Social Media Aur Ikhlaqi Asraat
سوشل میڈیا اور اخلاقی اثرات
سوشل میڈیا جس کا استعمال اس قدر بڑھ گیا ہے کہ قریباً ہر نوجوان ہی اس کا صارف ہے۔ پاکستان میں جنوری 2024 کے اعداد و شمار کے مطابق 11 کروڑ انٹرنیٹ کنکشنز ہیں اور قریبا 7 کروڑ سوشل میڈیا صارف ہیں اور ان میں بڑی تعدار نوجوانوں کی ہے۔ آج قریباً ہر نوجوان کے پاس سمارٹ فون موجود ہے اور وہ سوشل میڈیا کا استعمال کر رہا ہوتا ہے۔
سوشل میڈیا پر موجود مواد (Data) کو جزباتی نہی بلکہ زمینی حقائق اور عقل کی کسوٹی پر پرکھنا چاہیے۔ بدقسمتی سے ہمارے نوجوان (جن میں میں بھی شامل ہوں) سوشل میڈیا متاثرین ہیں کہ جن کو سوشل میڈیا کے توسط سے جو بھی فیڈ کیا جائے اسی کو حق سچ سمجھ بیٹھتے ہیں۔ بدقسمتی سے یہ نوجوان صحافی اور فین بوائز (جو کسی پارٹی یا لیڈر کے مداح ہوں) میں فرق تلاش نہیں کر پاتے۔
یہ طبقہ کسی کو غدار اور ملک دشمن کہنے سے قبل لمحہ بھر سوچنا گوارا نہی کرتا۔ ان کے نزدیک شاید ایک انہی کا لیڈر حق اور سچ کا علم بلند کرتا ہے اور جو کوئی ان کے لیڈر کی مخالفت کرے تو سوشل میڈیا کے ذریعے ایسا ٹرول کیا جاتا ہے کہ الحفیظ والامان۔ ایک 30 سیکنڈ کی ریل(Reel) یا سیاق و سباق سے حزف شدہ بیان پر بیانیہ کیسے بنایا جاتا ہے اس ضمن میں ان کا تجربہ قابل تقلید ہے۔
ایک وقت تھا کہ جب ایک سیاسی جماعت کے لیڈر کا اسٹیبلیشمنٹ سے رومانس تھا تو تب فیفتھ جنریشن وار کے نام پر تیار شدہ یہ بریگیڈ ہر اس شخص کو کاٹنے کو دوڑتی تھی جو ملٹری اسٹیبلیشمنٹ سے اختلاف کرتا تھا۔ حامد میر، اسد علی طور، مطیع اللہ جان، منظور پشتین اور علی وزیر ان کے نشانے پر ہوا کرتے تھے۔ ان کو غدار وطن کہا جاتا تھا لیکن آج وہی حامد میر اور اسد علی طور ان کو محب وطن لگتے ہیں۔ اب ان کو پشتون تحفظ مومنٹ اور مہرنگ بلوچ کا دکھ، درد بھی محسوس ہو رہا ہے۔
بیانیے اور ٹرینڈز اس زور سے چلائے جاتے کہ کارکنوں کے دماغ ماؤف کر دیے جاتے کیوں کہ مواد ویڈیوز اور ٹویٹس کی صورت میں اتنا کثیر ہوتا ہے کہ ان ننھے ذہنوں کو سوچنا کا موقع ہی نہی دیا جاتا۔ دوسری چیز کے سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز کا الگوریتھم آپ کو وہی چیزیں دکھاتا ہے جن میں آپ کی دلچسپی ہو کیونکہ ان کا واحد مقصد صارف کو اپنی ایپلیکیشن پر انگیج رکھنا ہے تاکہ وہ ذیادہ سے زیادہ وقت ان کے پلیٹ فارم پر گزارے۔
بزریعہ سوشل میڈیا ان کو یہ فیڈ تو کر دیا گیا کہ فلاں، فلاں چور اور ڈاکو ہے مگر جب ان سے چوری کی بابت سوال کیا جائے کس نے کب کرپشن کی اور کتنا مال لوٹا تو معزرت کے ساتھ انہیں الف ب بھی معلوم نہیں ہوتی۔ ان کا ایک خاصہ یہ بھی ہے کہ ان کو مخالف جماعت سے تعلق شدہ ہر شخص جاہل معلوم ہوتا ہے۔ جزباتیات میں اتنے آگے بڑھ چکے ہیں کہ کھمبے کو بھی ووٹ ڈالنے پر راضی ہو جاتے ہیں۔
دوسری سیاسی جماعت جو کہ موجودہ وقت میں صاحب اقتدار ہے اور موجودہ اسٹیبلیشمنٹ ان کا معاشقہ زبان زدعام ہے اب وہ بھی سوشل میڈیا کے ذریعے غلاظت بکیھرتی نظر آتی ہے۔ حامد میر، اسدطور اور مطیع اللہ اب ان کے نشانے پر ہیں کیونکہ اب پالیسی انٹی اسٹیبلیشمنٹ نہی بلکہ پرو اسٹیبلیشمنٹ ہو چکی ہے۔
اس سوشل میڈیا پر کی جانے والی ذہن سازی نے جتنا نقصان ان نوجوان ذہنوں کو پہنچایا ہے وہ ناقابل تلافی ہے۔ اس تعفن زدہ ماحول میں جہاں اختلاف رائے کو گناہ سمجھا جاتا ہے آپ مجھ سے کھل کر اختلاف رائے کر سکتے ہیں میں آپ کی رائے کو احترام کی نگاہ سے دیکھتا ہوں اور قابل قدر سمجھتا ہوں۔
نوٹ: (یہ آرٹیکل خالصتا سیاسی جماعتوں کے بیانیوں سے معاشرہ پر ہوئے اخلاقی اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے لکھا گیا ہے۔ اس سے کسی کی حکومتی اور معاشی کارکردگی کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا ہے)۔