیں عاشق، کہیں صاحبِ ثروت اور کہیں لاچاری۔
سب سے بڑی بے بسی اپنے آپ کو کسی ایک کے لیے روک رکھنا ہے اور سب سے بڑی خود اختیاری کسی کا ہو کر بھی نہ ہوسکنا ہے۔ عکس در عکس چہروں کی بہتات ذہن و قلب میں ایسا طلاطم پیدا کر تی ہے کہ انسان بہتات کی اس فراوانی سے چیخ اُٹھتا ہے اور ببانگِ دُہل کہتاہے کہ مجھ سے وابستہ ہر شخص مجھ سے لاتعلق ہو جائے کہ میں خود اپنے آپ سے بیگانگی کے عالمِ تحیر کا اسیری ہوں۔