Apni Shalwar Utaro
اپنی شلوار اُتارو
میں نے اُس سے کہا: "اپنی شلوار اُتارو"۔ یہ جملہ سُن کر وہ ہکا بکا رہ گیا۔ مجھ سے کہنے لگا: "یہ کیا بدتمیزی ہے؟"میں نے کہا: " آپ مجھ سے بات کیوں کرتے ہیں؟" اُس نے کہا: "بات اِس لیے کرتا ہوں کہ آپ سے بات کرنا اچھا لگتا ہے"۔ میں نے کہا: "آپ کو مجھ سے بات کرنا اچھا لگتا ہے، میں آپ کو اچھی لگتی ہوں، میرا چہرہ، میرے ہونٹ، میرا جسم اور میرا سراپا آپ کو اچھا لگتا ہے۔ میرے سراپے کا اچھا لگنا، اِس بات کی دلیل تو نہیں کہ آپ مجھے چاہتے ہیں اور چاہت کے اس چکر میں مجھے لُبھا کر رفتہ رفتہ میرا اعتما د حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
یہ مہم سَر کرنے کے بعد آپ میرے ہاتھ دیکھیں، پھر میری ٹانگیں دیکھیں گے۔ اس کے بعد مجھ سے میری پردہ پوش تصاویر مانگیں گے، پھر کُھلے بالوں والی اور پھر عُریاں تصاویر کا تقاضا کریں۔ اس کے بعد اورل سیکس سے وڈیو سیکس کی طرف مجھ کو لائیں گے، اس سے آگے مجھ سے نیوڈ مانگیں گے، اس کے بعد ڈیٹ کے لیے مجھے راضی کریں گے اور کسی نامعلوم جگہ پر بلوا کر اپنی ہوس پوری کریں گے اور شادی کا وعدہ کرکے ہاتھوں میں ہاتھ دے کر قسمیں اُٹھا کر کچھ روپے اور قیمتی تحائف دے کر ایک بےبنیاد من گھڑت بہانہ تراشیں گے۔
مجھ پر آوارہ، بد چلن اور ڈیٹڈ گرل کا الزام لگا کر میرا نمبرڈیلیٹ کریں گے اور مجھے اپنی زندگی سے نکال کر کسی اور لڑکی کو اپنی ہوس کے جال میں پھانسنے کی تگ و دو میں لگ جائیں گے۔ وہ بھی میری طرح بے وقوف ہوگی اور آپ کو معصوم، شریف، نیک اور سادہ لوح سمجھ کر آپ کی چِکنی چُپڑی باتوں میں آکر میری طرح بہل جائے گی، جو کچھ آپ نے میرے ساتھ کیا ہے وہی کچھ باردیگر کریں گے اور ہوس ناکی کا یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا۔ کیا یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا؟ شریف لڑکے بتاؤ! جواب دو"۔
وہ میری اِن باتوں کو سُن کر ششدر رہ گیا اور روہانسا ہو کر کہنے لگا: "میرا ایسا کوئی مطلب نہیں ہے، آپ نے سب مَردوں کو ایک جیسا کیوں سمجھ رکھا ہے؟"میں نے کہا: " میں نے سیکڑوں مَردوں کو اسی جنسی ہوس میں دھنسے پایا ہے، میرے قریب جو بھی آیا، اُس نے اِسی برہنگی اور عریانی کا مجھ سے تقاضا کیاہے، آپ اُن بیسویوں کی فہرست میں اکیسویں نمبر پر ہیں۔ اِن بیسویوں مَردوں میں ایک بھی ایسا نہیں دیکھا جس سے ہفتہ بھر کی رسمی چُگالی کے بعد کسی اور موضوع پر بات ہوئی ہو۔ تعارف سے بات شروع ہوتی ہے اور برہنگی کے تقاضے پر آکر ختم ہو جاتی ہے"۔۔
یہ گفتگو ایک شناسا بے باک لڑکی کی تھی جس سے میرا تعلق یوں تو واجبی سا ہے مگر اِس کے بے باک روئیے اور سخت تنقیدی افکار نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا تھا کہ ہمارے سماج میں لڑکے اور لڑکی کے درمیان فقط ہوس کا تعلق ہی باقی کیوں رہ گیا ہے۔ یہ لڑکی مجھے ایک مخلوط تربیتی ورکشاپ میں عملی سرگرمی کے دوران باہمی تعارف کے نتیجے میں ملی تھی جس سے تعارف کے بعد مزید شناسائی ہوئی اور ہم دونوں یونیورسٹی کے سر سبز لان میں گھنٹہ بھر مختلف موضوعات پر گفتگو کرتے رہے جس کا زیادہ تر حصہ سماجی اقدار کے انحطاط زدہ تَنزُل پر مبنی تھا۔
اِس لڑکی کی بظاہری وضع قطع او ر ڈیل ڈول سے مجھے یہ محسوس ہوا کہ یہ اندر سے بہت ٹوٹی ہوئی ہے، اس کے پاس کوئی کہانی ہے، اس سے بات کرنی چاہیے۔ مجھے ٹوٹے ہوئے انسان شدت سے اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ انسان جیسا خود ہوتا ہے ویسا ہی دوسروں میں منعکس دکھائی دیتا ہے۔ اس لڑکی کے خیالات کی پختگی اور احساسات کی سنجیدگی نے مجھے دورانِ گفتگو بہ حیثیتِ مرَد خاصا شرمسار کیا اور یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ ہزاروں برس کی ذہنی تنگ دامانی کو ہم نے وراثت سمجھ کر سینے سے چمٹا رکھا ہے اور اس سے جان سے چھڑانے کی ضرورت گوارا نہیں کی۔
یہ واحد لڑکی ہے جس نے مجھے دو منٹ گفتگو کرنے کے بعد یہ سوال داغا تھا کہ اگر میں کہوں کہ تم مجھے بہت پسند ہو اور میرے لیے تم وہ کرو گے جو میں چاہتی ہوں تو تمہارا کیا جواب ہوگا؟ سوال سُننے کے بعد میں بھی اُسی طرح بھڑک اُٹھا تھا جس طرح مضمون کے آغاز میں مذکور صاحب سیخ پا ہو گئے تھے۔ اس لڑکی سے ہوئی گفتگونے مجھے ہلا کر رکھ دیا تھا۔ مجھے شدت سے یہ احساس ہوا کہ آج تک ہم مَرد ہی اس طرح کیوں سوچتے ہیں، کیا لڑکیاں ہمارے بارے میں بھی ایسی ہی سوچ رکھتی ہیں اور قسم قسم کے اندیشے، واہمے اور تصورات لیے ہماری جملہ حرکات و سکنات کو ٹٹولتی رہتی ہیں، اس ذہنی خلجان کی دِگرگونی سے میں قطعی بے خبر تھا۔
سوال یہ ہے کہ ایک لڑکی اگر لڑکے کو کہتی ہے کہ شلوار اُتارو، تو اس میں بھڑکنے اور سیخ پا ہونے کی ضرورت کیا ہے؟ یہ سوال اگر ایک لڑکا کرتا ہے تو لڑکی کی طرف سے مزاحمت دیکھ کر لعن طعن کیوں کی جاتی ہے؟ کیا ہمارے سماج میں ایک دوسرے کو ننگا دیکھنے کا شوق ہی باقی رہ گیا ہے؟ ہمارے سماج میں اڈلٹ (جنسی طور پر بالغ) ہونے کا مطلب صنفِ مخالف کے عُریاں جسم کو ہر زاویے سے دیکھنا اور اس سے تلذذ محسوس کرنا زندگی کا حاصلِ کُل رہ گیاہے؟
حقیقت یہ ہے کہ پورن سائٹس کی وجہ سے یہ بے ہودگی ہمارے سماج کے نوجوان بچے بچیوں کو گُھن کی طرح چاٹ رہی ہے اور کوئی اِس پر بات کرنے والا نہیں ہے۔ کلاس رومز سے لے کر بیڈ رومز تک پورن سائٹس کی لَت کا نظارہ سرِ عام دیکھا جاسکتا ہے۔ پانچ سال قبل ایک انڈین فلم (انگریز) آئی تھی جس میں دُولہا نے اپنے ہم جولیوں سے یہ ضد کی تھی کہ مجھے اپنی بیگم کو ایک دفعہ دیکھنا ہے، دولہا کے دوستوں نے ضد کے آگے سرنگوں ہو کر تلاشِ بسیار کے بعد دُلہن کا ہاتھ بمشکل دولہا کو دکھا یا تھا جس پر دولہا میاں نے خوش ہو کر کہاتھا کہ یارو! میری وُوٹی دا ہتھ اَیناں سوہنا اے تے باقی وی سب سوہناں ای ہو وے گا (میری بیوی کا ہاتھ اتنا خوبصورت ہے تو باقی جسم بھی خوبصورت ہوگا)۔
بات یہ ہے کہ جس چیز کو رب تعالیٰ نے چُھپانے کو کہنا ہے اور اِسے حد قرار دیا ہے۔ آپ خود بتائیے، اس حد کو توڑ کر آگے بڑھنے والا تعزیز سے کیسے بچ سکتا ہے؟ سوال یہ ہے کہ آج ہمارے بچے جس برق رفتاری سے پورن سائٹس کے ایڈکٹڈ (عادی) ہو رہے ہیں اور مباشرت کے عمل کو سیکڑوں انداز سے سیکس موویز میں ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ اس کے سیکڑوں نقصانات میں ایک نقصان یہ ہو رہا ہےکہ لڑکے کے سر پر لڑکی کے اعضائے مخصوصہ سوار ہیں اور لڑکی کے تخیل میں لڑکے کا پوشیدہ جسم محوِ رقص رہتا ہے۔ دونوں کے ذہن میں ایک جنگ جاری ہے جس میں دونوں کو مسلسل ہار ہو رہی ہے۔
لڑکا جب کسی برقع پوش پورے کپڑوں میں ملبوس لڑکی کو دیکھتا ہے تو سوچتا ہے کہ اِن کپڑوں کے نیچے کیا چُھپا ہوا ہے۔ اس لڑکے کے ذہن میں یہ تجسس کہاں سے آیا ہے، ظاہر ہے پورن سائٹس کی ایڈکشن کی وجہ سے آیا ہے، دوستوں کی جنسی گفتگو، گھر سے باہر کے ماحول اور معاشرت، سماجی اقدار کے تنزل اور خانگی حوائج کی ارزانی کی وجہ سے آیا ہے۔ سماج میں جو کچھ کارفرما ہے، اِس کا مظاہرہ اِس ماحول کے پروردہ اذہان میں ظاہر ہو کر رہے گا۔
ایک صد میں پچانوے فیصد شرح کسی نہ کسی حوالے سے پورن سائٹس کے بارے میں جانتی ہے۔ کیا اب بھی ہم دم سادھ کر چُپ بیٹھے رہیں گے اور اپنے بچوں کو اسی طرح تباہ ہوتا دیکھتے رہیں گے۔ انھیں جنسی ہوس پوری کرنے کے لیے کسی بھی حیلے سے صنفِ مخالف ہاتھ نہ آنے اور باوجود کوشش کے ریپ نہ کرسکنے کی خواہش سے محروم ہو کر غسل خانوں میں مُشت زنی اور ماسٹر بیشن کرکے اپنا بیڑا غرق کرنے کی اجازت دیتے رہیں گے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں اپنے بچوں کی جملہ داخلی وخارجی اور بیرونی و اندرونی کیفیات و واردات اور حرکات و سکنات پر گہری نظر رکھنا ہوگی۔ ان کے دوستوں پر نظر رکھنا ہوگی۔ ان کے گھر آنے جانے اور کمروں میں بند رہنے پر نظر رکھنا ہوگی۔ ان کے کھانے پینے، پہننے اوڑھنے اوربناؤ سنگھار کے انداز پر نظررکھنا ہوگی۔ ان کی ذاتی الماری کو گاہے گاہے دیکھنا ہوگا۔ ان کے کپڑوں کی تلاشی لینی ہوگی، ان کی کتابوں اور بٹوؤں کو دیکھنا ہوگا۔ بچے آپ کے ہیں، آپ نے ان کو پیدا کیا ہے، آپ نے ان کی تربیت اور پرورش کا ذمہ لیا ہے۔ اگر یہ رب تعالیٰ کی حدود کے خلاف کوئی اقدام کریں گے تو اس کا احتساب معاشرے نے یہاں اور روزِ قیامت رب تعالیٰ نے وہاں کرنا ہے۔ اس لیے کہ یہ رسائی اور سہولت آپ نے انھیں مبہم پہنچائی ہے۔
بچہ جوان ہونے سے پہلے بوڑھا ہو جائے اور آپ کو اِس کی خبر ہی نہ ہو، یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ آپ کو اس لاعلمی کا قصوروار ٹھہرایا جائے گا۔ آپ یہ کیوں نہیں سمجھ رہے کہ وقت بدل چکا ہے، اب کسی پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔ آپ کے بچوں کا سب سے بڑا دُشمن آپ کی اوورلوکنگ اور بے جا پیمپرنگ کا رویہ اور یقینِ کامل ہے جو آپ نے اپنے بچوں پر کر رکھا ہے۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ کوئی بات نہیں، بچے ایسے ہی کرتے ہیں تو پھر یہ بچے ایسا ضرور کریں گے اور آپ کی شہرت کے آسمان پر ایسے نقش کندہ کریں گے جن کی ستائش کا صدمہ آپ کو بعد ازموت قبر میں بھی مضطرب و پشیمان رکھے گا۔
بچوں کی تعلیم و تربیت اور ان کی جملہ شخصیت کی نَک سِک درست کرنے کی ذمہ داری والدین یعنی آپ پر ہے۔ یہ کام کوئی اور شخص، ادارہ اور تنظیم نہیں کر سکتی۔ عُریانی، فحاشی، بے ہودگی اور جنسی ہوس کا عنصر ہمارے سماج کے مثبت اور تعمیری افکار کو جس تیزی سے رو بہ زوال کر رہا ہے، یہ رجحان اگر اِسی طرح برسر پیکار رہا تو پانچ دس برس میں ہمارے سماج کی جملہ اخلاقی، سماجی، تہذیبی اور دینی اقدار اپنی موت آپ مر جائیں گی اور پاکستانی سماج پورستانی سماج (خاکم بدہن، اللہ نہ کرے) بن جائے گا جہاں کسی کی بیٹی، بہن، ماں اور بیوی محفوظ نہیں رہے گی۔ ہر چیز کے درست اور غلط استعمال کا فرق اِس کے بنانے اور ایجاد کرنے والے نے متعین نہیں کرنا بلکہ اس کے استعمال کرنے والے نے خود سے یہ طے کرنا ہے کہ مجھے اس آلہ کا استعمال کیوں، کیسے اور کس طرح کرنا ہے۔
ہمارے سماج کی موجودہ صورتحال کا تقاضا ہے کہ یہاں بِلّے کو ڈنڈا مارنا ہے، دودھ کو بچانا ہے اور کٹورے کا منہ بھی ڈھانپ کر رکھنا ہے۔ یہ ایک حسّاس ذمہ داری ہے، خدا کے لیے اپنی اس ذمہ داری کو محسوس کریں اور اس کی انجام دہی کے لیے سمجھوتہ نہ کریں۔